• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کبھی کبھی مجھے یوں لگتا ہے میں ایک دنیا میں نہیں، دو دنیاؤں کے درمیان کہیں آباد ہوں۔ ابھی کچھ روز کی بات ہے، ایک خبر لاہور سے آرہی تھی، دوسری انگلستان میں کسی جگہ سے۔ 

لاہور کی خبر یہ تھی کہ شہر کے عظیم الشان نہایت تاریخی شاہی قلعے میں پھر وہی بینڈ باجے ہورہے ہیں، دعوتیں اور ضیافتیں جاری ہیں، تیز روشنیاں لگی ہیں، درو دیوار کو لرزا دینے والا ساؤنڈ سسٹم نصب ہو گیا ہے اور شہر کے شاندار ماضی کی تابناک نشانی کی بری درگت بنائی جا رہی ہے۔

 اس خبر کے پہلو ہی میں انگلستان کی خبر دھوم مچارہی تھی کہ ملک میں آثارِ قدیمہ کی کھدائی کے دوران چار ہزار سال پرانی ایک بستی نکل آئی ہے جو دنیا کو یہ بتا کر حیران کردے گی کہ چار ہزار برس پہلے اس سرزمین پر کون لوگ آباد تھے اور کیسی زندگی جیتے تھے۔ خبر کیا تھی ایک جشن کی کیفیت تھی، برطانوی تاریخ دان خوشی سے نہال تھے اور میں ان دو منظروں کے بیچ پھنسا، بےبس سے انسان کی طرح سوچ رہا تھا کہ ہم کس دنیا میں رہتے ہیں، کن قدروں کو عزیز جانتے ہیں، اپنی ترجیحات کیسے اور کیونکر طے کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ دو دنیائیں ایک دوسرے سے اتنی جدا، اتنی مختلف اور اتنی دور دور کیوں ہیں۔

قلعہ لاہور، جس کو ہم جب بھی دیکھتے ہیں، سلام کرتے ہیں کہ کیسے کیسے زمانے وہاں رونق بن کر قلعے کی فضا کو سرشار کرتے ہوں گے، تاریخ نے وہاں کیسی کیسی کروٹیں بدلی ہوں گی، کیسے عروج دیکھیں ہوں گے اور کیسے کیسے زوال قیامت بن کر ٹوٹے ہوںگے۔ تاریخ کے ماہرین کہتے ہیں کہ تاریخ کی سب سے سچی گواہی کتابیں نہیں، کھنڈر دیا کرتے ہیں۔ 

اور کھنڈر بھی کہاں کے، اس سرزمین کے جو اُس وقت خوش حالی کی فضاؤں میں آسمان کو چھو رہی تھی جب باقی دنیا کو جینے کی پوری طرح تمیز بھی نہ تھی۔ تبھی ہم دیکھتے اور حیران ہوتے ہیں کہ پشاور سے راس کماری تک اور ٹونک کے نذرباغ سے کلکتے کے مٹیا بُرج تک تاریخ گزرے وقتوں کی کیسی کیسی داستانیں کہے جارہی ہے مگر ستم یہ ہے کہ وقت تو قصہ گو ہے، اپنی بات کہے جارہا ہے لیکن ہم خود اپنی داستانوں سے بےنیاز ہیں۔ 

ہم نے بدلتے وقت کی روداد کہنے والوں کی قدر نہ کی تو انہیں کیا؟ وہ بھی وقت کی گرد تلے دب کر چین کی نیند سو رہیں گے۔ ہمیں بعد میں اور دیر سے ہوش آیا تو پھر ان کھنڈروں کو کریدا کریں گے اور ٹوٹی پھوٹی ہانڈیاں اور ہڈیوں کے ڈھانچے نکال کر دوسروں کو دکھایا کریں گے کہ دیکھو ہمارے باپ دادا یوں جیتے اور اس طرح مرتے تھے۔

اپنے ملک کے بارے میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس ایک ملک کے نیچے نہ جانے اور کتنے ملک دفن ہیں۔ سندھ کے علاقے میں نہریں کھودی جارہی تھیں کہ قدیم بستیوں کے آثار نکلنے لگے۔ 

ہم دو چار قلعوں، مقبروں اور مزاروں ہی کو جانتے ہیں، تاریخ کی کتنی ہی نشانیاں ہمارے پیروں تلے دفن ہیں۔ ہم موہنجودڑو سے واقف ہیں اور نہیں جانتے کہ وہیں کہیں جو مٹی کے ٹیلے نظر آتے ہیں ان کی تہوں کے اندر کیسی کیسی بستیاں اور آبادیاں آنکھیں موندے پڑی ہیں۔ 

ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں، انگریز اور یورپ کے تجسس کے مارے مورّخ ایسا کچھ کرکے گئے ہیں کہ ان آثار کو دن کی روشنی دیکھنا نصیب ہوئی۔ اب وہاں کی لکھائی کو پڑھنے کی کوشش بھی وہی کر رہے ہیں۔ ٹیکسلا کے بےمثال آثار وہی باہر والے دریافت کرکے گئے۔ 

ہڑپّہ کے آثار انہی غیرملکیوں نے نکالے، یہ الگ بات ہے کہ لاہور کے سلطان ٹھیکے دار نے وہاں کے پتھر اکھاڑ کر ریل کی پٹریاں ڈالنے والوں کے ہاتھوں فروخت کر دیے۔ یہ تو خیر بہت ہی پرانے آثار تھے۔ ان کے بعد کے زمانوں کی نشانیاں اتنی بڑی تعداد میں ہیں کہ میں خود کہا کرتا ہوں کہ دس بارہ ہوں تو انسان ان کی دیکھ ریکھ کرے، یہ تو قدم قدم پر پاؤں جمائے کھڑی ہیں۔

سندھ، پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں تاریخ سے بھی قبل کے آثار سے لے کر مغل دور کی عمارتوں تک اتنی یادگاریں ہیں کہ ان کا کوئی شمار نہیں۔ کہتے ہیں کہ جب کوہِ سلیمان پر بارش برستی ہے تو اس کے پانی کا ریلا میدانوں کو روندتا ہوا دریا میں چلا جاتا ہے البتہ راہ کی مٹی کی ایک پرت بہا لے جاتا ہے تو وہاں تاریخ سے بھی قبل کی دبی ہوئی اشیا نمودار ہو جاتی ہیں۔ پھر مغلوں کا زمانہ آتا ہے، سندھ کے رئیسوں کا دور، سکھوں کی شاہی، ان سب نے اپنے آثار چھوڑے۔

 ان کے محل، قلعے، مقبرے اور باغات، سمادھیاں، بارہ دریاں، جھروکے، باؤلیاں، مسجدیں اور سرائے سب کے سب موجود ہیں مگر کب تک؟ ہر چند کہ اُس زمانے کی عمارتیں آسانی سے تباہ نہیں ہوتیں۔ 

مشرقی پنجاب میں ایک سڑک چوڑی کی جا رہی تھی لیکن مسئلہ یہ تھا کہ پہلے کبھی جو کوس مینار سڑک کے کنارے بنایا گیا تھا وہ اس کشادہ سڑک کے درمیان آگیا۔ 

مزدوروں سے کہا گیا کہ مینار کو گرادیں، وہ غریب کئی روز خون پسینہ ایک کرتے رہے لیکن مینار ٹس سے مس نہ ہوا۔ آخر فوج کے انجینئر بلائے گئے جنہوں نے بارود لگا کر مینار منہدم کیا۔ یہی صورت قلعوں کی ہے۔ 

سندھ میں کئی تاریخی قلعے موجود ہیں۔ جو لوگ سیاحت کے معاملات جانتے ہیں انہیں پتا ہے کہ ملکی اور غیرملکی سیاح اس قسم کی یادگاریں دیکھنے کے لئے کھنچے کھنچے آتے ہیں۔ 

ان کے خیال سے ان عمارتوں کو سنبھالا جائے، وہاں تک رسائی آسان بنائی جائے، وہیں کہیں عمدہ رہائش گاہیں ہوں تو سیاحوں کا مجمع لگا رہے گا۔ 

بلاشبہ موہنجودڑو میں یہ انتظام ہے اور کوٹ ڈیجی کے پہاڑی قلعے کے دامن میں ایسا ہوٹل بنایا گیا ہے جو دیکھنے میں گاؤں نظر آتا ہے لیکن جہلم کے قلعہ روہتاس کے قریب ایسا کوئی بندوبست نہیں حالانکہ سیاحت کے نقطہ نظر سے اس قلعے میں ہزار خوبیاں ہیں۔ 

اب حکومت چونکہ سیاحت کو فروغ دینے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے، امید ہے کہ آثارِ قدیمہ کی بہتر نگہداشت ہوگی لیکن اگر شاہی عمارتوں میں بینڈ باجے اور گانے بجانے اور دعوتوں اور ضیافتوں کا سلسلہ جاری رہا تو تاریخ کے چھوڑے ہوئے یہ نقوش، ہم نے تو دیکھ لئے، ہمارے بعد والی نسلیں نہیں دیکھ پائیں گی اور دل میں کسی اور کو نہیں، ہمیں کو برا بھلا کہیں گی۔

تازہ ترین