• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسانی فہم و فراست عجز کا شکار ہے۔ میڈیکل تحقیق شرمسار ہے۔ ستاروں کی گزر گاہیں تلاش کرنے، چاند پر قدم، مریخ پر نظر رکھنے والا ایک انجانی بیماری کے سامنے بےبس ہو چکا ہے۔ کیا ترقی یافتہ، کیا پسماندہ، کیا امیر، کیا غریب، 115قومیں کورونا وائرس سے متاثر ہو چکی ہیں۔ دنیا کے 195ملکوں میں سے 115کو اس وائرس نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ تازہ ترین اعداد و شُمار بتاتے ہیں کہ ایک لاکھ چودہ ہزار بیمار ہیں، 4027لقمۂ اجل بن چکے ہیں، 64081شفایاب ہوئے ہیں، اس وقت 46314زیر علاج ہیں۔ جن میں سے 5771تشویشناک حالت میں ہیں۔ 40543 خطرے سے باہر ہیں۔ ہر روز مشرق بعید، جنوبی ایشیا، یورپ، امریکہ، کینیڈا، اسکینڈے نیویا سے کسی نئے مریض کی اطلاع آ جاتی ہے۔ صنعتی ترقی، تیزترین رابطے، نت نئی ٹیکنالوجی سب اس کے سامنے ہیچ ہیں۔ میڈیکل سائنسدان، محققین، دوا ساز کمپنیوں کے سربراہ سر جوڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اسٹاک مارکیٹیں زیر و زبر ہو گئی ہیں۔ وہی سفری تیزی جس پر انسان بہت ناز کرتا ہے وہی اس وبا کے پھیلنے کا سب سے زیادہ سبب بن رہی ہے۔ 22جنوری سے شروع ہونے والی یہ وحشت آثار متعدی بیماری بتا رہی ہے

یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید

کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکون

بعض بیماریوں میں حادثات میں عام طور پر وجہ غربت پسماندگی میں تلاش کی جاتی رہی ہے۔ کہیں حکومتوں کی نااہلی، کہیں بدعنوانیوں، ذخیرہ اندوزیوں کو عذر قرار دیا گیا لیکن روشن خیالی، سائنسی دریافتوں، کئی نئی کائناتوں کی برآمدگی کی اکیسویں صدی میں اور ان ملکوں میں جنہیں زندگی کی عمدگی اور معیار کے حوالے سے سر فہرست رکھا گیا ہے۔ کینیڈا اور جاپان، وہاں بھی اس آسیب کے قدم پہنچ گئے ہیں۔ نباتات، جمادات، حیوانات، ارضیات، حیاتیات، فلکیات پر اعلیٰ ترین تحقیقی مراکز کی تادمِ تحریر بےبسی اس امر کا بین ثبوت ہے کہ کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے۔ جو بحر و بر کا مالک ہے۔ جو ہر شے پر قادر ہے۔ جو ہوائوں کا رُخ بدلتا ہے۔ انسان محض اس کا نائب ہے۔ کتنی ترقی کر لے، کتنے آفاق تسخیر کر لے، بہت سے گوشے، بہت سے شعبے پھر بھی اس کی فکر، اس کی تحقیق سے ماورا رہیں گے۔

ہم پاکستانیوں کو اللہ کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ ہم نااہلی اور بےبصیرتی کے جس دور سے گزر رہے ہیں ہمیں اس وبا کی شدت سے محفوظ رکھا ہے۔ اب تک اس آفت ناگہانی سے کسی ہم وطن کی موت واقع نہیں ہوئی ہے۔ پہلا مریض مکمل صحت یاب ہو چکا ہے۔ مزید متاثرین سامنے آرہے ہیں لیکن احتیاطی تدابیر کی جا رہی ہیں۔ سب سے زیادہ متاثر ہمارا عظیم دوست چین ہوا ہے جو ان دنوں سب سے آگے بڑھتی معیشت تھی۔ اس میں صنعتی، تجارتی، علمی پیش رفت رک جانے سے پوری دنیا کی معیشتیں متاثر ہوئی ہیں۔ کھربوں ڈالر ڈوب رہے ہیں۔ دنیا بھر میں ماہرین اور محققین کا سوچ و بچار جاری ہے۔ یقیناً اس میں ٹھہرائو آئے گا۔ قادرِ مطلق انسان کو اس کی سکت کی حد تک آزمائش میں ڈالے گا۔ آئندہ چند ماہ میں بحالی کا سفر شروع ہو جائے گا۔ بہت سے ملکوں نے ممکنہ منصوبے بنا لیے ہیں۔ چین جتنا متاثر ہوا ہے اتنا ہی اس نے اپنی صلاحیتوں سے اس وبا کا مقابلہ بھی کیا ہے۔ یہ تو وقت بتائے گا کہ چین نے اس انجانی وبا کو کس کس انداز سے آگے بڑھنے سے روکا۔ صحت کے شعبے میں کیا کیا کارہائے نمایاں انجام دیے گئے۔ چند روز میں کتنے بڑے بڑے اسپتال تعمیر کر لیے گئے۔ قرنطینہ کے مراکز کس طرح قائم کیے گئے۔

