• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارتی صوبہ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ آخلیش یادیو نے بھی پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کی تقلید کرتے ہوئے طلباء و طالبات میں لیپ ٹاپ تقسیم کرنے شروع کردیے ہیں۔بھارتی اخبار”دی ہندو“ نے لکھا ہے کہ بھارت میں اس سکیم کا آغاز سماج وادی پارٹی نے کیا ہے جس سے عوام بالکل یہ توقع نہیں کررہے تھے اور یہ کام پاکستان کے صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے لیپ ٹاپ کے منصوبے کی تقلید میں شروع کیا ہے، فی الحال دس ہزار لیپ ٹاپ سٹوڈنٹس کو دئیے گئے ہیں ابھی مزید دینے ہیں،اگر انسان واقعی ہی نیک نیتی سے اچھے کام کرے تو اس کے بدترین دشمن بھی اس کی تعریف کرتے ہیں۔ سمجھ دار لوگ ان اچھے کاموں کا ذکر کرتے ہیں اور اپنی اصلاح کرتے ہیں۔ یو پی کے زیر اعلیٰ آخلیش یادیو نے تقلید کی اور اپنے ہاں بھی یہ کام شروع کردیا، دوسری طرف ہماری سابق وفاقی حکومت اور پنجاب میں اپوزیشن والے ہیں جو حکومت پنجاب کے ہر اچھے کام میں کیڑے نکالتے رہتے ہیں اور اپنے کسی فعل کی طرف توجہ ٓنہیں دیتے۔ ان پانچ برسوں میں پی پی کی حکومت نے عوام کو کیا دیا کوئی ایسا کارنامہ جو فخریہ انداز میں بیان کرسکیں۔پی پی کے سابق رہنما اور تحریک انصاف کے موجودہ سیکرٹری اطلاعات شفقت محمود نے حال ہی میں اپنے ایک بیان میں بالکل درست کہا ہے کہ پی پی کے دور میں سوائے کرپشن کے کیا ہوا ہے؟ اور عوام کو اس حکومت نے کیا دیا ہے؟۔پی پی کی حکومت نے پانچ برس میں مہنگائی، لوڈ شیڈنگ بجلی اور گیس دونوں کی بقول جگر مراد آبادی
کیا لطف پوچھتے ہو پر شوق زندگی کے
جی جی اٹھا ہوں مر کے،مر مرگیا ہوں جی کے
پٹرولیم بم مار مار کر لوگوں کے چہرے ایتھوپیا کے لوگوں سے بھی بدتر ہوگئے ہیں، تیس سال کے نوجوان کا چہرہ بھی کریلے کی طرح ہوگیا ہے۔ لوگ اپنا بچپن اور جوانی بھول گئے ہیں۔ لوگ خودکشیاں کررہے ہیں بھوک اور ننگ کے سائے پھررہے ہیں اگر ہم پوری ایمانداری کے ساتھ پاکستان کے چاروں صوبوں(اب تو پانچواں صوبہ بھی ہے) کا جائزہ لیں تو صوبہ سندھ جہاں پر پی پی کی حکومت ہے اور سندھ اسمبلی کو اس سخت اپوزیشن کا سامنا نہیں جس سخت اپوزیشن کا سامنا صوبہ پنجاب کی حکومت کو رہا۔ صوبہ سندھ کے دارالحکومت اور ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں لوگ سرے شام ہی اپنے گھروں کو بھاگنے میں عافیت سمجھتے ہیں جبکہ لاہور میں لوگ رات کے تین بجے تک سڑکوں پر گھومتے پھرتے ، کھاتے پیتے نظر آتے ہیں۔ پوری پوری رات فوڈ سٹریٹ میں رش رہتا ہے۔
راجہ جی کہتے ہیں کہ ہم ان پانچ برسوں میں عوام کے لئے دودھ اور شہد کی نہریں تو نہیں بہا سکتے تھے جی بالکل درست فرمایا آپ نے لیکن راجہ جی عوام جو تھوڑا بہت انتہائی ناخالص دودھ پی رہے تھے آپ کی حکومت نے وہ بھی چھین لیا۔ لوگ روٹی کو ترس گئے، خود حکمرانوں کو دنیا کا بہترین دودھ اور شہد حاصل ہے۔ حکومت نے چلتے چلتے پی آئی اے کے لئے100ارب کا ٹیکہ بھی لگا دیا اور اس میں نجی شعبے کو شامل کیا جائے گا کیوں اس بارے میں کیا کہنا؟ صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کو ہی لیں انہوں نے جس طرح اپنے ترقیاتی کام اور اپنے آپ کو میڈیا اور انٹرنیشنل اداروں کے سامنے پیش کیا یہ ایک اچھی روایت ہے اور کہیں بھی کرپشن کا عنصر سامنے نہیں آیا۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ میڈیا کے سامنے اپنی کارکردگی رکھتے اور وزیر اعظم راجہ جی بھی وہاں موجود ہوتے تو تب پوری دنیا دیکھتی کہ کس صوبے نے کیا کیا ہے؟
