• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
واقعی کچھ لوگوں کو عزت راس نہیں آتی۔میں نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ ڈاکٹر قدیر خان کا احترام کروں مگر انہوں نے ہمیشہ ایسی کوئی نہ کوئی بات ضرور کہی کہ دل پھراس وسوسے میں پڑ جانے لگتا ہے کہ کہیں ان کے متعلق ڈاکٹر مبارک ثمر مند نے ٹھیک ہی تو نہیں کہا تھاکہ ایٹم بم بنانے میں ڈاکٹر قدیر خان کے کردارکی کوئی اہمیت نہیں ۔سابق صدر پرویز مشرف کے بھی ان کے بارے میں اچھے خیالات نہیں تھے اور بھی بہت سے احباب بہت سی باتیں کرتے ہیں مگر قحط الرجال کی ماری ہوئی پاکستانی قوم کیلئے یہ ہیرو بھی غنیمت ہے ۔
ڈاکٹر قدیر خان نے ایک کالم لکھا تھا ”آئے بھی وہ گئے بھی وہ “اس کالم میں انہوں نے کچھ ایسے ڈائیلاگ بھی ڈاکٹر طاہر القادری کے متعلق لکھے تھے جو انہیں زیب نہیں دیتے تھے۔انہوں نے ڈاکٹر طاہرالقادری کوہٹلر ، مسولینی ،جمال الناصر،قذافی،یاسر عرفات اور صدام حسین سے بھی تشبیہ دی تھی ۔مجھے اس تشبیہ کی اتنی تکلیف نہیں ہوئی تھی جنتی تکلیف اس بات کی ہوئی کہ ڈاکٹر قدیر خان نے جمال الناصر، قذافی،یاسر عرفات اور صدام حسین کو ہٹلر اور مسولینی کے ساتھ جا ملایا ۔بہر حال وہ جو بھی ڈاکٹر طاہر القادری کے خلاف لکھ سکتے تھے انہوں نے لکھا حتی کہ انہوں نے ڈاکٹر طاہر القادری کو ریاکار بھی قراردے دیا ۔پتہ نہیں ڈاکٹر قدیر خان کو ڈاکٹر طاہر القادری کی کونسی ایسی ریا کاری دکھائی دی ہے ۔جو انہیں نواز شریف اور شہباز شریف میں نہیں دکھائی دیتی ۔میں مسلسل یہی سوچے جا رہا ہوں کہ ڈاکٹر قدیر خان نے ڈاکٹر طاہر القادری پر یہ الزام کیوں لگایا ۔ڈاکٹر طاہر القادری نے جو پروگرام پیش کیاہے اس سے تو کسی کو بھی انکار نہیں ہو سکتا۔کون کہہ سکتا ہے کہ چوروں، لٹیروں کو الیکشن لڑنے کی آزادی ہو ۔جھوٹ بولنے والے اور دھوکہ دینے والے کے کون حق ہو سکتا ہے اور یہی کچھ ڈاکٹر طاہر القادری کہہ رہے ہیں ۔کوئی ان کے طریقہ کار سے اتفاق کرے یا نہ کرے مگر وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اسے تو کوئی صحیح الدماغ پاکستانی غلط کہہ ہی نہیں سکتااور نہ ہی کسی نے کہنے کی کوشش کی ہے ۔ڈاکٹر قدیر خان اپنے اس کالم میں ڈاکٹر طاہر القادری کی وجہ سے دہری شہریت والوں پر بھی خاصے برسے ،انہوں نے لکھا کہ ”دہری شہریت صرف آسانی سے آنے جانے ،رہنے اور جائیداد وغیرہ خریدنے کی اجازت تک محدود ہے “یعنی ڈاکٹر قدیر خان دہری شہریت والوں کے ووٹ کو بھی تسلیم نہیں کرتے۔
