• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کشور ناہید…

ایک منظر پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ OUP کی کانفرنس تھی جس میں دیسی اور بدیسی خواتین و حضرات شریک تھے۔ سب لوگ گلے مل رہے تھے، ایک دوسرے سے ہاتھ ملا رہے تھے مگر غیرملکی خواتین جن میں کرسٹینا شیفیلڈ بھی شامل تھیں، وہ دور سے کہہ دیتی تھیں کہ ہمارے قریب مت آئو۔ ہنسی آتی تھی یہ سوچ کر کہ کیا کورونا وائرس گندمی رنگ کے لوگوں سے لگتا ہے۔ شروع تو چین سے ہوا ہے۔ جو ہماری رنگت والے نہیں۔ بہر حال یہ تجربہ بھی کلونیل نفسیات کی نمائندگی کر رہا تھا۔

جیسا کہ ہوتا ہے، ہر کانفرنس میں ادب، ثقافت اور سیاست جیسے موضوعات پر کھلے عام بحث ہوتی ہے۔ لوگ سوال جواب بھی کرتے ہیں اور کئی موقعوں پر نوجوانوں کے سوالوں کے جواب میں بزرگوں کی حالت گومگو کی ہوتی ہے۔ سبب بھی یہ ہے کہ معاشرے میں مساوات کا مسئلہ ہو کہ میڈیا میں عورت کا کردار کہ پاکستان میں درمیانہ طبقے کا ختم ہو جانے کا سبب یا پھر وہی موضوع غربت، جہالت اور مذہبی شدت پسندی، جس میں خاص طور پر خواتین کو نشانہ بنانے والوں کو اپنی دشمنی ظاہر کرنے میں بڑا مزا آتا ہے۔

ابھی مارچ کا مہینہ شروع ہی ہوا تھا کہ عورت مارچ کا موضوع اسمبلی سے لے کر اخبارات اور میڈیا پر بھی کورونا کی طرح زیر بحث رہا۔ کوئی حرج نہیں مگر اسمبلی ہو کہ میڈیا عورتوں کی تحریک کے لئے بدچلنی اور ایسے ایسے برے الفاظ استعمال کئے گئے کہ بیان بھی نہیں کر سکتی۔ ساحر لدھیانوی نے لکھا تھا ’’عورت نے جنم دیا مردوں کو، مردوں نے اسے بازار دیا‘‘۔ آج #Metoo کی تحریک نے وائسٹن کو عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے پر 25سال قید کی سزا دی گئی ہے۔ پچھلے برس سوئیڈش اکیڈمی کے ایک ممبر کو ایسے ہی جرم کے باعث 2سال قید کی سزا دی گئی تھی۔ پاکستان میں زینب کے ساتھ زیادتی و قتل کرنے والے کو تو موت کی سزا دی گئی مگر دن کے بارہ گھنٹے میں کم از کم دو بچوں کے ساتھ زیادتی کر کے، گلا گھونٹ کر مار دیا جاتا ہے۔ قانون پلٹ پلٹ کے پوچھتا ہے مجھے بدنام نہ کرو، مجرموں کو سزا دو مگر یہاں تو سب کپڑے جھاڑ کر آزاد گھومتے ہیں، قانون اپنا منہ دیکھتا رہ جاتا ہے۔ وہ تو ہر جگہ، چینی گودام میں چھپائو، آٹا اسمگل کر دو۔ 14سال کی لڑکی کی 80سال کے بوڑھے سے شادی کیلئے نکاح خواں کو رشوت دے کر کچھ بھی لکھوا لو۔ وہ تو شکر ہے اب علاقے کے لوگ باشعور ہو گئے ہیں اور ایسی حرکتوں پر پولیس کو اطلاع کر دیتے ہیں مگر میں اس لڑکی پر کیا نوحہ لکھوں کہ 14سال کی لڑکی کو محلے کے ایک نہیں، کئی بےغیرت بھنبھوڑتے رہے۔ باپ کام پر گیا ہوتا تھا۔ جب لڑکی کی طبیعت خراب ہوئی تو باپ ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ ڈاکٹر نے کہا کہ یہ لڑکی تو پورے دنوں پر ہے، بچہ ہوگا۔ اب اس کا باپ کون تھا کہ وہ سارے غیرت مند تو محلہ ہی چھوڑ گئے تھے۔ ایسی کہانیاں گلی گلی ہیں۔

رہا نصاب کا مسئلہ۔ یوں تو کہا جا رہا ہے کہ یکساں نصاب کر دیا جائےگا مگر 9سے 12سال کی عمر میں لڑکے لڑکیوں کے جسم میں جو تبدیلیاں آتی ہیں ان کے بارے میں مدرسے والے کیا پڑھیں گے اور اسکولوں کی لڑکیاں کیا پڑھیں گی کیونکہ گھروں میں مائیں بڑی ہوتی لڑکیوں اور لڑکوں کو کچھ بتاتی ہی نہیں ہیں۔ اب ہمارے میڈیا کو رٹینگ بڑھانے کیلئے ایک ایسا رائٹر مل گیا ہے، جو یہ کہتا ہے کہ نعوذ باللہ مجھ پر تو وحی نازل ہوتی ہے اور عورت کو دو ٹکے کی کہلوا کر اپنی مردانگی بگھارتا ہے۔ کمال یہ ہے کہ ایسی ذہینت کے شخص کو میڈیا والے ہاتھوں ہاتھ لے رہے ہیں، سرکار میں کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔

کراچی ادبی فیسٹیول پر بات شروع کی تھی، بات کہاں تک پہنچ گئی۔ فیسٹیول میں یہ موضوع بھی زیر بحث آیا کہ آخر ہمارا پورا معاشرہ، عورتوں سے اتنا خوفزدہ کیوں ہے۔ ہمارے نقاد، خواتین کی تحریروں کا تجزیہ ہی نہیں کرتے۔ شاید خوفزدہ ہوتے ہیں جبکہ ان موضوعات کی گیرائی اور گہرائی سے ناواقف رہنا چاہتے ہیں۔ گزشتہ پچاس برس سے ایک ہی طرح کے مضمون پڑھ پڑھ کر بوریت محسوس ہونے لگتی ہے مگر وہ پروفیسر حضرات جو پڑھاتے ہیں، ایسی کلاسیکیت پر مسلسل لکھتے رہے ہیں۔ بقول مسعود اشعر، ہم اب وارث علوی یا باقر مہدی جیسے نقاد کہاں سے لائیں۔ لئے دیئے ناصر عباس منیر ہے جس کا آج کل طوطی بول رہا ہے مگر نسائیت سے وہ بھی دور بھاگتے ہیں۔ آج ہی اظہار الحق کی شاعری پر مضمون پڑھا۔ افسوس یہ ہوا کہ ایک اچھے بھلے شاعر کو صوفی بنا دیا گیا۔ یہی زیادتی بےچارے خورشید رضوی کے ساتھ ہوتی رہی ہے۔ معصیت اور مصیبت میں یہ فرق ہے۔

تازہ ترین