ہم تو تعلیم اور صحت کے حوالے سے بات کریں گے۔ اب تک سوا دو لاکھ کے قریب ان سٹوڈنٹس کو لیپ ٹاپ صرف قابلیت پر دئیے گئے جن میں اکثریت ان سٹوڈنٹس کی ہے کہ جو کبھی بھی دوران تعلیم اپنا ذاتی لیپ ٹاپ نہیں خرید سکتی۔ وفاق نے پنجاب میں بدترین لوڈشیڈنگ کی تاکہ یہاں کے ہونہار طلباء تعلیمی طور پر دوسرے صوبوں سے پیچھے رہ جائیں۔ حکومت پنجاب نے دو لاکھ سٹوڈنٹس کو اجالا پروگرام کے سولر سسٹم اور سولر لیمپس فراہم کرکے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے جو تعلیمی حرج ہورہا تھا اس سے ان کو بچالیا ۔دنیا کا جدید ترین ٹرانسپورٹ کا نظام میٹرو کی شکل میں دیا۔ ملک کی پہلی انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی قائم کی اور ایک ایسے شخص ڈاکٹر عمر سیف جو کہ امریکہ میں لاکھوں ڈالرز کمارہے تھے ان کو یہاں لاکر اس یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنادیا ۔یہاں پر ان کو امریکہ کے مقابلے میں کم تنخواہ اور کم سہولیات ملتی ہیں۔ دانش سکولز اور پانچ دیگر یونیورسٹیاں اور پانچ میڈیکل کالجز قائم کروائے اور سرکاری ہسپتالوں میں مفت ادویات کی فراہمی بھی شروع کردی۔ پی پی کی حکومت نے ریلوے، قومی ائیر لائن کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا تو کیا ریلوے اور قومی ائیرلائن کا کنٹرول صوبہ پنجاب کے پاس تھا۔ وفاق نے اپنے کئی ادارے تباہ کرڈالے۔راجہ جی کو چاہئے کہ جو گرانٹ انہوں نے صوبہ پنجاب کو نہیں دی اس کے بارے میں بھی بتادیں کہ وہ گرانٹ کہاں خرچ ہوئی اور جن باقی تین صوبوں نے یہ گرانٹ حاصل کی اس کا بھی ذرا حساب قوم کو دے دیں اگر صوبہ پنجاب وفاق کی گرانٹ کے بغیر اتنا کچھ کررہا ہے تو باقی صوبوں کو تو بہت کچھ کرنا چاہئے تھا۔ خاص طور پر صوبہ سندھ کو لے لیجئے جاتے جاتے قومی اسمبلی کی سپیکر فہمیدہ مرزا نے حکومت کو بھی ٹیکہ لگادیا ہے، نہ صرف انہوں نے اپنے لئے تاحیات بھاری مراعات منظور کرالیں بلکہ سات سابق سپیکرز کو بھی یہ مراعات تاحیات حاصل ہوں گی جس میں میڈیکل بل، سیکرٹری، فون آپریٹر، ویٹر ، ڈرائیور، نائب قاصد، پٹرول ،سولہ سی سی کار اور ایک لاکھ روپے ماہانہ ملے گا۔ دوسری طرف سندھ اسمبلی کے ارکان بھی جاتے جاتے عمر بھر کے لئے مراعات لے گئے بلکہ سابق وزرائے اعلیٰ سابق سپیکرز ،ڈپٹی سپیکر اور سابق ارکان سندھ اسمبلی کو بھی بعض مراعات دی گئیں ہیں۔چار سال تک وزیر اعلیٰ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر رہنے والے کو تاحیات تنخواہ اور مراعات کا 70فیصد اعزایہ ملتا رہے گا، ایک گریڈ 17کا افسر بطور پرائیویٹ سیکرٹری، ایک اردلی، ایک ڈرائیور ،ایک باورچی، ایک مالی اور ایک سینٹری ورکر بھی تاحیات حکومت سندھ فراہم کرے گی۔ سینٹری ورکر کی سمجھ نہیں آئی یہ کیوں حاصل کیا گیا ہے، ایک صوبہ پنجاب ہی اس معاملے میں پیچھے رہ گیا ہے۔ خادم پنجاب میاں شہباز شریف کو اس مسئلے کی طرف فوری توجہ دینی چاہئے۔ ورنہ لوگ تو سندھ اسمبلی کا ممبر بننا پسند کریں گے، جہاں پر کام ایک ٹکے کا نہیں ہوا اور مراعات باقی تمام صوبوں کے ارکان اسمبلی سے زیادہ دینے کا بل پاس ہوگیا۔
