• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جی این مغل…

گزشتہ کالم میں سندھ میں آزادیٔ صحافت کی تحریک کے حوالے سے بات یہاں چھوڑی تھی کہ اس وقت پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے سربراہ جناب منہاج محمد خان برنا کی تجویز پر عید سے چار دن بعد روزانہ قیدی صحافی، مزدور اور طلبہ نے بھوک ہڑتال کا سلسلہ شروع کر دیا۔ 

بھوک ہڑتال کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد جیلوں کے اندر اور باہر اس تحریک میں ایک نیا جوش اور جذبہ پیدا ہوگیا۔ ساتھ ہی جیل کے باہر سے آنے والی اطلاعات کے مطابق ملک بھر سے صحافیوں کی کراچی آکر وہاں گرفتاریاں دینے کا سلسلہ اور بھی بڑھ گیا۔

یہ سب کچھ دیکھ کر حکومت اور انتظامیہ کا پریشان ہونا سمجھ سے بالاتر نہیں۔ اطلاعات کے مطابق اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے جنرل ضیاء الحق کی مارشل لا حکومت مختلف انتہائی اقدامات کرنے پر سنجیدگی سے غور کررہی تھی۔ 

یہاں یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ سندھ کے آئی جی جیل خانہ جات کا مرکزی دفتر حیدرآباد سینٹرل جیل میں تھا، یہ بات بھی کم دلچسپ نہیں تھی کہ جہاں جیل حکام ہم صحافیوں اور ہماری اس تحریک کے سخت خلاف تھے وہیں حیدرآباد سینٹرل جیل کے نچلے طبقے کے ملازمین کی ساری ہمدردیاں ہمارے ساتھ تھیں لہٰذا کوئی دن نہیں جاتا تھا جب یہ ملازمین ہم سے رابطہ کرکے ہمارے اور تحریک کے بارے جیل اور حکومت کے حکام کی منصوبہ بندی سے آگاہ نہ کرتے۔ 

ایک دن شام کا وقت تھا، ہم تینوں قیدی سیل میں بیٹھے ہوئے تھے تو اچانک ایک شخص آکر ہمارے سیل کی سلاخوں والے دروازے پر کھڑا ہوگیا اور میرا نام لیا، اپنا نام سن کر میں دوڑ کر دروازے تک پہنچا تو میرے باقی دونوں قیدی ساتھی بھی آگئے، ہم یہ دیکھ کر حیران ہوگئے کہ اس نوجوان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ آخر کار مجھ سے مخاطب ہوکر اس نے کہا کہ مغل صاحب آپ کے لئے میرے پاس ایک بہت بری خبر ہے، آج خیرپور سینٹرل جیل جہاں برنا صاحب قید تھے، کے سپرنٹنڈنٹ کا ایک ٹیلیکس پیغام آئی جی کے نام آیا ہے جو میں نے اور میرے ساتھیوں نے پڑھا ہے۔ 

اس پیغام میں خیرپور جیل کے سپرنٹنڈنٹ نے کہا ہے کہ ہدایات کے تحت ہم گزشتہ دو تین دنوں سے منہاج برنا کو انتہائی سختی سے احکامات دیتے رہے کہ وہ فوری طور پر بھوک ہڑتال ختم کردیں ورنہ آپ کے لئے اچھا نہیں ہوگا، ہم آپ کی بھوک ہڑتال ختم کرانے کے لئے کوئی بھی قدم اٹھا سکتے ہیں مگر برنا ہماری ایک بات بھی سننے کے لئے تیار نہیں.