گذشتہ روز ڈاکٹر قدیر خان نے پھر ایک کالم لکھا ہے جس کا عنوان تھا ”بس ہوچکی نماز مصلی اٹھائیے“اس کالم میں وہ تحریر فرماتے ہیں۔کہاوت ہے گیڈر کی جب موت آتی ہے تووہ شہر کی جانب بھاگتا ہے یہی حال ڈاکٹر طاہر القادری کا ہے “گیڈر کون ہے ۔یہ بات تو دنیا جانتی ہے ۔سابق صدر پرویز مشرف کے سامنے افتخار محمد چوہدری نے گیڈر بننے سے انکار کردیا تھاتو پوری قوم نے ان کا ساتھ دیاتھا۔ کاش اس وقت ڈاکٹر قدیر خان بھی ہمت کرتے اور پھر دیکھتے کہ لوگ ان کا کیسے ساتھ دیتے ہیں مگر افسوس انہوں نے سابق صدر پرویز مشرف کے کہنے پر وہ کاغذ ٹیلی ویژن پر آکر پڑھ دیاجو کسی بھی ہیرو کو زیرو بنا سکتا تھا۔
مجھے یاد آرہا ہے دوہزار آٹھ میں جب میں نے کچھ عرصہ کیلئے بنی گالہ میں قیام کیاتھاتو وہاں کی اکلوتی مسجدعمر فاروق میں ایک بار جمعہ کی نماز پڑھنے گیانماز کے بعد امام صاحب نے جو دعا منگوائی اس دعا کا زیادہ حصہ طالبان کیلئے تھا۔یہ بات میرے لئے عجیب تھی میں نے اپنے ایک ہمسائے سے کہاکہ” تم لوگوں نے یہ کیسا دہشت گرد مولوی رکھا ہوا ہے۔مجھے شک ہے کہ اس نے طالبان کو پناہ بھی دی ہوئی ہوگی“ تو اس نے کہا ”یہ مسجد ڈاکٹر قدیر خان نے بنوائی تھی یہ مولوی صاحب بھی انہی کے چہیتے ہیں ۔انہیں کوئی بدل نہیں سکتا یہ ڈاکٹر قدیر خان کی مرضی سے طالبان کے حق میں دعا منگواتے ہیں ۔“میں بے یقینی سے بولاکہ ”وہ تو خود نظر بند ہیں “میرا ہمسایہ ہنس کر کہنے لگا ”اس کے باوجود بھی وہ ڈاکٹر قدیر خان ہیں ۔ یقینا ڈاکٹر قدیر خان کو ڈاکٹر طاہر القادری اس لئے بھی برے لگتے ہونگے کہ وہ طالبان کے حق میں نہیں بلکہ انہوں نے دہشت گردی کیخلاف بہت بھرپور اور منظم کام کیا۔یقینا بروز محشر اللہ تعالی انہیں اس عظیم کارخیر کا اجر عطا فرمائیں گے۔کیونکہ انسانی تاریخ میں اسلام کے نام پر اس سے برا داغ اور کوئی نہیں لگایا گیاجس میں اسلام کے نام پربے قصوروں اور بے گناہوں کا قتل عام کیا گیا۔
ڈاکٹر قدیر خان نے اپنے کالم میں پیپلز پارٹی پربھی بھرپور تنقید کی اور دبے لفظوں میں نون لیگ کیلئے کلمہ ء خیربھی کہا کہ نون لیگ نے ڈاکٹر طاہر القادری کو گھاس نہیں ڈالی۔ لگتا ہے نون لیگ سے ابھی تک ڈاکٹر قدیر خان پوری طرح مایوس نہیں ہوئے ۔حالانکہ نون لیگ نے ڈاکٹر قدیر خان کو جس طرح اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا اور پھر انہیں طاق میں رکھ کر بھول گئی وہ بات ڈاکٹر قدیر خان کیلئے قابل برداشت نہیں سمجھی جارہی تھی۔ اتنی زیادتی تو سابق صدر پرویز مشرف نے بھی ان کے ساتھ نہیں کی تھی۔ممکن ہے پھرکسی نون لیگ یئے نے کہہ دیا ہو کہ اب اگر نون لیگ کی حکومت آئی تو ہم آپ کو ضرور پاکستان کا صدر بنائیں گے ۔ویسے پچھلے دنوں ڈاکٹر قدیر خان نے اپنی ایک پارٹی بنانے کا ارادہ کیا تھالیکن کچھ دوستوں نے اس امید پر اس پارٹی کو ایک غیر سیاسی پارٹی میں بدلوا دیا کہ آپ سیاست میں نہ آئیں ہم آپ کودوسال کے لئے نگران وزیر اعظم بنوادیں گے ۔
تازہ ترین