• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فراڈ جمہوریت کے پانچ سال مکمل کیا ہوئے کہ کچھ مخصوص طبقوں میں شادیانے بجائے جا رہے ہیں، مبارکبادیں وصول کی جارہی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان نے ایک نئی تاریخ رقم کر لی۔ پاکستان تو بچارا بے زبان ہے ورنہ چیخ چیخ کر بتاتا کہ اس پر کیا گزری۔ عام پاکستانی سے پوچھیں تو دعائیں مانگی جا رہی ہیں کہ اللہ پاکستان کو ایسی جمہوریت پر قربان ہونے سے بچا لے۔ جس فراڈ جمہوریت کا گھناؤنا چہرہ گزشتہ پانچ سال ہم نے دیکھا اگر وہی ”جمہوریت“ ہمیں آئندہ پانچ سال میں بھی ملتی ہے تو پھر (معاذاللہ) پاکستان کو بھول جائیں۔ ایسا سوچنا بھی ایک ڈراؤنا خواب نظر آتا ہے۔ مگر فراڈ جمہوریت ہم پر مسلط کرنے والوں کی ڈھٹائی دیکھیں کہ جمہوریت کے نعرہ پر پوری قوم کو نچا رہے ہیں ۔ لٹیرے، ڈاکو، جعلی ڈگری والے، ٹیکس چور، قبضہ مافیا سب کے سب کو اس نعرہ پر نہ صرف ہر جرم کی یہاں عام معافی دے دی جاتی ہے بلکہ انہیں بڑی عزّت و احترام کے ساتھ پارلیمنٹ میں بھیجا جاتا ہے اور صدر، وزیر اعظم ، گورنر، وزیراعلیٰ، وزیر مشیر اور ہر اعلیٰ عہدہ بھی اس پر نچھاور کر دیا جاتا ہے تا کہ وہ بلا روک ٹوک قومی دولت کی لوٹ مار کرتے رہیں اور اگر کوئی ان کے کرتوتوں پر سوال پوچھنے کی جرأت کرے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ عوم اپنے ووٹ سے اُن کا احتساب کریں گے اور یہی جمہوریت ہے ۔
ایک طرف عوام کو جمہوریت کے نام پر نچانے والوں کی بے شرمی تو دوسری طرف چوہدری شجاعت، مشاہد حسین اور ق لیگ سے تعلق رکھنے والے کچھ دوسرے افراد بشمول پارٹی خواتین کو ٹی وی چینلز نے گزشتہ ہفتے ایک بیہودہ ناچ دیکھتے ہوئے جب دکھایا تو بجائے اس پر شرمندہ ہونے کے چوہدری صاحب نے فرمایا کہ یہ تو ہمارے کلچر کا حصہ ہے اور یہ کہ انہیں تو اس ناچ میں کوئی معیوب بات نظر نہیں آئی۔ذاتی طور پر میرے لیے یہ تعجب کی بات تھی کہ یہ ناچ گانا اور ڈانس چاہے اس کو کلچرل شو کا نام دیں یا مُجرا کہیں، چوہدری صاحب کے کلچر کا حصہ ہے۔ میں تو ہمیشہ سمجھتا رہا کہ چوہدری صاحب کا تعلق ایک مشرقی اور اسلام پسند خاندان سے ہے۔ چوہدری صاحب نے اپنی پارٹی کے مرد رہمناؤں کے علاوہ خواتین کے ساتھ اپنے کلچر کا یہ مظاہرہ دیکھا۔ اگر چوہدری صاحب نے واقعی سچ بات کہی ہے تو کیا وہ یہ سب کچھ اپنی خواتین اور بچوں کے ساتھ بیٹھ کر دیکھ سکتے ہیں جو اُن کے بقول اُن کی ثقافت ہے۔میری اطلاع کے مطابق چوہدری صاحبان کی خواتین باپردہ، باوقار ااور مذہبی سوچ سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس کے باوجود چوہدری صاحب نے اس بیہودگی، جس کو ساری دنیا نے دیکھا کو کس آسانی سے ہمارے کلچر سے جوڑ دیا۔ ہو سکتا ہے وہ اُن کا سیاسی بیان ہو ورنہ چوہدری صاحب ہی فیصلہ کریں کہ کیا ہمارے ایک فیصد گھروں میں بھی اس بیہودگی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے؟ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ چوہدری صاحب کے اندر مشرف کے ساتھ گزرے دنوں کی روشن خیالی جاگ گئی ہو۔ مشرف تو نہ صرف سر پر جام رکھ کر خود رقص کیا کرتے تھے بلکہ طبلہ بجانا، ناچ گانا کرنا اُن کے بھی کلچر کا حصہ تھا ۔ یہاں تو کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو کوٹھوں اور کوٹھے والوں کو بڑے فخر سے اپنے کلچر کا حصہ گردانتے ہیں۔مگر ایسے کسی کلچر کا اسلام اور عام پاکستانی سے کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ اُن کے نزدیک یہ بے غیرتی اور بے حیائی کے علاوہ کچھ نہیں۔ ذرا اپنے اردگرد دیکھیں ہماری کتنیمائیں، بہنیں، بیویاں اور بیٹیاں دوسروں کا دل بہلانے کے لیے رقص کرتی اور گانا گاتی ہیں۔ بلکہ کسی محلے اور علاقے میں کوئی ایسا ”روشن خیال“ خاندان رہتا ہو تو ہمسائے اور محلہ دار اُن سے تعلق رکھنے سے بھی کتراتے ہیں۔چوہدری صاحب کی ”ثقافت“پاکستان کے کچھ بگڑے ہوئے امیرزادوں اور مغرب زدہ افراد کی زندگی کا حصہ تو ہو سکتی ہے مگر وہ کچھ جو ٹی وی چینلز نے دکھایا، اُس کا تعلق نہ تو ہماری ثقافت سے ہے اور نہ ہی وہ کسی بھی طرح ہمارے لیے فخر کا باعث ہے۔ مگر سیاست دان کچھ بھی کر لیں اُن کی تاویلات کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔اگر سیاست دان اپنے کیے پر شرمندگی یا احساس ندامت کرتے تو پھر پی پی پی نے اپنامنشور پیش کرنے کے نام پر جو مذاق کیا وہ بھی ممکن نہ ہوتا۔ کرپشن کے الزامات سے لتھڑے امین فہیم اور یوسف رضا گیلانی نے قمر زماں کائرہ اور دوسرے پارٹی لیڈروں کی موجودگی میں اعلان کیا کہ اُن کی پارٹی (جس نے گذشتہ پانچ سالوں میں کرپشن، بد عنوانی اور نااہل حکمرانی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے اور عوام کو بھوک افلاس، بے روزگاری اورغربت کے علاوہ کچھ نہ دیا) اگر آئندہ حکومت بناتی ہے تو عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان کے علاوہ روز گار، تعلیم اور صحت کی سہولتیں میسر کرے گی۔ کس کمال جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کو اندھیروں میں دھکیلنے والوں نے یہ بھی وعدہ کیا کہ وہ پانچ سال میں دس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کریں گے۔ ٹیکس چوروں کی پارلیمنٹ کے نمائندوں نے یہ بھی وعدہ کیا کہ وہ ٹیکس نیٹ کا دائرہ بڑھائیں گے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سالوں میں اٹھارہ ہزار ارب روپے کی پاکستان میں کرپشن ہوئی مگر پی پی پی کا منشور پیش کرنے والوں نے قوم سے معافی مانگنے یا کسی قسم کی شرمندگی کا اظہار کرنے کی بجائے کہا کہ اُن کو اپنی کارکردگی پر کوئی پچھتاوا نہیں بلکہ انہوں نے تو میثاق جمہوریت پر پچاسی فیصد عمل کیا۔
نوٹ: انٹر نیٹ استعمال کرنے والے اکثر قارئین مجھ سے میرے facebook page اورtwitter اکاؤنٹ کے بارے میں پوچھتے ہیں جس کے لیے میں یہاں یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ نہ تو میرا facebook page اور twitterاکاؤنٹ کبھی تھااور نہ ہے۔ میرے نام سے منسوب جو بھی فیس بک اور ٹیوٹر اکاؤنٹ اس وقت چل رہے ہیں وہ جعلی ہیں اور اُن کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔
تازہ ترین