• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بلاشبہ یہ مقام مسرت ہے کہ ہماری پینسٹھ سالہ تاریخ میں جمہوری حکومت اور منتخب پارلیمینٹ نے پانچ سال پورے کر لئے ہیں۔ اس کارنامے پر کوئی حکومت کو مبارکیں دے رہا ہے تو کوئی مسلم لیگ ن کو اور کوئی فوج اور عدلیہ کو لیکن آج تک کسی نے بھی عوام کو اس قابل نہیں سمجھا کہ انہیں اس کارنامے پر مبارک دی جائے۔ اس لئے میں منتخب پارلیمینٹ کے پانچ سال مکمل ہونے کے منفرد اور بے مثال اعزاز پر عوام کو مبارک دیتا ہوں۔ ویسے میں یہ مبارک باد دیتے ہوئے گھبرا رہا ہوں، شرمندہ ہوں اور جھجک کا شکار ہوں کیونکہ موجودہ پارلیمینٹ اور حکومت نے پانچ برسوں میں چند آئینی ترمیمات کے علاوہ عوام کو کچھ نہیں دیا۔ اس لئے مبارک باد کس بات پر؟ یہ کہنا بھی غلط ہے کہ کچھ نہیں دیا؟ ماشا اللہ بے پناہ مہنگائی، بے روزگاری، غربت، لوڈشیڈنگ اور شہریوں کے قتل و غارت کے تحفے دیئے اور ساتھ ہی ساتھ کرپشن اور لوٹ مار کے ایسے ”نمونے“ پیش کئے جن کی ہماری تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
وفاقی حکومت ہو یا صوبائی حکومتیں، اس سے قبل قومی خزانے کا اس قدر ضیاع، بے رحم استعمال اور شان و شوکت پر اتنی ”سرمایہ کاری“ کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ غریب قوم کے غریب خزانے سے روپے پانی کی طرح خرچ ہوتے رہے، نتیجے کے طور پر ملک پر قرضوں کا بوجھ اس قدر بڑھ چکا ہے جو کبھی اتارا ہی نہیں جاسکتا۔ صوابدیدی فنڈ کے استعمال کا ذکر کروں تو یقین کیجئے کلیجہ منہ کو آتا اور آنکھیں تر ہو جاتی ہیں۔ جمہوریت کی روح کڑا احتساب اور قومی خزانے سے پائی پائی کا ایماندارانہ و منصفانہ استعمال ہوتا ہے۔ سچے جمہوری ممالک میں اتنے بڑے صوابدیدی فنڈ کی ”لعنت“ نہیں ہوتی اور حکمرانوں کو قومی خزانے سے خرچ ہونے والے ہر پونڈ اور ڈالر کی کابینہ اور پارلیمینٹ سے منظوری لینی پڑتی ہے۔ واہ! برطانیہ کے وزیراعظم جان میجر نے کیسی طنز کی۔ پرانی بات ہے لیکن سن لیجئے ہماری کرکٹ ٹیم نے میچ جیتا تو ہمارے اس وقت کے وزیراعظم جناب میاں نواز شریف نے کھڑے کھڑے تقریب میں ٹیم کے لئے پچاس ہزار پونڈ کے انعام کا اعلان کر دیا۔ وہاں جان میجر بھی موجود تھا۔
اس نے حیرت زدہ ہو کر کہا (Mr.Prime minister, Do you mean it) جناب وزیراعظم کیا آپ سچ مچ پچاس ہزار پونڈ دے رہے ہیں ؟۔ مجھے تو پانچ ہزار پونڈ دینے کے لئے بھی منظوری لینی پڑتی ہے۔ بہرحال یہ بات برطانیہ کی ہے جسے پارلیمینٹ کی ماں اور جمہوریت کی ماں کہا جاتا ہے۔ لگتا ہے جمہوریت کی ماں نے پاکستان کے لئے حقیقی بچہ نہیں جنا۔ برطانیہ کی خاتون آہن اور طویل عرصے تک وزیراعظم رہنے والی مارگریٹ تھیچر نے لکھا ہے کہ وزیراعظم ہاؤس (10ڈاؤننگ سٹریٹ) کے پلنگ پرانے ہو کر چوں چوں کرتے تھے، صوفے سیٹ پرانے اور نہایت میلے تھے لیکن پارلیمینٹ فرنیچر کی خرید اور دوسرے ساز و سامان کے لئے بیس پچیس ہزار پونڈ کی منظور ی دینے کی راہ میں روڑے اٹکاتی تھی۔ جان میجر ہو یا مار گریٹ تھیچر یقینا سوچتے ہوں گے کہ وہ کس کنجوس ملک کے حاکم بنے، پاکستان کے حکمران بنتے تو مغلیہ خاندان کے شان و شوکت اور شاہ خرچی کو بھی پیچھے چھوڑ جاتے۔
ایک تجزیہ نگار کے مطابق راجہ پرویز اشرف جن کا تعلق مڈل کلاس سے ”تھا“ اب نہیں وہ کوئی جاگیردار یا صنعت کار نہیں لیکن انہوں نے صرف آٹھ ماہ میں کئی ارب روپے صوابدیدی فنڈ سے خرچ کئے، فنڈ ختم ہوا تو پھر مزید رقم حاصل کی۔ تجزیئے کے مطابق وہ روزانہ تقریباً بیس کروڑ روپے خرچ کرتے رہے اور ان ایام میں چھٹیاں بھی شامل ہیں یعنی ان کا ہفتے، اتوار کی چھٹیوں کے دوران بھی خرچہ بیس کروڑ روپے روزانہ ہی نکلتا ہے۔ دیکھ لیجئے کہ ہمارے سیاستدان و حکمران ووٹ لینے کے لئے کس حد تک جاسکتے ہیں بلکہ ساری حدیں عبور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وسائل کی پرواہ کئے بغیر قومی اداروں میں میرٹ و قانون کو پامال کرکے دھڑا دھڑ نوکریاں دی جا رہی ہیں اور بیرون ملک تعیناتیاں کی جا رہی ہیں۔ قومی اداروں کا پہلے ہی جنازہ نکل چکا ہے اور ان کا خسارہ ملک و قوم کے لئے عذاب بن چکا ہے لیکن اس کے باوجود حکمرانوں کو قوم پر رحم اور ترس نہیں آتا۔ نوکری دینا اور روزگار مہیا کرنا اچھی بات ہے لیکن اس کے لئے ایک طریقہ کار اور کچھ قوانین اور ضابطے ہوتے ہیں جب ان قوانین کو پامال کیا جاتا ہے تو نہ صرف لاقانونیت پھیلتی ہے بلکہ غریب اور ”بے سفارشی“ کا حق بھی مارا جاتا ہے ایک طرف نوکریوں کی ریوڑیاں بانٹی جا رہی ہیں تو دوسری طرف پلاٹ الاٹ ہو رہے ہیں، پسندیدہ افسران کو اہم جگہوں پر بٹھایا جا رہا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اسمبلیوں کے اراکین میں مراعات لینے کے لئے مقابلہ جاری رہا۔ ذرا سوچئے اگر ان ”غریبوں“ کی بھوک اور ضروریات پانچ برسوں میں پوری نہیں ہوئیں تو کیا آخری ایام میں پوری ہو جائیں گی۔ کروڑ اور ارب پتی اراکین تا حیات تنخواہ، مراعات اور پروٹوکول حاصل کرنے کے لئے بے چین ہیں اور یہ سارا بوجھ اس غریب ملک کے خزانے پر ڈالا جا رہا ہے جو بے پناہ مقروض ہے اور جو چند روپوں کا بھی بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں۔ کنٹریکٹ، ایڈہاک اور کچی نوکریوں کو رات بھر میں پکا کرنا قانون کی پامالی ہے اور پاکستان ایسا ملک ہے جہاں قانون کی اس پامالی پر فخر کیا جاتا ہے۔ لطف کی بات ہے کہ کسی سچے جمہوری ملک میں حکمران سے لغزش ہو جائے تو وہ قوم سے معافی مانگتا ہے لیکن ہمارے حکمرانوں کا یہ پسندیدہ فقرہ ہے کہ ”اگر یہ جرم ہے تو میں یہ جرم بار بار کرتا رہوں گا“ واہ، واہ سبحان اللہ جرم پہ فخر؟ یہ اعزاز صرف پاکستان کو حاصل ہے۔
