• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صحافت باغ میں آزاد بھی ہے پا بہ گِل بھی

اقبالؒ آج ہوتے تو صحافت کو نکیل ڈالنے کی ناکام کوشش پر اپنا مشہور شعر یوں کہتے؎

’’صحافت‘‘ باغ میں آزاد بھی ہے پابہ گِل بھی

انہی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کرے

شاعرِمشرق کی رائے کے مطابق آج پاکستان میں صحافت نے صنوبر کی طرح خود کو دستور کا پابند بھی رکھا ہوا ہے اور آزاد بھی، وہ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ نہیں مانتی اور اگر اسے یا صحافی کو زنجیروں میں جکڑا بھی جائے تو وہ ایک جست لگا کر انہیں توڑ سکتی ہے۔ میڈیا سروِ آزاد چمن ہے باغبان کیسے اسے اکھاڑ سکتا ہے، اس کا کام تو بھر بھر مشکیں ڈالنا ہے تاکہ اس کی شادابی ماند نہ پڑے، اس کی بہار پر خزاں نہ آئے، بھلا باغبان، صیاد کیسے ہو سکتا ہے، ضرور باغبان کے کان چند صیادوں نے بھرے ہوں گے، میڈیا میر شکیل الرحمٰن کو پا بہ جولاں کرنے سے اپنا حق سچ کے اظہار کا چلن نہیں چھوڑے گا، کیا جمہوریت، آمریت سے بھی آگے نکل گئی ہے کہ جو کام کسی آمر نے نہیں کیا وہ ایک جمہوری منتخب وزیراعظم نے کر ڈالا، جنگ جیو گروپ ملک کا سب سے بڑا میڈیا ہائوس ہے جس کی گہرائی اور وسعت سے حکومت واقف ہے، میڈیا صرف جنگ جیو نہیں اب اس کی وسعت کافی پھیل چکی ہے، تمام چینلز اور اخبارات اس اقدام پر خاموش نہیں رہیں گے، میر خلیل الرحمٰن نے جو پودا لگایا وہ میر شکیل الرحمٰن نے پروان چڑھایا، میرِ صحافت کو زندان میں ڈالنا درحقیقت پورے میڈیا کو زندانی بنانے کے مترادف ہے، صحافت وہ نہیں کہ سچ کو چھپائے تو منظورِ نظر کہلائے، اظہار کی آزادی ہر انسان کا بنیادی حق ہے، اگر وزیراعظم ’’جنگ، جیو‘‘ کی تلخ مگر سچی خبروں کو رہنما سمجھیں تو وہ جم کر اپنا ریاست ِمدینہ کا خواب پورا کر سکتے ہیں، میر شکیل الرحمٰن کو یوں پیشی پر گرفتار کرنے کے بجائے انہیں اعتماد میں لے کر اپنے منشور کی تکمیل کے لئے دست و بازو بناتے تو آج نتائج کچھ اور ہوتے، ہمارا مطالبہ ہے کہ انہیں فوری رہا کیا جائے، امتیازی سلوک روا نہ رکھا جائے ویسے میڈیا اپنی آزادی خود حاصل کرنا بھی جانتا ہے۔

٭٭٭٭

آزادی کا مطلب آزادی

مادر پدر آزادی کی کبھی میڈیا نے تائید کی ہے اور نہ تشہیر، مگر جسے آزادی کہتے ہیں وہ اظہار کی وہ آزادی ہے جس کے نتیجے میں پاکستان وجود میں آیا، کسی بھی ریاست کی عدلیہ اس کی آزادی کی ضامن ہوتی ہے، اور اسے چھیننے نہیں دیتی، آج جس طرح ملک کے سب سے بڑے میڈیا ہائوس کو بند کر دیا گیا ہے، یا اُسے پیچھے دھکیلا جا رہا ہے، اس پر ورلڈ میڈیا خاموش نہیں، تاہم سپریم کورٹ آف پاکستان جنگ جیو کی بندش اور اس کے ایڈیٹر انچیف کی بے جا غیر قانونی گرفتاری پر سوموٹو لے، ہمیں امید ہے چیف جسٹس اس تجاوز کا نوٹس لیں گے اور حق آگہی آرٹیکل 19پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں گے، ملک کے سب سے بڑے میڈیا ہائوس پر تالے ڈالنے سے ہزاروں خاندانوں کے چولہے بجھ جائیں گے، پہلے ہی میڈیا کو مالی لحاظ سے اس قدر نحیف و کمزور کر دیا گیا کہ وہ اپنے اسٹاف کو باقاعدہ تنخواہ دینے کی استطاعت سے محروم ہو چکے ہیں، میڈیا حکومت کو حکومت اور اپوزیشن کو اپوزیشن سمجھتا ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو حکومت کب کی رخصت ہو چکی ہوتی، میڈیا جو دیکھتا ہے بیان کرتا ہے، آج پاکستان میں آگہی کا جو فعال کردار میڈیا انجام دے رہا ہے وہ محکمہ تعلیم بھی 72برسوں میں نہیں کر سکا۔ میڈیا، حزب اقتدار و اختلاف کی سوچ کو زبان دیتا ہے، ورنہ گونگی بہری حکومت اور اپوزیشن کے پاس سوچنے سمجھنے کو کچھ نہ ہوتا، وزیراعظم کشادہ دلی سے کام لیں اپنے مشیروں کی باتوں پر نہ جائیں ان کے اپنے مقاصد ہو سکتے ہیں۔ جیسے اپنی تعریف و تحسین یا حوصلہ افزائی کو قبول کرتے ہیں تنقید کو بھی وفادار دوست کی بروقت اطلاع سمجھیں، کنٹینر کی باتیں بہت پیچھے رہ گئی ہیں، اب ان کے سامنے عمل کا میدان ہے، عقل و دانش کا گھوڑا میڈیا کو براہِ راست اپنے تک رسائی دیں پھر دیکھیں کہ ایک حقیقی تبدیلی کس تیزی سے رونما ہوتی ہے، اگر نادان دوستوں کی ہی سنتے رہے تو ان کا شوگر کوٹڈ زہر حکومت کی رگ و پے میں سرایت کر جائے گا۔

٭٭٭٭

قدرتی اور ذاتی آفات

کورونا وائرس تو ایک قدرتی آفت ہے جو ہمارے بس میں نہیں، مگر جو آفت ہم خود اپنے اوپر نازل کرتے ہیں اس کا تو علاج ہمارے پاس ہے کیوں اوکھلی میں سر دیتے ہیں کیوں آ بیل مجھے مار کا مصداق بنتے ہیں۔ پوری دنیا کورونا کے باعث بند پڑی ہے اور ہم چلے ہیں میڈیا کو بند کرنے، ذرا سوچئے اور سمجھئے کہ آپ سے کیا نادانی سرزد کرائی جا رہی ہے، کورونا وائرس سے بھی زیادہ نقصان دہ مصائب ہوتے ہیں جن کے موجد ہم خود ہوتے ہیں، ذاتی عناد یا اس کا شکار بنانے والوں کا شکار ہونا بدترین فعل ہے، جس کا انجام جانکاہ پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں، کورونا وائرس پر ایک شعر ہے؎

چلی ہے رسم جہاں جہاندارو!

کوئی نہ ہاتھ سے ہاتھ ملا کے چلے

بہرحال ہم نے کوشش کی ہے کہ حکومت کی میڈیا سے دشمنی اپنی ہی زبان کاٹنے کے مترادف ہے، غالب نے کہا تھا؎

متقابل ہے مقابل میرا

رُک گیا دیکھ روانی میری

وزیراعظم پاکستان کے اور بھی کئی دکھ ہیں حکومت کے سوا اس لئے میڈیا کو اپنا مونس و غمخوار بنائے، بدگمانوں کی بدگمانی پر کان دھرنے کے بجائے میڈیا کی روانی جو صحیح سمت جاری رہنے دیں ورنہ پانی نے تو نشیب کی طرف جانا ہی ہے۔

٭٭٭٭

یہ کیسا دستور زباں بندی ہے؟

....Oخبر ہے تعلیمی ادارے بند مغربی سرحدیں بند

اس کا مطلب ہے جو بھی بند کرے وہ کورونا وائرس ہے۔

....Oملیحہ لودھی:میرشکیل الرحمٰن کی گرفتاری میڈیا پر حملہ ہے۔

میر خاندان نے آزادیٔ صحافت اور وسعت صحافت کے لئے ناقابل فراموش کارنامے سرانجام دیے، یہ حملہ بھی خود پر حملہ ثابت ہو گا۔

....O بزدار سے ملاقات کرنے والے 6لیگی اراکین اسمبلی کو شوکاز نوٹس جاری، رکنیت معطل،

دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی

....Oمیر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کے خلاف جنگ، دی نیوز اور جیو ملازمین کا مظاہرہ میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری ہر صحافی کی گرفتاری ہے، بس اپنی اپنی باری ہے، ہم توقع کرتے ہیں کہ آزادیٔ صحافت کے لئے ہر چینل اور اخبار کے ملازمین باہر نکلیں گے۔ آزادیٔ صحافت کبھی کسی نے پلیٹ میں رکھ کر پیش نہیں کی، یہ چھین کر لینا پڑتی ہے، ماضی کا ریکارڈ یہی ہے، آزادیٔ صحافت بھیک نہیں حق ہے، صحافی آزادیٔ اظہار لے گا اس کی بھیک نہیں مانگے گا۔

تازہ ترین