اب دیکھنا ہے کہ چین کے سب سے قریبی دوست، ہمسائے، اربوں ڈالر کی چینی سرمایہ کاری رکھنے والے پاکستان میں اس آزمائش کے بعد کے دَور کے لیے کیا کیا تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ ہمیں یہ تو تسلیم کرنا ہوگا کہ اس ابتلا کے وقت میں وزیراعظم کے صحت کے لیے معاونِ خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا کی کارکردگی بہت تسلی بخش رہی۔ وہ نہ گھبرائے، نہ سنسنی خیزی کی۔ عالمی معیارات کے مطابق وہ اور ان کی ٹیم اس امتحان سے گزرتی رہی ہے۔ اللہ کرے اب نئے متاثرین سامنے نہ آئیں۔ ہمیں اس بیماری کے مقابلے میں صحت کے شعبے میں زیادہ اخراجات کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔ البتہ ہماری معیشت جو پہلے سے ہی دگرگوں تھی اسے مزید جھٹکے لگے ہیں۔ پاکستان کے لیے ماہرین کا ہمیشہ یہ تجزیہ ہوتا ہے کہ اس کی معیشت ان بلندیوں پر نہیں ہوتی جہاں کسی بھی آفت، افراط، انحطاط، کساد بازاری کے اثرات زیادہ ہوتے ہیں۔ اس لیے ہم ترقی یافتہ ملکوں کی طرح بڑے نقصانات سے دو چار نہیں ہوتے۔ ہماری سیاحت بھی اس سطح پر نہیں تھی جس سے بڑا دھچکا لگتا۔ اب معیشت کی بحالی کے سفر میں پاکستان جیسے ترقی پذیر، غریب ممالک کے لیے سود مندی کے بہت مواقع ہیں۔ ماہرین کے مطابق عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتیں گریں گی۔ اس طرح تیل درآمد کرنے والے ملکوں کا یہ بل کم ہوگا۔ اربوں ڈالر کی اس بچت سے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں لیکن کیا ہم یہ اہلیت رکھتے ہیں۔ فی الحال تو ایسا لگ رہا ہے کہ ہمارے چیف ایگزیکٹو، قائد ایوان منتخب وزیراعظم اپنی پارٹی سمیت سب کی نظروں میں قیادت نہیں کر پا رہے۔ ان کے اپنے چہرے کے تاثرات اور بیانات بھی عجز کا اظہار ہی کرتے ہیں۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ، ڈاکٹر عشرت حسین، اسٹیٹ بینک کے گورنر اور عبدالرزاق دائود بھی ابھی تک کوئی کرشمہ نہیں دکھا سکے ہیں۔ پاکستان قیادت کو ترس رہا ہے۔ حکمراں قیادت کی نااہلی کے چرچے تو عام ہیں۔ اپوزیشن لیڈر ملک سے باہر ہیں۔ سب سے بڑی مخالف جماعت پاکستان مسلم لیگ(ن) نے ملکی صورتحال اور خاص طور پر کورونا کے حوالے سے کوئی میٹنگ نہیں کی، نہ کوئی کمیٹی بنائی ہے۔ یہی حال پاکستان پیپلز پارٹی کا ہے۔ بڑی جنگوں کے بعد بعض خطّوں کے حصّے میں خوشحالی بھی آتی ہے لیکن انسان کو وہی ملتا ہے جس کے لیے وہ کوشش کرتا ہے۔ کیا ہم کوشش کررہے ہیں؟

تازہ ترین