اب نگران حکومت کی کھچڑی پک رہی ہے اور سیاست کی شطرنج پر ماہرانہ چالیں چلی جا رہی ہیں۔ یہ توقع کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ الیکشن کمیشن کی نامزدگی سے بچنے کے لئے بالآخر دونوں بڑی پارٹیوں میں سمجھوتہ ہو جائے گا جسے مخالفین مک مکا کہتے ہیں۔”کچھ لو، کچھ دو“ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے نگران کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ یہ قدرتی بات ہے کہ ہر وہ پارٹی جو اقتدار میں شامل ہے یا اقتدار میں اسٹیک ہولڈر ہے اپنے پسندیدہ نگران چاہتی ہے جو اگر اس کے مفادات کی کھلم کھلا حفاظت نہ بھی کریں تو کم از کم ان کے مفادات پر انصاف کی زد نہ پڑنے دیں۔ غیر جانبدار نگران تو محض نعرہ ہے اصل خواہش اور محرک اپنے مفادات کی حفاظت ہے۔ چنانچہ جہاں کچھ ایماندار لوگوں کے نام آئے ہیں وہاں ایسے لوگ بھی میدان میں اتار دیئے گئے ہیں جن پر کردار کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ پر کون کس کا نام تجویز کرتا ہے، اس تجویز میں خود تجویز کنندہ کا کردار بھی جھلکتا ہے۔ خوشامد کے عادی حکمران فراخ دلی کے دعوؤں کے باوجود تنقید کا ایک لفظ برداشت نہیں کرتے۔ بہرحال اس مسئلے کا طول پکڑنا خود حکمرانوں کے حق میں نہیں۔ آیئے مشورے کی رسم پوری کرنے کے بعد مجھے دونوں بڑی جماعتوں میں سمجھوتہ ہونے کا امکان نظر آتا ہے اور اس سمجھوتے کی بنیاد کچھ لو، کچھ دو کے اصول پر ہوگی۔
میری دعا ہے کہ پاکستان کو ایماندار اور باکردار نگران ملیں اور ایسے لوگ اقتدار کی کرسیوں پر نہ بیٹھیں جو اپنے گھروں کو سرکاری رہائش گاہیں قرار دے کر حکومتی خزانے سے مرمت و زیبائش پر کروڑں روپے خرچ کر ڈالیں وہ صوابدیدی فنڈ کا بے دریغ استعمال کریں نہ شان و شوکت، پروٹوکول اور حفاظت کے نام پر خزانے پر بوجھ ڈالیں، اقرباء پروری اور دوست نوازی جیسے جرائم کا ارتکاب کریں نہ قوانین کو پامال کریں۔ میری دعا ہے کہ نگران حکومتیں آنے والی حکومتوں کے لئے سادگی، انصاف اور قانون کی حکمرانی کی مثالیں قائم کرکے رخصت ہوں۔ یہ عجیب بات ہے کہ سیاسی حوالے سے ہماری دعائیں کم کم ہی قبول ہوتی ہیں لیکن پھر بھی دعا کرنے میں کیا حرج ہے۔ میری دعا ہے کہ الیکشن پر امن ہوں لیکن پرامن ہوتے نظر نہیں آتے پھر بھی دعا کرنے میں کیا حرج ہے۔
تازہ ترین