• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پی پی پی حکومت جس کا آغاز ہی سندھ میں سابق وزیراعلیٰ ارباب غلام رحیم کی ایک جیالے کے ہاتھوں سندھ اسمبلی میں انتقام پسندی سے ہوا تھا اور اس کے بعد ہی ارباب غلام رحیم اس حکومت کے تمام پانچ سال متحدہ عرب امارات میں خود ساختہ جلاوطنی میں رہے تھے، کا انجام بھی ان کی وطن واپسی پر سندھ کے بجائے پنجاب میں پناہ لینے سے ہوا ہے۔ ارباب غلام رحیم یہ کہہ کر لاہور اترے ہیں کہ سندھ میں پی پی پی پی حکومت اور اس کے رہنماؤں کی طرف سے ان کی زندگی کو خطرہ ہے۔ ارباب غلام رحیم کا کیس ’جمہوریت سب سے بہتر انتقام ہے‘ کا دعویٰ کرنے والی حکومت کی سیاسی انتقام پسندی کی ایک روشن مثال ہے۔ سندھ اسمبلی کی تاریخ میں سیاسی انتقام پسندی میں پہلی بار سیاسی مخالف سابق وزیراعلیٰ پر جوتے کا استعمال ہوا اور اس جوتے کی بولی لاکھوں روپوں میں لگانے کی بھی خبریں آئیں۔ ارباب غلام رحیم سندھ میں صحرائے تھر کے بڑے جاگیردار اور بے تاج بادشاہ ہیں۔ ایک ضرب المثل تھی کہ تھر میں رینجرز یا کالے سانپ ہوتے ہیں یا پھر ارباب۔ ارباب رحیم تھریو ہیں یعنی تھر کا باسی وجم پل ہیں۔ تھری لوگوں اور گایوں کے لئے مشہور ہے کہ وہ تھر سے کتنا اور کہیں بھی دور ہوں لیکن جب بارش کا پہلا چھینٹا پڑتا ہے تو وہ رسیاں تڑا کر اپنے تھر واپس چلے آتے ہیں۔ صدیوں زمانوں سے بارشوں کی پیاسی ریت میں رہنے والوں سے زیادہ بارشوں کی اہمیت و قدر کسے معلوم ہو سکتی ہے بھلا!پھر وہ لوگ ہوں، پرندے کہ جانور۔ کوئی حیرت نہیں کہ ارباب غلام رحیم نے جان بچاؤ تحریک تلے پانچ سال عرب امارات میں گزار دیئے۔ ارباب غلام رحیم سندھ کے انتہائی متنازع وزیراعلیٰ رہے تھے جن کے دامن پر بینظیر بھٹو کے قتل کے الزام سمیت سیاسی مخالفین سے انتقام اور ان کے لئے خراب زبان استعمال کرنے کے الزامات تھے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ سیاسی مخالفت کی بنیاد پر ارباب غلام رحیم، ان کے ساتھیوں، اہل خانہ اور حامیوں یا تھر میں ان کے ووٹروں کو سیاسی یا ذاتی انتقام کا نشانہ بنایا جائے۔
تھر کے ارباب زیادہ تر سندھ کے باقی کے وڈیروں کی طرح ہر حکومت وقت کے ساتھ اور گرتی حکومت کے خلاف رہے ہیں۔ یہ پہلی یا دوسری بار تھا کہ تھر کے ارباب حکومت وقت کی مخالفت میں تھے۔ تھرپار کر ضلع میں مٹھی کے قریب گاؤں کھیتلاری کے رہنے والے ارباب غلام رحیم نے شاید کبھی سوچا بھی نہ ہو گا کہ ایک دن وہ سندھ کے وزیراعلیٰ بنیں گے لیکن بھلا ہو فوجی آمر ضیاء الحق کا کہ انہوں نے ایجنسیوں کی مدد سے پاکستان میں سیاستدانوں کا ایک ایسا طبقہ پیدا کیا جس میں یونین کونسل سطح کی سیاست کرنے والے ملکی سطح کے سیاستدان بن گئے اور ان کی ایجنسیوں کے ساتھ راہ و رسم اس کے بعد بھی ہر دور میں اور زیاہ بڑھتی اور مضبوط ہوتی گئی۔ اگر وہ نہ بھی ہوتی تب بھی ان جیسے وڈیرے اور جاگیردار سندھ میں اپنے اپنے علاقے میں بغیر کسی پارٹی وفاداری کے اپنا انتہائی اثرورسوخ رکھتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ ان کے بھلے مانس ہونے سے زیادہ سندھی عوام کی صدیوں کی روحانی، سماجی اور( پی پی پی کے حوالے سے کئی دہائیوں سے) سیاسی غلامی ہے۔ پیر، میر، وڈیرہ، ملّا اور سردار بڑا اثر رکھتے ہیں۔ تھر کی سرحد بھارت کے ساتھ ہونے کی وجہ سے بھی فوج اور اس کے اداروں کا رابطہ کئی کیسوں میں شمالی سندھ میں مہر ہوں کہ زیریں سندھ میں ارباب ان سے خاندانی اور کئی دہائیوں سے رہا ہے۔ اسی لئے اگر علی محمد مہر جیسے نوجوان وڈیرے کو جنرل احسان نے سندھ کا وزیراعلیٰ بنوایا تو کہتے ہیں ارباب غلام رحیم کو جنرل بشیر قائم خانی نے۔ پہلے ان کی تمام سیاست کا محور اور اصل قوت ٹیچروں، پٹواریوں اور پولیس والوں کی تقرریاں اور تبادلے ہوا کرتے تھے۔ جام صادق علی اور مظفر حسین شاہ تک بھی یہی ہوا تھا۔ ماضی قریب تک تھر میں یہ مشہور تھا کہ تھر میں لوگوں کو اس وقت معلوم ہوتا تھا کہ ملک کا وزیراعظم تبدیل ہوا ہے جب کوئی ٹیچر یا سرکاری اہلکار ننگرپارکر سے تبدیل ہوکر مٹھی یا مٹھی سے جیکب آباد جیسے دور دراز علاقے تک جا پہنچتا تھا۔ تھر میں تقرریاں اور تبادلے اپنے فائدے چاہے انتقام میں اربابوں کی مرضی و منشا سے ہوا کرتے تھے۔ جمہوریت پر ان کا یقین اتنا ہے کہ 1990ء کے انتخابات میں ان کے علاقے میں لوگوں سے بیس روپے میں ووٹ خریدے گئے تھے۔ قحط کے مارے ہوئے لوگوں کو آٹا اور بیس روپے دے کر ان کے شناختی کارڈ پولنگ والے دن تک رکھ لئے گئے تھے۔
ارباب غلام رحیم ضیاء الحق کے دنوں میں سیاست میں آئے اور وہ ضلع کونسل تھرپارکر کے چیئرمین منتخب ہوئے تھے۔ 1988ء کے انتخابات میں تھر کے ارباب پاکستان پیپلزپارٹی میں شامل ہوئے اور ڈاکٹر غلام رحیم اور ان کے کزن ارباب فیض محمد اسمبلیوں میں منتخب ہو کر آئے لیکن جیسے ہی 6/اگست1990ء کو غلام اسحاق خان کے ہاتھوں بینظیر بھٹو کی حکومت ختم ہوئی تو سندھ کے نگران وزیراعلیٰ جام صادق علی کے عہدے کا حلف اٹھاتے ہی ارباب فیض محمد پر جھوٹا مقدمہ قائم کرنے کا حکم دیا گیا اور ان کی کراچی میں رہائش گاہ پر پولیس چھاپے کے بعد ارباب غلام رحیم سمیت ارباب پی پی پی چھوڑ کر نوازشریف کی مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔1990ء کے انتخابات میں تھر میں زبردست دھاندلیاں ہوئیں، ان کے مدمخالف مقامی پی پی پی رہنماؤں فقیر شیر محمد بلالانی اور جگدیش ملانی کو گرفتار کیا گیا ان کے خلاف مقدمات قائم کئے گئے اور پی پی پی کارکنوں اور ووٹروں کے خلاف انتقام کی آگ سندھ اور صحرائے تھر میں جلا دی گئی۔ سندھ میں مشیر داخلہ عرفان مروت کے ذریعے غلام اسحاق خان اور جام صادق علی نے پی پی پی کے رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف حد کردی۔
