• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نعیم الحق کے بعد عمران خان کا ایک اور دوست فوت ہو گیا ہے۔ ایک بڑا آدمی مر گیا ہے۔ میرے ساتھ جاگنے والے نے اپنی آنکھیں موند لی ہیں۔ اب کبھی بےوقت میرے موبائل کی گھنٹی نہیں بجے گی۔ اب میں صبح صبح کس کی گفتگو سے دانش کے موتی چُنا کروں گا۔ 

وہ رات کے دکھ بانٹنے والا، وہ میری صبح کا ستارہ، کسی سچ کے تعاقب میں کہیں دور چلا گیا ہے۔ وہاں، جہاں سے کوئی صدا پلٹ کر نہیں آتی۔ عمران خان نے ٹویٹ کیا۔ ’’میانوالی سے تعلق رکھنے والے صحافی انوار حسین حقی کی رحلت پر دل رنجیدہ ہے۔ وہ اس وقت میرے ساتھ کھڑے ہوئے جب اکثر لوگ تحریک انصاف کو تضحیک کا نشانہ بنایا کرتے۔ نشیب و فراز کے اس سفر میں وہ ہمیشہ میرے اور تحریک انصاف کے شانہ بشانہ رہے۔ 

میری دعائیں اور ہمدردیاں انکے اہلِ خانہ کے ساتھ ہیں‘‘۔ پی ٹی آئی کے لیڈروں نے ٹکٹوں کے کروڑوں بٹورے۔ کسی کے لیے حقی کی سفارش مانی گئی تو وہ چائے کی پیالی کے روادار بھی نہ ہوئے۔ محنتی، مخلص اور سادگی کا پیکر۔ کروٹ کروٹ اللہ انہیں جنت نصیب کرے۔

ملتان سے احمد حسن ڈیہڑ جب پی ٹی آئی کے ٹکٹ سے مایوس ہوا تو میری وساطت سے انوار تک پہنچا۔ انوار کی کوششیں بار آور ثابت ہوئیں۔ ڈیہڑ صاحب شکریہ ادا کرنے میانوالی گئے تو ان کے لئے کپڑوں کے جوڑے کا تحفہ بھی لے گئے۔ 

جو حقی صاحب نے قبول کر لیا مگر ان کے جانے بعد جب لفافہ کھولا گیا تو اس میں کپڑوں کے ساتھ اچھی خاصی رقم بھی برآمد ہوئی۔ اگلے دن حقی صاحب نے مجھے بلا کر وہ رقم میرے حوالے کردی کہ کپڑوں کا تحفہ تو جائز ہے مگر یہ رقم میرے لئے حرام ہے۔ سو رقم واپس کردی گئی۔

انوار حسین حقی کون تھا؟ یہ عمران خان جانتے ہیں یا میں جانتا ہوں۔ وہ ایک بڑا انسان تھا۔ اس کی دوستی سے میرے آس پاس پھول مہکتے تھے۔ اسکے سینے میں ایک ہمدرد دل تھا۔ وہ انسانیت کے زخم زخم بدن کو دیکھ کر چیخ اٹھتا تھا۔ طبیعت کی سادگی اور فقیرانہ مزاج نے شہرت کی ہوس کو اس کے قرب وجوار میں کبھی آباد نہیں ہونے دیا تھا۔ 

میں عطاء اللّٰہ عیسیٰ خیلوی، احمد خان بھچر، سبطین خان، امجد علی خان، میجر خرم، تنویر حسین ملک، نذیر یاد، سلیم شہزاد اور حسن رضا اُس کے ساتھ دیر تک محکمہ جنگلات کے اُس کوارٹر میں بیٹھ کر ’’نئے پاکستان‘‘ کی گفتگو کرتے رہتے تھے۔ جس کی کٹیا کے ماتھے پر لکھا تھا ’سب مایا ہے‘۔ جس کا دروازہ توصیف و تنقیص کی چاپ سن کر کبھی نہیں کھلا تھا۔ 

