• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک اور دور مکمل ہو گیا، ان کا بھی جو کئی مرتبہ حکمرانی کر چکے ہیں اور ان کا بھی جو اتحادی رہے اور کبھی مخالف نشستوں پر بیٹھے۔ مسئلہ حکمرانوں نے حل کیا نہ اتحادیوں نے۔ مسئلے کی اہمیت کا اندازہ بھی انہیں نہیں ہوا۔ حکمرانوں کو تو پہلے کب دلچسپی تھی، اتحادیوں نے بھی محفل برخواست ہونے سے ذرا پہلے اس طرف توجہ دی۔ انجام ظاہر ہے، حیدرآباد یونیورسٹی کا معاملہ لٹکا ہی رہ گیا ۔یہ معاملہ پچھلے پچاس سال سے لٹکا ہوا ہے ۔کسی نے کب احساس کیا؟ حیران کن بات ہے کہ بیس لاکھ سے زیادہ آبادی والے شہر میں کوئی جامعہ نہیں ہے، کسی بھی طرح کی۔ یہ ملک کا شاید واحد ضلع ہے جہاں نہ جامعہ ہے، نہ میڈیکل یونیورسٹی، نہ انجینئرنگ یونیورسٹی۔ کس کس کو یاد کیجئے، کس کس کو روئیے۔ کسی نے اس جانب توجہ دی ہی نہیں ۔حادثہ ہوا اور سانحہ،کہ لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر۔کوئی بھی نہیں ٹھہرا۔کوئی سوچ سکتا ہے کہ اس پورے ضلع کے باسی اعلیٰ تعلیم سے محروم ہیں اور کوئی اس پر توجہ نہیں دیتا۔ ماتم نہیں کرتا۔کرتے ہیں تو یہاں کے بے آسرا لوگ، حکمرانوں کی عقل پر،دوسروں کی عدم توجہی پر۔اعلیٰ تعلیمی سہولتوں کا سرسری جائزہ لیں تو ایک عجیب بھیانک، تکلیف دہ اور ناقابلِ یقین صورتحال سامنے آتی ہے۔ اس شہر میں اعلیٰ تعلیم کا کوئی ادارہ نہیں ہے۔ سندھ یونیورسٹی، شہر سے پندرہ کلو میٹر دور جامشورو منتقل کردی گئی۔ پرانے کیمپس میں چند شعبے رہ گئے تھے، ان میں سے بھی بیشتر بتدریج نئے کیمپس میں بسا دیئے گئے۔ یہاں کوئی انجینئرنگ یونیورسٹی نہیں ہے، کوئی میڈیکل یونیورسٹی نہیں ہے۔ ایسا نہیں کہ سندھ یونیورسٹی اور دوسری جامعات کے کیمپس نہیں بنائے گئے، بالکل بنائے گئے ہیں۔ بدین میں، میرپورخاص میں ،ٹھٹھہ میں،دادو میں، بھٹ شاہ میں اور لاڑکانہ میں سندھ یونیورسٹی کے کیمپس قائم کئے گئے ،ایک معقول کام کیا گیا، اعلیٰ تعلیم عام لوگوں کی دسترس میں آگئی۔ اسی طرح مہران انجینئرنگ یونیورسٹی کا کیمپس نوابشاہ میں قائم کیا گیا تھا ۔اب اسے قائد عوام انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹی بنادیا گیاہے۔ دوسرے شہروں میں بھی اعلیٰ تعلیم کی سہولتیں فراہم کی گئی ہیں۔خیرپور میں میڈیکل کالج بناہے، لاڑکانہ میں بے نظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی زیر تعمیر ہے (اس کا بھی برا حال ہے تعمیر ہے کہ ہوکے ہی نہیں دے رہی)۔ مگر حیدرآباد میں بس برائے نام کیمپس ہے۔ حالانکہ ضرورت یہاں یونیورسٹی کی بھی ہے اور پروفیشنل جامعات کی بھی۔ مطالبہ کرنے والوں نے بھی صرف حیدرآباد یونیورسٹی کا مطالبہ کیا، دوسرے شعبے ان سے بھی اوجھل رہے اور اس کی اتنی مخالفت کہ وزیرتعلیم پیر مظہر الحق اپنے محترم دادا پیر الٰہی بخش کی اعلیٰ روایات اور قربانیوں کو بھی فراموش کر بیٹھے۔ ہندوستان سے آنے والے بے گھر لوگوں کو چھت انہوں نے فراہم کی، پیر کالونی انہی کی بسائی ہوئی ہے۔چھوٹے پیر صاحب مگر بضد کہ حیدرآباد میں یونیورسٹی نہیں بنے گی۔ اگر انہوں نے بعد میں اپنا یہ بیان تبدیل کر لیا تو بعض حلقوں کے دباؤ کی وجہ سے مگر کیا انہوں نے جامعہ بنانے کا جو وعدہ کیا تھا اس میں کوئی پیشرفت ہوئی؟ صرف ایک قرارداد منظور ہو سکی، متفقہ قرارداد۔ ایم کیو ایم نے پیش کی، پیپلز پارٹی نے تائید کردی ۔ تو کیا مسئلہ حل ہوگیا ؟حل ہونا تو ایک طرف، مقصد کی طرف کوئی پیش قدمی بھی ہوئی؟ سوال ، جی ہاں ، بالکل احمقانہ ہے ۔جو کچھ ہوا وہ سامنے ہے ۔کچھ نہیں ہوا ،آئندہ کبھی ہوگا؟کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ دلچسپی بھی نہیں ہے ۔ قراردادیں تو پہلے بھی منظور کی جاتی رہی ہیں، بہت سے معاملات پر، اور قرارداد اور قانون میں فرق ہوتا ہے۔ اسمبلی میں براجمان افراد سے بہتر کون جانتا ہے۔ حل تو باقاعدہ بل پیش کر کے قانون بنانا اور اس پر سنجیدگی سے عمل کرنا ہے۔حیدرآباد میں یو نیورسٹی قائم کرنا وقت کی شدید ضرورت ہے ،جتنا یہ مسئلہ سنجیدہ ہے اتنی ہی سنجیدگی کا تقاضہ کرتا ہے۔ایم کیو ایم گزشتہ طویل عرصے سے کسی نہ کسی حکومت کے ساتھ اقتدار میں رہی ہے۔ اس کے وزیر تعلیم بھی رہے ہیں ۔حیدرآباد اس کا مضبوط گڑھ بھی رہا ہے ،کراچی کے بعد۔مگر اس اہم مسئلے کی طرف اس نے بھی کوئی توجہ نہیں دی ۔آفتاب شیخ جب حیدرآباد کے میئر تھے تو اس زمانے میں بلدیہ نے یونیورسٹی کے قیام کے لئے ایک قرارداد منظور کی تھی ۔یہ1987ء کی بات ہے ۔کوئی26سال پہلے کی ۔سندھ اسمبلی میں ایک اور قرارداد منظور ہونے تک اس پہلی قرارداد پر بھی کوئی عمل نہیں ہوا۔ ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ پیپلزپارٹی کا اپنا ایک رویہ ہے، سب کو پتہ ہے۔ سندھ اسمبلی کا وہ اجلاس جس میں یونیورسٹی کا معاملہ اٹھایا جاسکتا تھا، امکانات تھے، وہ صرف ڈیڑھ منٹ یعنی نوّے سیکنڈ میں ، جی ہاں، نوّے سیکنڈ میں ملتوی کردیا گیا۔ تاریخ ایسے ہی تو رقم کی جاتی ہے اور جب اسمبلی آخری ہچکیاں لے رہی تھی تو اس وقت9 بل منظور کرلئے گئے، ان میں ٹنڈومحمد خان یونیورسٹی کا بل بھی شامل ہے۔ یہی ایک معقول بل تھا باقی تو ذاتی مفادات کی لوٹ مار تھی۔ ٹنڈومحمد خان حیدرآباد سے کوئی چالیس پچاس کلومیٹر ہے، وہاں بھی یونیورسٹی کی ضرورت ہے، قائم کی جانی چاہئے۔ ایک اچھا اقدام ہے جس کی تعریف ضروری ہے۔ اسی اجلاس میں حیدرآباد یونیورسٹی کا بل بھی تو منظور کیا جاسکتا تھا، نہیں ہوا۔ اس کی تعریف تو نہیں ہو سکتی۔ اس شہرناپرساں میں یونیورسٹی توکیا ، صبح کا آرٹس کا کوئی کالج بھی نہیں ہے۔ یہاں کوئی تعلیمی ادارہ حکومت نے قائم نہیں کیا، گزشتہ چالیس برس سے کوئی کالج کھلا نہ کوئی بڑا اسکول بنایا گیا۔ حکمرانوں کی تو کوئی دلچسپی نہیں رہی، اس شہر نے انہیں کبھی خوش نہیں رکھا۔ ان کا رویہ تو سمجھ میں آتا ہے مگر جنہیں یہ شہر ووٹ دیتا ہے، دیتا رہا ، انہوں نے بھی اس شہر کے لئے کچھ نہیں کیا۔ شکایت تو ان سیہ ے اور گورنر عشرت العباد سے۔ انہوں نے اپنے دس سالہ دورِ حکومت میں درجنوں یونیورسٹیوں کے چارٹر عطا کئے۔ حیدرآباد میں مگر یونیورسٹی وہ بھی نہیں بناسکے۔ ممکن ہے انہوں نے دلچسپی لی ہو مگر نتائج تو سامنے ہیں۔ یونیورسٹی تو نہیں بنی۔
تازہ ترین