سندھ میں تھر کے ارباب، غلام اسحاق خان ، نواز شریف اور ان کے سندھ میں جام صادق علی جیسے تکونے کے اتحادی تھے۔سیاسی انتقام پسندی میں تقرریاں اور تبادلے تاریخی ہوئے کہ ننگرپارکر سے واپڈا کا لائن مین جیکب آباد ٹرانسفر کردیا گیا لیکن سیاسی وفاداری تبدیل کرنے کا پہلا شرف بھی ارباب غلام رحیم کو حاصل ہوا کہ اس وقت یہ نواز شریف مسلم لیگ کے پہلے رکن قومی اسمبلی تھے جنہوں نے صدر غلام اسحاق خان سے ملاقات کر کے نواز شریف حکومت کی حمایت سے علیحدگی کا اعلان کیا۔ وہ سندھ سے زیادہ تھرپارکر کے وزیراعلیٰ ثابت ہوئے۔
ارباب غلام رحیم نے سندھ میں اپنی وزارت اعلیٰ میں سیاسی مخالفین کے خلاف انتقام پسندی میں کمال حاصل کیا اور ان کی حکومت کی سیاسی انتقام پسندی کا ثبوت ان کے تھر میں مقامی مخالفین اور پی پی پی رہنما اور کارکن محمد خان لُنڈ اور تھر کی ریت سے بجلی پیدا کرنے کا تجربہ کرنے کی شہرت رکھنے والے انجینئر ولی محمد راہموں، ان کے اپنے وزیر امتیاز شیخ اور ان کے بھائی مقبول شیخ، ان کے رشتہ دار اور سندھ میں پی پی پی وزیر زاہد بھرگڑی کے خلاف ہونے والی پولیس کارروائیاں ہیں اور تو اور انہوں نے فقیر منش سابق بائیں بازو کے لیجنڈری کردار جام ساقی اور ان کی اہلیہ کو بھی نہیں بخشا جس جام ساقی کے ساتھ وہ تبلیغی دورے پر تھر گئے تھے۔ جام ساقی کی اہلیہ کو ان کے حکم پر گرفتار کیا گیا۔ جام ساقی کا جرم یہ تھا کہ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی طرف سے ارباب کے گاؤں کیھتلاری میں انہی کے خاندان کے افراد کے ہاتھوں مبینہ طور پر زیادتی کا شکار بننے والی خاتون کے کیس کے حقائق معلوم کرنے یا فیکٹ فائنڈنگ پر گئے تھے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر منو بھیل کیس میں ان کے اتحادیوں کے خلاف قدم اٹھانے والے ڈی آئی جی پولیس سلیم اللہ خان کو بھی انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔ ارباب کے دنوں میں ان پولیس افسروں نے سندھی قوم پرست کارکن سمیع اللہ کلہوڑو کو غائب کرکے، ٹارچر کر کے قتل کیا جو اب پی پی پی حکومت کے اہم کارندے بنے ہوئے ہیں۔ اربابوں کی جگہ اب زیادتیاں مٹھی میں پی پی پی کے ملانیوں نے مچائی ہوئی ہیں۔ بینظیر بھٹو کے خلاف ارباب رحیم کی طرف سے استعمال ہونے والی زبان تو کئی سندھیوں کے سینے کے رستے زخم بن چکے ہیں۔ ان کے ساتھی سابق سینیٹر غفار قریشی کی سندھ میں ان کے دنوں میں وہی نیک نامی تھی جو اب اویس مظفر ٹپی کی ہے۔ سندھ کے سندھی ادبی بورڈ جیسے ادارے بھی ان کے دور میں سیاسی رشوت کے طور پر تباہ کرنے کے لئے چھوڑ دیئے گئے۔
تازہ ترین