• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جمہوریت کے نام پر پیپلز پارٹی کا 5 سالہ سیاسی سفر بالآخر ختم ہوا۔ لیکن راجہ پرویز اشرف کو بدستور وزیراعظم دیکھ کر کبھی کبھی گمان ہوتا ہے کہ نہیں! وہ ابھی بھی پیر تسمہ پا کی طرح ہماری گردنوں پر ہی سوار ہیں!
گو مگو اور یقین نہ آنے کی کیفیت بالکل اس بہاری بابو کی سی ہے، جس کی بیوی کو تاوان کے لئے اغواء کر لیا گیا۔ ملزموں نے بہاری کو فون کیا اور کہا ،
”دیکھو ببوا… تمری بیوی ہمرے قبضے ماں ہے! 5 کروڑ دوگے تو چھوڑ دیویں گے“
بہاری نے کہا
”میں کیسے مانو… وا تمرے قبضے میں ہے؟“
اغواء کرنے والے نے کہا،
”تو ہم نشانی کے لئے ان کی انگلیاں کاٹ کے بھیج دیویں ہیں؟“
بہاری بولا
”ابے سسرے! انگلی سے کیا پہچان ہووے گی۔ بھیجنا ہے تو اس کی ”منڈی (گردن) کاٹ کر بھیج“
اب پیپلز پارٹی کی حکومت کی منڈی کون سی ہے، جو کٹے تو سب کو یقین آئے کہ حکومت واقعی چلی گئی؟ ہمیں اس کا تو علم نہیں لیکن یہ ضرور پتہ ہے کہ اپنے آخری روز انہوں نے سی این جی کے 70 نئے لائسنس جاری کرنے کے علاوہ اربوں روپے کے ٹھیکے معاہدے اور چیک ”کلیئر“ کئے، جب ایوان اقتدار کی جھاڑو پھیر کر صفائی کر دی تو راجہ پرویز اشرف کو یاد آیا کہ ابھی تو قوم سے بھی خطاب کرنا ہے، سو وہ رات کو دس بجے شیروانی پہن کر ٹی وی پر آ بیٹھے اور ”مصائب“ پڑھنے شروع کر دیئے!
راجہ صاحب خطاب کر رہے تھے کہ سیاسی حکومتیں سازشوں کا شکار رہیں، کسی حکومت کو مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔ تو مجھے کچھ اور بھی یاد آیا۔ یہ درست ہے کہ ”مہربانوں“ نے سیاست دانوں کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہیں کیا مگر سوال یہ ہے کہ سیاست دانوں نے خود اپنے ساتھ کیا کیا؟ جب وہ جونیئر رینک کے افسروں سے ہدایات لے کر اپنی سیاسی حکمت عملیاں ترتیب دیتے رہے تو ان کے ساتھ سلوک بھی درست ہوتا رہا…!
یادش بخیر… پاکستان میں ایک وزیراعظم ایسا بھی ہو گزرا ہے جس کی دیانت کی آج بھی قسم کھائی جا سکتی ہے۔ سندھڑی کے اس جناح پوش، سیاست دان نے تن تنہاء جنرل ضیاء الحق جیسے آمر کے نتھنوں سے دھواں نکلوا دیا۔ وہ پہلا وزیراعظم تھا جس نے سیاست دانوں، ججوں اور جرنیلوں کو دس دس گز لمبی گاڑیوں سے نکال کر 13 سو سی سی کی گاڑیوں میں بٹھا دیا۔ جرنیل کی مرضی کے خلاف جنیوا معاہدہ کر کے افغان جنگ ختم کی۔ جونیجو نے ہی بے نظیر بھٹو کو جلا وطنی ختم کر کے وطن واپسی کے لئے محفوظ رستہ دیا۔ جرنیل بھی ”کرونڈیا“ سانپ تھا۔ اس نے آرٹیکل 58 ٹو بی کے تحت جونیجو حکومت کو برطرف کر دیا۔ سپریم کورٹ جونیجو حکومت بحال کرنے جا رہی تھی تو جنرل کے جانشین جنرل اسلم بیگ نے بڑے باپ کی اولاد وسیم سجاد کے ذریعے چیف جسٹس کو ہدایات بھجوا دیں کہ جونیجو حکومت بحال نہیں ہو گی…!
یہ تو تھا فوج والوں کا سیاستدانوں کے ساتھ سلوک! اب آیئے دیکھیں، سیاست دانوں نے اس بڑے سیاست دان کے ساتھ کیا کیا!!
اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں مسلم لیگ کے اجلاس میں، آج کے عظیم سیاسی قائد میاں محمد نواز شریف کے حامیوں نے دنگا کیا ایک دوسرے پر پلیٹیں پھینکیں اور اپنی مسلم لیگ جدا کر لی۔ نئی بننے والی مسلم لیگ کے سربراہ اس وقت فدا محمد خاں کو بنایا گیا اور خود موصوف میاں نواز شریف
اس کے سیکرٹری جنرل بن بیٹھے۔ یہ نئی مسلم لیگ بنانے کا اشارہ کسی فرشتے نے دیا تھا یا کسی جرنیل نے…؟ نواز شریف کی مسلم لیگ نے اسلم بیگ، اسد درانی اور حمید گل کی آئی جے آئی کا حصہ بن کر پنجاب کی وزارت علیہ حاصل کی اور بعد میں دیگر اعلیٰ مناصب! ایک عظیم اور شریف سیاست دان محمد خاں جونیجو بے چارہ سڑتا، کڑھتا، کینسر سے چل بسا!
سیاست سے شرافت اٹھ گئی تو پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کو دو مرتبہ اقتدار ملا۔ اس دوران، انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ کیا کچھ نہ کیا؟ میاں صاحبان نے بھٹو خواتین کی شرمناک تصویریں چھپوائیں تو وسری طرف ایف آئی اے لاہور پر چڑھ دوڑی، نواز شریف اینڈ کمپنی نے بے نظیر کو سکیورٹی رسک قرار دیا۔ ایٹمی پروگرام پر سمجھوتہ کرنے کا الزام لگایا۔ اعتزاز احسن جیسے شخص کے بارے میں کہا کہ اس نے سکھ دہشت گردوں کی فہرستیں بھارت کے حوالے کیں۔ پیپلز پارٹی والوں نے میاں نواز شریف کے والد کی لاہور میں ایمپریس روڈ پر ڈنڈہ ڈولی کی۔ سیف الرحمان نے مقدمے بنوائے تو پیپلز پارٹی نے چمک کے الزام لگائے اور نواز شریف ”نوازو“ بن گیا… بلیاں آپس میں لڑتی رہیں تو بندر چھبٹا مارے ہی مارے! پھر مارشل لاء لگ گیا…میاں نواز شریف کو جبراً جلا وطن کیا گیا اور بے نظیر بھی حسب معمول چھٹی دفعہ از خود جلا وطن ہو گئیں!! اب دونوں پارٹیوں کے راہنماؤں کو عقل آ چکی اور دونوں میں سمجھوتہ ہو چکا ہے، مگر یہ سمجھوتہ عوام کے مفاد میں نہیں، اپنے اقتدار کے لئے ہے ۔ پانچ سال میں پیپلز پارٹی نے عوام کو کچھ دیا نہ نواز لیگ نے۔ اب دونوں پارٹیوں کے راہنما اپنے ناکردہ، کارناموں کی دہائیاں دے کر عوام کو یاد کر رہے ہیں۔ موت سامنے دیکھ کر خدا یاد آتا ہے اور الیکشن سامنے دیکھ کر عوام! بالکل اپنے ہرنام سنگھ کی طرح! ہرنام سنگھ دریا میں گر پڑا، غوطے کھا رہا تھا، ڈوبنے کے قریب تھا کہ آسمان کی طرف سے منہ کر کے چلایا ”واہ گورو… آج بچا لے، میں ابھی گورد وارے جا کر چاول کی پانچ دیگیں تیرے نام پر بانٹوں گا“ ہرنام سنگھ کا یہ کہنا تھا کہ ایک غیبی ہاتھ نمودار ہوا اور اس نے ہرنام سنگھ کو اٹھا کر باہر خشکی پر رکھ دیا۔ ہرنام سنگھ نے تھوڑی دیر لیٹ کر کپڑے سکھائے، پھر منہ اٹھا کر گاؤں کو چل پڑا۔ اتنے میں اوپر سے آواز آئی۔ ”ہرنام سنگھ… میرے نام پر خیرات کے چاول؟“ ہرنام سنگھ کی جاں بچ چکی تھی، منہ اوپر اٹھا کر بولا، ”کون سے چاول؟“ وہی غیبی ہاتھ پھر سے نمودار ہوا، اس نے ہرنام سنگھ کو اٹھایا اور دریا میں پھینک دیا۔ پھر غوطے کھانے لگاتوچلایا ،”واہ گورو… اتنی جلدی ناراض نہ ہوا کر… میں تو یہ پوچھ رہا تھا… کون سے چاول، میٹھے یا نمکین؟ تو صاحبو… ان سیاست دانوں کو، ان الیکشنوں میں غوطے دو، بار بار غوطے دو، اتنے غوطے دو کہ یہ عوام سے کہیں! ناراض نہ ہوں… آئندہ غلطی نہیں ہو گی۔
تازہ ترین