انہوں نے کہا ہے کہ اگر صحافیوں کے مطالبات نہیں مانے گئے تو میری یہ بھوک ہڑتال میری موت تک جاری رہے گی لہٰذا ہم نے طے کیا ہے کہ آج رات کو کسی وقت ان سے زبردستی بھوک ہڑتال ختم کرانے کے لئے ان پر تشدد کیا جائے گا، جس میں ان کی جان بھی جا سکتی ہے۔ 

یہ سن کر میں غصے میں پیچھے جو ہٹا تو میری پیٹھ جاکر سیل کی ایک دیوار سے لگی، یہی حال میرے دیگر دونوں قیدی ساتھیوں کا تھا۔ اس صورتحال میں میرے منہ سے یہ الفاظ نکلنے لگے ’’تیرے ساتھ جینا، تیرے ساتھ مرنا، منہاج برنا، منہاج برنا‘‘ میرے منہ سے یہ الفاظ سن کر ان دو ساتھی قیدیوں کے منہ سے بھی یہی الفاظ نکلنے لگے۔

 شروع شروع میں یہ الفاظ ہمارے منہ سے دھیرے دھیرے نکلے مگر بعد میں ہم تینوں نے یہ نعرہ زوردار آواز میں لگانا شروع کردیا، یہ نعرے اتنی زور دار آواز میں لگائے گئے کہ آس پاس کے دیگر سیلز میں قید ہمارے صحافی، طلبہ اور مزدور قیدیوں نے محسوس کیا کہ کوئی اہم منفی ڈویلپمنٹ ہوئی ہے، تو انہوں نے بھی انتہائی زور دار آواز میں یہ نعرے لگانا شروع کر دیے، بعد میں یہ نعرے ساری جیل کے سیلوں میں گونجنے لگے۔

یہ نعرے پہلی رات تو ساری رات جاری رہے مگر دوسرے دن، دن رات یہ نعرے گونجنے لگے، ان نعروں کی خبر جب اخباروں میں شائع ہوئی تو سندھ کی ساری جیلوں میں ’’تیرے ساتھ جینا، تیرے ساتھ مرنا، منہاج برنا، منہاج برنا‘‘ کا نعرہ گونجنے لگا، اب یہ نعرہ سندھ کی ساری جیلوں کا معمول بن گیا، اس صورتحال سے حکومت مزید گھبرا گئی۔

 میرا خیال ہے کہ ایک ہفتے کے اندر حکومت کی طرف سے وہ سارے قیدی جنہوں نے اس تحریک کے تحت گرفتاریاں پیش کی تھیں، کو رات کو رہا کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔ اس اعلان کے بعد بیرونِ جیل ہماری قیادت کی طرف سے ہمیں جیلوں کے اندر ہدایات ارسال ہوئیں کہ اب بھوک ہڑتال ختم کر دیں۔

اسی دوران عوامی تحریک کے ممتاز رہنما اور صحافتی تحریک کے ایک بڑے حمایتی فاضل راہو صاحب بھی گرفتار ہوکر حیدرآباد سینٹرل جیل لائے گئے اور ان کو ’’بی‘‘ کلاس دی گئی تھی، جب ہم بھوک ہڑتال ختم کرنے کی تیاریاں کر رہے تھے تو جیل کا ایک ملازم دوڑتا ہوا ہمارے سیل کی طرف آیا اور میرا نام پکار کر کہنے لگا کہ مجھے فاضل راہو صاحب نےیہ پیغام دینے کے لئے بھیجا ہے کہ میں آپ کے لئے خود سوپ تیار کر رہا ہوں، آپ میرا انتظار کریں، میں آئندہ چند منٹوں میں یہ سوپ لیکر آپ کے سیل میں آ رہا ہوں اور اپنے ہاتھوں سے آپ کو یہ سوپ پلاکر آپ کی بھوک ہڑتال ختم کرانا چاہتا ہوں۔ 

فاضل صاحب آئے اور انہوں نے اپنے ہاتھوں سے سوپ پلایا، بعد میں انہوں نے میرے سیل کے باقی دو ساتھیوں کو بھی یہ سوپ پلایا۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ آپ اپنے سارے ساتھیوں کو میرا یہ پیغام پہنچا دیں کہ جیل سے نکل کر وہ میرے مہمان بنیں، میں ان کے اعزاز میں ایک استقبالیہ دوں گا مگر اس پر عمل نہ ہو سکا کیونکہ فاضل صاحب اور مجھے اس رات رہا نہیں کیا گیا، ہم دونوں نے وہ رات اکیلے اپنے اپنے سیل میں گزاری۔

تازہ ترین