• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے بزرگ ترین پریس فوٹو گرافر کے طور پر سب سے زیادہ شہرت، محبت، عزت اور نیک نامی کمانے والے ہمارے ،ہم پاکستان کے بیسویں پرآشوب اور آزمائشی صدی کے صحافت کی آزادی، جمہوریت کی بحالی اور کارکن صحافیوں کے حالات کار کی بہتری کی زبردست جنگوں کے لڑنے والے، ان جنگوں میں مارے جانے والے اور ان جنگوں کو جیت جانے والے اخبار نویسوں، لاکھوں دوستوں اور ہزاروں شاگردوں کے محبوب جگت چاچا ایف ای چودھری پندرہ مارچ بروز جمعہ ان کی ایک سو پانچویں سالگرہ منانے والوں کو اداس چھوڑ کر رنگ وبو، صوت و آہنگ اور فتنہ و فساد کی دنیا سے رخصت ہو کر ہماری خوشگوار یادوں کا قیمتی حصہ بن گئے۔
اخبارات نے اور ٹی وی چینلوں نے اپنی زندگی اور کارکردگی کی شاندار سینچری مکمل کرنے والے چاچا چودھری کے حالات زندگی، ان کی کارکردگی، قومی خدمات اور اپنی برادری کے حالات کار کو بہتر بنانے کی کوششوں کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ ان سب باتوں کو دہرانے کی ضرورت نہیں۔
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ملک اور قوم کی بے بدل خدمات کے اعتراف میں حکمرانوں اور قدردانوں کی طرف سے تمغہ ہائے کارکردگی،شجاعت اور بسالت کے قومی ایوارڈز اپنے سینوں پر سجانے والے پاک بھارت جنگ کے ہیرو سہیل چودھری جیسے بیٹوں کا بھی جائز طور پر عزت و احترام سے ذکر کیا گیا ہے جس کے وہ یقینی طور پر حقدار تھے۔
یہ بھی بتایا گیا ہے بطور پریس فوٹو گرافر چاچا ایف ای چودھری نے اپنی زندگی کے صدی سے لمبے عرصے پر پھیلی ہوئی تاریخ کے تمام اہم واقعات اور حادثات، پاکستان کی اب تک کی تاریخ کے اہم مراحل کو اپنے کیمرے میں محفوظ کیا ہے۔ یہ ریکارڈ پاکستان کے قیمتی اثاثوں میں بہت ہی نادر اضافے کا سبب بن سکتے ہیں۔ بنائے جاسکتے ہیں۔
اس سلسلے میں یہ تجویز آسکتی ہے کہ اس اہم ضرورت پر پنجاب کے نئے گورنر کی توجہ مبذول کرائی جائے جن کے بزرگوں نے بہاولپور کی اسلامی یونیورسٹی کو بے شمار قیمتی دستاویزات سے سجا کر دنیا کی اہم ترین دانش گاہوں کی صف میں لاکھڑا کیا ہے۔ گورنر پنجاب بلحاظ عہد پنجاب یونیورسٹی کے چانسلر بھی ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغات ،جرنلزم یا ماس کمیونی کیشن سے گزارش کی جاسکتی ہے کہ وہ متقدر اور معروف صحافیوں کو عزت افزائیوں یا ان کے عزیزوں کو عہدے اور روزگار کی فراہمی کے ذریعے خوش کرنے کی بجائے یا علاوہ چاچا ایف ا ی چودھری کی زندگی بھر کی محنت اور کارکردگی کو قومی اثاثے کا حصہ بنانے کے فرض کی ادائیگی کا اعزاز بھی حاصل کرے ۔چاچا ایف ای چودھری کی فوٹو گرافی کے ریکارڈ کی”کیٹ لاگنگ‘ کی جائے۔ تصویروں کی تاریخیں اور ان کے تعارف تیار کئے جائیں۔ اس سلسلے میں چاچا کے پس ماندگان کا تعاون حاصل کیا جاسکتا ہے۔ سینئر صحافیوں کی مدد بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ چا چا ایف ای چودھری کی آخری رسوم کی ادائیگی میں بہت سے ایسے اہم لوگوں ،صحافیوں اور سیاستدانوں کی عدم موجودگی شدت سے محسوس کی جائے گی جو چاچا چودھری کی آخری رسوم سے بہت پہلے وفات پاچکے ہیں ورنہ وہ یقینی طور پر چاچا ایف ای چودھری کی آخری رسوم میں شریک ہوتے۔ ان میں میاں ا فتخار الدین، مظہر علی خاں، فیض احمد فیض، چراغ حسن حسرت ، احمد ندیم قاسمی اور ظہر بابر سے لے کر اے بی ایس جعفری، احمد علی خاں، اے ٹی چودھری ، صفدر قریشی، اسرار احمد، سید سلامت علی، سید امجد حسین اور شفقت تنویر مرزا تک بے شمار لوگ ہوتے اور اگر چاچا ایف ای چودھری کی روح یہ منظر دیکھ رہی ہوتی تو شاید کہتی کہ #
آکے منزل پہ آنکھ بھر آئی
سب مزہ رفتگاں نے لوٹ لیا
تازہ ترین