• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے معاشرے میں کسی بھی مسئلہ پر جتنی فکری پولرائزیشن ہے شاید ہی کسی اور معاشرے میں ہو، اس کی بڑی اور اصل وجہ ریاستی و فکری جبر ہے۔ حریتِ فکر یا فکری آزادی یہاں اعلیٰ انسانی قدر نہیں بلکہ ناقابلِ معافی جرم ہے۔ یہاں پاپولیریٹی کا مجرب نسخہ یہ ہے کہ روایتی و حاوی فکر کی حمایت میں مقدس حوالے دو، مغربی تہذیب و فکر کی مخالفت میں فقرے بازی کرتے ہوئے سوتیانہ جملے کسو تو کیا کہنے سبحان ﷲ۔ ’’آئین نو سے ڈرنا اور طرزِ کہن پہ اڑنا‘‘ بس یہی مضبوطی ایماں کی دلیل ہے۔ ظاہری یا نمائشی طور پر جدیدیت کے تڑکوں کی ڈرامے بازی ضرور کی جاتی ہے لیکن جب معاملہ اصلیت تک پہنچتا ہے تو پھر روایتی قدامت پسندی لڑنے مرنے کی دھمکیوں تک پہنچ جاتی ہے۔درویش کے پیشِ نظر ایک سو ایک مسائل ہیں اور ہر مسئلہ ایسا ہے جس پر روایت پرستی کا دم نکلے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر متنازع مسئلے پر کھلے بندوں مباحثہ ہونے دیں، اس کی مبادیات تک پہنچا جائے، تقدس کے ہالے توڑے جائیں، عقل و شعور کی کسوٹی پر پرکھتے ہوئے معاشرے کے تمام طبقات کا یہ حق مان لیا جائے کہ کوئی بھی چیز، مسئلہ یا نظریہ انسانیت سے زیادہ مقدس نہیں ہے۔ ہم ہر اُس سوچ یا فکر پر تین حروف بھیجتے ہیں جو انسانیت یا وسیع تر انسانی مفاد کے خلاف ہے اور ہر ایسی چیز کو سینے سے لگائیں گے، حرزِ جاں بنائیں گے جو انسانی مفاد میں ہوگی یا انسانیت کی بھلائی میں جائے گی۔ دیگر کتابی باتوں کو کارنر کر دیا جائے لیکن کیا اس لاجیکل ماڈریٹ انسانی سوچ کو اپنے روایتی معاشرے کے ناخداؤں سے منوایا جا سکتا ہے، چلیں وہ نہ مانیں اپنے تئیں قدامت پرستی کے تقدس پر جھومتے رہیں مگر کیا اتنی گنجائش دے سکتے ہیں کہ دوسروں پر اپنا دقیا نوسی جامد نظریہ حیات مسلط کرنے سے باز رہیں۔ انہیں گستاخ قرار دیتے ہوئے بنیادی انسانی حقِ زندگی سے محروم نہ کریں۔

یہ زندگی تو کائنات کی سب سے خوبصورت انمول نعمت ہے جو پروردگارِ عالم نے اپنے خوبصورت ترین شاہکار انسان کو بخشی ہے۔ یہ کسی مولوی صاحب یا پیر صاحب کا احسان نہیں ہے، فطرت کی ودیعیت کردہ عظمت و ارمغان ہے جس کی یہ عنایت ہے اُسے واپس لینے کا اختیار بھی اُسی کے پاس ہونا چاہئے، سوائے اس کے کہ کوئی انسانیت کے خلاف گھناؤنے جرم کا مرتکب ہو بصورتِ دیگر اگر کوئی خدائی یا ماورائی احکامات کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اُس کا معاملہ خدا پر ہی چھوڑا جانا چاہئے۔ وہی اُس کی قسمت کا بہتر فیصلہ کرے گا جس کے لیے اُس نے فیصلے کا دن مقرر کر رکھا ہے۔ وہ قادر و عادل ہے، اُس نے دوزخ کاہے کو بنا رکھی ہے، وہ اپنے مجرموں کو پکڑنے کی پوری تاب و طاقت رکھتا ہے۔ آپ کون ہوتے ہیں اُس کے نام پر اُس کے اختیارات اپنے ہاتھوں میں لینے والے؟۔ آپ کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ دوسروں کو ہراساں کریں یا ان کی زندگیوں سے کھیلیں؟ ہر انسان کی اپنی ایک دنیا، اپنی کائنات ہے۔ اُس کے ماں باپ، بہن، بھائی اور بیوی بچے ہوتے ہیں جن کی آنکھوں کا وہ نور ہے، آپ کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ آپ کسی بھی انسان کی آنکھوں کا نور چھین لیں یا ایسی بات کہیں جس سے شہ پا کر کوئی جاہلِ مطلق دوسرے انسان کی زندگی اجیرن بنا دے یا چھین ہی لے۔

درویش نے ساری زندگی قال اللہ و قال الرسولؐ کا درس دیتے ہوئے گزاری ہے۔ کتاب و سنہ اور اسلامی فقہ و تاریخ میں مغز ماری کرتے دن رات ایک کیے رکھے ہیں مگر آج مذہب کے حوالے سے کوئی فقرہ تحریر کرتا ہے تو ہدایت کی جاتی ہے اس حوالے سے کوئی لفظ مت لکھیے گا، کہ لوگ ناراض ہو جائیں گے۔ بندہ حیرت زدہ ہو جاتا ہے کہ آخر وہ کون سے لوگ ہیں جن کی طبع نازک پر پھولوں جیسا فقرہ بھی گراں گزرتا ہے۔ درویش تو خود ساری زندگی بڑا مولوی رہا ہے اور اب بالآخر ریٹائرمنٹ لی ہے تو اس کی وجوہ بیان کرنے کا حق بھی رکھتا ہے۔ اقبال نے تو محض یہ کہا تھا کہ ’’تنگ آکے آخر میں نے دیر و حرم کو چھوڑا، واعظ کا وعظ چھوڑا چھوڑے ترے فسانے‘‘۔ حضرتِ میر تو اس سے بھی آگے چلے گئے اور صاف فرما دیا کہ میر کے دین و مذہب کا پوچھتے کیا ہو، اُن نے تو قشفہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا۔ اگر حضرت میر آج ہوتے تو یقیناً کوئی راسخ العقیدہ فدائی اُن پر ارتداد کا الزام دھرتا اور بخشش شاید غالب جیسی عظمت کی بھی نہ ہو پاتی جنہوں نے کیا کیا نہ سنائی ہیں اور کئی سچائیاں واضح کی ہیں۔ محض ایک شعر کی معنویت پر غور فرما لیا جائے ’’ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن، دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے‘‘۔ کئی احباب کہہ سکتے ہیں کہ عصرِ حاضر میں فیض و فراز کو بھی ایسی جسارتیں نہیں کرنا چاہئے تھیں ’’اک فرصتِ گناہ ملی وہ بھی چار دن ؍دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے‘‘ ۔فراز کا شعر کوٹ کرنے کی درویش میں جسارت نہیں ہے۔

تازہ ترین