صوبہ پنجاب میں وزیر اعلیٰ نے ان پانچ برسوں میں اور بعد میں بھی کوئی تاحیات مراعات دینے کا بل پاس نہیں کیا بلکہ بعض ارکان اسمبلی اپنے ذاتی ٹکٹوں پر سفر کرتے رہے ، خواجہ سلمان رفیق بغیر تنخواہ کے کام کررہے ہیں۔ قومی اسمبلی کی سپیکر اور ارکان سندھ اسمبلی نے اس عارضی زندگی کے لئے تو بہت کچھ حاصل کرلیا لیکن ایک بل پاس کرنا بھول گئے۔ ایک بل یہ بھی پاس کرلیں کہ بعد مرنے کے بھی کچھ مراعات ملنی چاہئے کیونکہ وہاں پر قیام تو تا قیامت تک ہے اور قیامت کا صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کو علم ہے۔ یعنی جتنا مرضی میڈیکل کی سہولت حاصل کرلیں موت پھر بھی آجائے گی اور چھ فٹ کی قبر میں تو جانا ہے تو وہاں کے لئے یہ سٹاف بھی منظور کراہی لیں۔قبر پر صبح شام پانی کا چھڑکاؤ کرنے کے لئے مالی جو صبح و شام قبر پر پھول بھی ڈالے، ایک حافظ قرآن جو مرنے والے سپیکرز ،ڈپٹی سپیکرز اور مرحوم وزیر اعلیٰ کے لئے تلاوت قرآن پاک کرے اور جو فنڈز چوری کئے ہیں اسی کے لئے اللہ سے بخشش کا طلبگار ہو۔ایک مستری (راج) تاکہ جب بھی قبر خراب ہو اس کی مرمت کردے، ا یک دربان جو قبرستان میں آنے والے دوسروں لوگوں کو بتاسکے کہ یہ قبر فلاں سپیکر ، ڈپٹی سپیکر یا وزیر اعلیٰ کی ہے اور انہوں نے دکھی انسانیت کے لئے اتنے کام کئے کہ خود دکھی ہو کر مر گئے۔ایک چوکیدار جو رات کو قبر کی حفاظت کرے اور لائٹ جلائے اور اس بات کا بڑی سختی کے ساتھ دھیان رکھے کے دفن ہونے والے سپیکر، ڈپٹی سپیکر اور وزیر اعلیٰ کی قبر پر جو کتبہ ان کے نام کا لگا ہوا ہے کسی اور صاحب قبر کا کتبہ اس سے اونچا نہ ہو اگر کوئی ایسا کرنے لگے تو فوراً پولیس کو بلالائے۔بھائی سیاستدانوں وہاں بہت لمبا عرصہ رہنا ہے لہٰذا سٹاف منظور کرالو، کہا گیا ہے کہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اپنے خاندان کے 26افراد کے ہمراہ اسمبلیوں کے خاتمے سے چند گھنٹے پہلے دبئی چلے گئے۔ ان کے اور ان کے خاندان کے افراد کے چہروں پر خوشی کے آثار دیکھے جارہے تھے۔ ظاہر ہے دبئی جاکر موجیں مارنی ہیں کسی نے سوچا، کسی نے پوچھا کہ آپ کے حالات وزیر اعظم بننے سے پہلے کیا تھے۔ اب کیا ہیں اور 26افراد خانہ کا دبئی میں خرچہ کیا روزانہ صرف 26سو روپے آئے گا۔ ہزاروں روپے روزانہ کا خرچہ اور جب آئیں گے تو لاکھوں شاید کروڑوں روپے تک خرچہ کرچکے ہوں ۔ یہ خرچہ کون دے گا؟ یہ روپیہ کہاں سے آگے گا ؟ اور کہاں سے آیا ہے؟ کون میزبانی کرے گا؟ اس کو راز ہی رہنے دیں۔
تو لیجئے حضرت جنرل مشرف نے پھر فرمایا ہے کہ اگر وہ24مارچ کو نہ آئے تو پھر پاکستان نہیں آئیں گے۔ ہمیں تو پہلے سے پتہ تھا کہ وہ نہیں آئیں گے جنرل مشرف بھی اس محبوبہ کی طرح ہیں جو اپنے محبوب کو لوٹ کر بھاگ جاتی ہے ،دوبارہ کبھی اس کو نہیں ملتی البتہ اٹھتے بیٹھتے اس کی یاد میں مگر مچھ کے آنسو ضرور بہاتی ہے۔ جنرل صاحب آپ کو پاکستان سے اتنا ہی پیار ہے تو پھر دیر کس بات کی؟
حدود کوچہ محبوب ہے وہیں ہے شروع
جہاں سے پڑنے لگیں پاؤں ڈگمگاتے ہوئے
تازہ ترین