• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صد حیف ریاست مدینہ کے باسیوں نے امسال ایک لاکھ 50ہزار حج درخواستیں جمع کروائیں۔ نام نہاد ریاست مدینہ کی سکہ بند ‫بدانتظامی اور نااہلی کا اور کیا ثبوت ہوگا کہ یہ گزشتہ سالوں میں درخواست دہندگان کی تعداد کا نصف ہے۔ آئی کام سال اول کا طالبعلم بھی جانتا ہے کہ شرح سود بڑھے تو مہنگائی بڑھتی ہے، اگر شرح سود کم ہو تو مہنگائی کم ہوتی ہے لیکن ملکی معیشت کے ناخدا اور نومولود وفاقی وزیر حماد اظہر اکنامکس میں اتنے ماہر ہیں کہ میڈیا سے بات کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مہنگائی کم ہو رہی ہے، اس کے نتیجے میں شرح سود بھی کم ہو گی۔ انہی کی زبان وزیراعظم صاحب بھی بول گئے کہ ایسا ہی ہوگا۔ بین الاقوامی سطح پر تیل کی قیمت ریکارڈ حد تک گر چکی ہے لیکن ریاست مدینہ کی بات ہی نرالی ہے، یہاں ڈالر چھ مہینے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے جس کی وجہ سے ایک بار پھر بیرونی قرضوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اب کی بار مزید تین سو پینتالیس ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ عوام سے تین سو پینسٹھ وعدے کرکے سات سو تیس یوٹرین لینے والے سربراہ نے ایک نئی ٹرک کی بتی روشن کی ہے کہ بلوچستان سمیت ملک کے ذخائر سے ملکی قرضے اتارے جائیں گے۔ جس طرح ادویات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کرکے اربوں روپے کمانے والے مافیا کو نہیں پکڑا گیا، بالکل اسی طرح اب آٹا اور چینی کے بحران کے حوالے سے ایف آئی اے رپورٹ محض ڈنگ ٹپانے کے مترادف ہے۔ تحقیقاتی رپورٹ کے اعلان میں تاخیری حربے استعمال کرتے ہوئے تاریخ پر تاریخ دینے کا مطلب یہی ہے کہ عوام ماضی کی طرح آٹا اور چینی چوروں کو بھول جائیں۔ یہ بات تو براہِ راست قومی اسمبلی میں پہنچ چکی ہے کہ چینی بحران کے بانی سے بغیر ٹینڈر چینی خریدنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ حکومت اپنے تابوت میں آخری کیل ٹھونک رہی ہے کیونکہ جیسے ہی بلدیاتی انتخابات ہوں گے پی ٹی آئی کا دھڑن تختہ ہو جائے گا، اسی اندیشہ کے تحت چوہدری محمد سرور ایک تقریب میں بڑی پریشانی سے خطاب کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ عوام ہمیں بھی ایک موقع اور دیں تاکہ ہم ان کی خدمت کر سکیں۔ جناب! عوام کا تیل نکل چکا، اب بس کریں۔

معلوم نہیں کون وزیراعظم کو تقریر کے نکات لکھ کر دیتا ہے کہ ہر بات آنچ زدہ ثابت ہو جاتی ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر کی معیشتیں دیوالیہ ہونے کو ہیں، اربوں ڈالرکا نقصان ہوچکا، اسٹاک مارکیٹیں بیٹھ چکی ہیں، برآمدات بند ہو گئی ہیں جبکہ وزیراعظم شغل فرماتے ہوئے یوں گویا ہیں کہ بگل بجائو، تیار ہو جائو موجودہ سال خوشحالی ہی خوشحالی ہوگی، شہد کی نہریں بہیں گی۔ عوام خوفزدہ ہوتے چلے جا رہے ہیں کہ وزیراعظم جب بھی کوئی سہانا خواب دکھاتے ہیں، ہوتا اس کا الٹ ہی ہے۔ اب خدا خیر کرے۔ تخت پر بیٹھے ڈیڑھ سال گزرنے کے بعد موصوف پر اچانک وارد ہوا کہ بجلی کی قیمتیں عوام کی برداشت سے باہر ہو چکی ہیں لہٰذا قیمتیں مزید نہیں بڑھائی جائیں گی، عوام خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا۔

کورونا وائرس کے شکنجے میں جکڑی دنیا میں لاک ڈائون کی سی صورتحال ہے، برآمدات سمیت دیگر انڈسٹریاں تباہی کی جانب گامزن ہیں۔ ہماری صورتحال یہ ہے کہ دو سو ماہرین معیشت پر مشتمل قابل ترین حکومت کو اس معاملہ میں مزید کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا کیونکہ برآمدات تو پہلے ہی حکومت ٹھپ کر چکی ہے۔ سرکلر ڈیٹ دو ہزار ارب روپے اور بیرونی قرضہ ایک سو گیارہ ارب کی حد پار کر چکا ہے۔ نیپرا نے پاور ایمرجنسی لگانے کا مشورہ دیا ہے یعنی بحرانِ اعظم سر پر ہے لیکن کسی کو پروا ہی نہیں۔ گردشی قرضہ انیس سو ارب تک پہنچا دیا گیا ہے۔ تاریخ میں پہلی بار ایسی حکومت آئی ہے جس کے دور میں لوڈشیڈنگ اس وجہ سے ہوگی کہ اس کے پاس بجلی کمپنیوں کو ادائیگیوں کیلئے پیسے نہیں ہوں گے۔ سب سے بڑے اردو اخبار کے مالک سے کئی دہائیاں قبل ہونے والی جائیداد کے انتقال کے ثبوت طلب کرنے کا مطلب یہی سمجھا جارہا ہے کہ حکومتی ایما پر انہیں مخصوص سبق دیا جا رہا ہے کہ وہ حکومت پر ایمان لے آئیں ورنہ آپ خود بہت سمجھ دار ہیں۔ ڈکٹیشن نہ ماننے والے میڈیا ہائوسز کو ختم کرنے کے درپے آمرانہ حکومت لاڈلوں کے ذریعے خواہش رندانہ پر مبنی خبریں نشر کروا رہی ہے کہ شریف خاندان سیاستدان سے دستبردار ہو جائے گا لیکن وہ ابھی تک جان ہی نہیں پائے ہیں کہ انہیں کس کوہِ گراں کا سامنا ہے۔ سیاسی اننگز مکمل کر چکنے کے بعد سائیڈ لائن پر بیٹھے 74سالہ اعتزاز احسن نے ایک بار پھر وہی غلطی کی ہے جو وہ پہلے مرحومہ کلثوم نواز کی بیماری بارے کر چکے۔ انہیں صرف یہی کہا جاسکتا ہے سترا بہترا شخص اپنے بجھتے سیاسی دیے کو میاں نواز شریف کی لو سے روشن کرنا چاہتا ہے۔

تازہ ترین