جس کی دیواروں پر جھوٹی شان و شوکت کی کوئی پینٹنگ موجود نہیں تھی۔ یہ دو کمروں کا چھوٹا سا کوارٹر ہے۔ جس میں وہ ایک بیٹی اور ایک بیٹے سمیت چار لوگوں کے ساتھ رہ رہا تھا۔ خود وزیراعظم خان کئی بار اس کوارٹر میں تشریف لے جا چکے ہیں۔ اُس کا اپنا کوئی ذاتی مکان نہیں۔ اس کی کوئی جائیداد نہیں۔ وہ ایک کلرک تھا۔ اس کوارٹر کے فرش سے صرف محبت کی خوشبو آتی تھی۔ 

یہی خوشبو مجھے زندگی کا مرثیہ نہیں لکھنے دیتی تھی۔ میں جب بھی انوار سے کہتا تھا کہ موت ایک آفاقی حقیقت ہے تو ادھر سے جواب آتا تھا میرا تو زندگی پر ایمان ہے۔ نیکیوں کے موسم میں گلابوں کی طرح مہکتی ہوئی زندگی پر۔ پچاس سال کوئی عمر تو نہیں ہوتی۔ انوار کو جانے کی اتنی بھی کیا جلدی تھی۔ دس بیس سال اور زندہ رہ جاتا تو قضا کا کیا جاتا۔ 

اس سے قضا کو کیا دشمنی تھی وہ تو خواب لکھنے والا شخص تھا۔ مجھے تو اس پار سے آتی ہوئی کشتیوں سے آنسوؤں بھرے گیت سنائی دیتے ہیں۔ سنا ہے ان آنسوؤں کے موتیوں میں کوئی جنت چھپی ہوئی ہے مگر اس جنت تک پہنچنے کے لئے آنکھ کے نمکین پانیوں کا سمندر عبور کرنا ضروری ہے۔ انوار بھائی زیادہ دیر تم جنت میں تنہائی نہیں محسوس کرو گے کیونکہ ہر شخص نے اپنی باری پر اس سمندر کو عبور کرنا ہے۔

آخر میں براہ راست عمران خان سے مخاطب ہوں۔ خان صاحب! انوار کے بچوں کی کفالت کرنا ہم سب کا حق ہے مگر آپ کا فرض کہ آپ اس وقت اس ملک کے سربراہ ہیں۔ پلیز احساس کے کفالت پروگرام کو خصوصی ہدایات کیجئے اور ان کے لئے ذاتی گھر کا بندوبست بھی کیجئے۔ آپ کا یہ عمل آپ کو دنیا و آخرت میں سرخرو کرے گا۔ محترمہ فردوس عاشق اعوان سے بھی التماس ہے کہ ایک صحافی کی حیثیت سے وزارتِ اطلاعات و نشریات اس کی فیملی کی جتنی مدد کر سکتی ہے اسے فوری طور پر کرنی چاہئے۔

موت بولائی ہوئی اونٹنی کی طرح زندگی کے تعاقب میں ہے۔ کوئی ہے جو اسے روک سکے۔ کوئی ہے جو اسے ٹوک سکے۔ میرے قریب پڑی ہوئی انوار حسین حقی کی تحریروں سے آواز آئی: ہمارے اندر موتیوں کی طرح چنے ہوئے لفظ۔ موت کے مدِمقابل کھڑے ہیں، ان سے موت ٹکرا ٹکرا کر شرمندہ ہوتی رہتی ہے۔ 

فنا ایک عریاں حقیقت سہی مگر یہ علم و قلم کی روشنی۔ یہ زندگی پہ سایہ فگن روشنی۔ اس کی قسمت میں فتح و نصرت کا لمحہ ہی تحریر ہے کیونکہ یہی آسمانوں سے آتی روشنی ذوالجلال اور بقا ساز ہے مگر ہمیشہ کیلئے کسی کے بچھڑ جانے کا دکھ بہت سفاک ہے، کلیجہ چیر دیتا ہے۔ وہ کل تک جس کی آواز، جس کے انداز، رنگ اور خوشبو کا جادو لئے تھے آج صرف اس کی یاد کی کپکپاتی ہوئی لو کھڑکی سے اندر آ رہی ہے۔ 

اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ وقت کی بےرحم ہوا کا چلن بہت تیز ہے۔ محو ہوتی ہوئی انسانی یادداشت سے کوئی نہیں ٹکرا سکتا مگر مجھے ٹکرانا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین