• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدیوں کا درد جھیلتے طویل دنوں اور ہجر کاتتی کالی راتوں نے صبحِ بہار کے انتظار میں کشت کاٹتے دل کی بے چینی دیکھی تو جھولیاں بھر بھر دعائیں کیں۔ بہار کا قافلہ دو قدم پر تھا۔ دل تتلی کی امنگ اوڑھے، اٹھکیلیاں کرنے، جھومنے اور مست ہواؤں کو جھولا بنانے کی تیاری میں مست میر تقی میرؔ کا شعر گنگنا رہا تھا

کچھ فکر کرو اس دیوانے کی

دھوم ہے پھر بہار آنے کی

دل کی وارفتگی دیکھ کر فکر کرنے والے زیادہ متحرک ہوگئے۔ بہار کا رستہ روکنا تو ممکن نہ تھا، دل کی اڑان والی خواہش کو گردن سے پکڑ لیا۔ سانس کو خوشبو سے راہ و رسم بڑھانے کے بجائے حد میں رہنے کی تاکید ہوئی۔ اچھلتے، کودتے وجود کو بے رحم صیاد نے خوف کا ماسک پہنا کر ذات کی جیل میں سکڑ کر بیٹھ رہنے پر مجبور کر دیا۔ حکم ہوا، تازہ ہوا سے فاصلہ رکھو، اپنی ہی سانس کے چکر میں الجھے رہو۔ ٹڈی دل، بےوقت بارشیں اور دیگر بحران بھی کم نہ تھے مگر خوف کا بحران زیادہ شدید ثابت ہوا۔ فکر تک محصور کر لی گئی۔ اندیشوں کی سولی تھامے کھڑے وقت نے نئی نئی خبروں کی اذیتوں سے روشناس کرکے حیات کے رنگ چھینے اور کہا جیون اسی کا نام ہے۔ ضابطے میں رہو اور ناک کی سیدھ چلو۔ کوئی اپنا نہیں، سب غیر اور نامحرم ہیں۔ ہاتھ کو ہاتھ کے لمس کے شر سے محفوظ رکھو۔ ہنسنا اور کھلکھلا کر ہنسنا مہلک ہو سکتا ہے، مگر رونے اور دل میں آہ وزاری کرنے پر پابندی نہیں۔ یہ سارے حکم نامے تب رقم ہوئے جب ذات کوئی بھی ضابطہ ماننے کو تیار نہیں ہوتی۔ مارچ میں رنگوں کی برسات، پرندوں کے گیت، زمین کی گود سے جنم لینے والی نئی حیات کی خوشبو اور ماحول کی تازگی سے فطرت خوبصورت دھنک رنگ میلا لگا کر سب کو شرکت کی دعوت دیتی ہے۔ صاحبِ بصیرت لوگ اس کے ساتھ اپنے کچھ میلے بھی شامل کرکے اس خوبصورتی کو مزید بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ثقافتی اور تعلیمی ادارے سال بھر کی تھکن اتارنے کی کاوش میں مباحثے، موسیقی، مشاعرے اور مکالمے کے ذریعے دانش کے نئے جہان تلاشنے کے لئے ادبی اور ثقافتی محفلیں سجاتے ہیں۔ ایسی ہی ایک محفل سرگودھا یونیورسٹی کے ادبی میلے کا حصہ تھی جس میں پروفیسر منیر گجر نے پنجاب میں عورت کی آواز پر عورتوں اور مردوں سے کیا جاندار مکالمہ کیا۔ طلبہ نے بھی خوب سوال کیے مگر کیا ہمارے معاشرے میں حقوق اور استحصال کا سامنا صرف عورت کو ہے؟ صاحبِ دانش مرد کی سوچ آزاد ہے۔ اس سوال کا جواب ڈاکٹر شاہد صدیقی کی کتاب ’’زیرِ آسماں‘‘ میں موجود ہے۔ جس کی تقریب پذیرائی پنجاب یونیورسٹی کے الرازی ہال کا فخر بن گئی۔ اس منفرد اور مزین کتاب میں پنجاب کے ان سورمائوں کا تذکرہ ہے جو آزاد معاشرے کی چاہت میں استحصالی قوتوں کے سامنے ڈٹ گئے۔ انہوں نے جبر جھیلا مگر سرِ تسلیم خم نہ کیا۔ تبھی تو تاریخ نے انہیں مرنے سے بچا لیا۔ اسلامیہ کالج قصور میں سخن شناسوں کا میلا بھی عجیب تھا، لطیف اشعر کی کاوش سے سخن وران قصور کی محبت میں کھنچے چلے آئے تھے۔ قصور کے عالمی شہرت یافتہ شاعروں کا کلام اور احوال خوب ہے، پہلی بار علم ہوا شاعری میں کوئی خطا نہ کرنے والے شفیق سلیمی بھی قصوری ہیں، مطلب قصور سے ہیں، ان کے شعر دیکھئے؎

عدّو کے وار پر پہرا نہیں ہے

کسی تلوار پر پہرا نہیں ہے

سماعت اور بہری ہو گئی ہے

لبِ اظہار پر پہرا نہیں ہے

کہانی کار تھک کر سو گیا ہے

کسی کردار پر پہرا نہیں ہے

گورنر ہاؤس تقریبِ پذیرائی کا مرکز بن چکا ہے، چلیں! اتنا بھی بہت ہے۔ گورنر صاحب کی موجودگی میں سب کو انتہائی مختصر بولنا پڑتا ہے۔ انتہائی مصروف ہونے کے باوجود تمام مقررین کے وقت جتنی تقریر کرکے چوہدری سرور میلا اپنے نام کر لیتے ہیں۔ عارف نوناری کے کالموں کی کتاب ’گھر کا بھیدی‘ پر بات چیت میں بہت بھید کھلے اور ان لوگوں کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا جو ابھی تک سچ لکھ رہے ہیں۔ پنجاب کو کلچر ڈے کی اجازت مل گئی اور حکومتی سطح پر تسلیم بھی کر لیا گیا۔ اگرچہ فضا وبا کی قید میں ہے خوشبو کو دل تک رسائی کی اجازت نہیں مگر خوف کا ماسک پہنے تعفن کا شکار وجود کے مزار کو غسل دینے کی عام چھوٹ ہے۔ مزاروں کا تقدس اور حرمت بحال ہے، اس لئے بہت سے جیتے جی مزار بنے پھرتے ہیں۔ کبھی غور کریں زمین کتنی طاقتور ہے، منافقت نہیں کرتی۔ ہمیشہ سچ اگلتی ہے۔ کہیں پھولوں اور کہیں کانٹوں کی صورت۔ اسے کوئی خوف نہیں۔ کتنی بار مسمار ہوئی۔ طاقتورں نے نفرتوں کے بارود سے اسے بنجر کرنے کی سعی کی، اس کی سبز گود لہو سے بھری رہی مگر یہ مایوس نہ ہوئی، بارش سے زخم دھو کر دھوپ کا مرہم رکھا اور زہر کو امرت کرکے جیون رنگ جنم دیے۔ کچھ لوگ بھی دھرتی کا مزاج رکھتے ہیں۔ مضبوط، اٹل اور بےخوف۔ ہمیشہ سچ کی وکالت کرتے ہوئے فکر کو پھانسی لگنے سے بچا لیتے ہیں۔ وہی یاد رکھے جاتے ہیں انہی کا نقشِ قدم نئے رستے بناتا ہوا منزل کی خبر دیتا ہے۔ وہ خود بھی بہار جیسے ہوتے ہیں۔ انہیں سوچیں تو فکر میں پھول کھلنے لگتے ہیں۔ کبھی کبھی بہار کا موسم احتساب کا موسم بنا دیا جاتا ہے، پروانے کو شمع اور دیوانے کو بہار سے دور کرنے کے لئے محصور کر دینا ظلم کی اذیت ناک شکل ہے۔ اس طرح شاید ان کی زندگی سلامت رہتی ہے مگر روح مسمار ہو جاتی ہے، جذبے کچلے جاتے ہیں، آرزوئیں مر جاتی ہیں۔ وقت نے کئی بار اس فرعون نما وبا کا چہرہ دیکھا ہے جو فطرت اور انسان کے درمیان دیوار بن کر نظام کو تہس نہس کر دیتی ہے۔ یوں تو مشکلات اور آزمائشیں زندگی کا حصہ ہیں مگر بہار کے موسم میں جبر برداشت کرنا زیادہ اذیت ناک ہوتا ہے، فیضؔ کو بھی کئی حساب چکانا پڑے۔ تبھی تو کہنا پڑا

بہار آئی تو کھل گئے ہیں

نئے سرے سے حساب سارے

تازہ ترین