• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

23دسمبر 1911کو وائسرائے ہند لارڈ ہارڈنگے کا قافلہ دلّی کے چاندنی چوک سے گزر رہا تھا کہ ان پر ایک دیسی بم سے حملہ کیا گیا- ہاتھی پر سوار ہارڈنگے زخمی ہوئے مگر ان کا مہاوت ہلاک ہو گیا- یہ واقعہ دہلی سازش کیس کے نام سے مشہور ہوا مگر مجرم رش بہاری بوس ہاتھ نہ آیا، جو چھپتا چھپاتا جاپان پہنچ گیا- یہ خبر امریکہ میں مقیم آریہ سماجی لالہ ہردیال تک پہنچی تو اس نے دیگر ہم خیال ہندوئوں اور سکھوں کو جمع کرکے وندے ماترم گا گا کر خوشی کا رقص کیا- پھر ایک مختصر خطاب میں ہردیال نے میر تقی میرؔ سے منسوب یہ شعر پڑھا

پگڑی اپنی سنبھالیے گا میرؔ

اور بستی نہیں یہ دلّی ہے

ہردیال 1884میں دہلی میں پیدا ہوا- گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے کے بعد آکسفورڈ چلا گیا مگر تعلیم ادھوری چھوڑ کر مختلف ممالک سے ہوتا ہوا امریکہ پہنچا جہاں ایک انسٹیٹیوٹ کی بنیاد ڈالی جو اس کے بقول دنیا کا پہلا انارکی کا پرچارک ادارہ تھا- آس نے لادینیت، انارکزم اور کمیونزم سے وابستگی کے تجربے کیے- اس کے پُرتشدد نظریات کی وجہ سے امریکی حکومت نے اسے گرفتار کیا مگر دورانِ ضمانت وہ فرار ہوکر جرمنی پہنچ گیا جہاں اس نے برطانیہ مخالف تشدد پسند غدر پارٹی بنائی جس میں لارڈ ہارڈنگے پر حملہ کرنے والا بوس بھی شامل ہوگیا- کچھ عرصے بعد آس نے تاجِ برطانیہ کی مخالفت چھوڑ دی اور لندن چلا گیا جہاں سے پی ایچ ڈی کرکے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں سنسکرت کا پروفیسر ہوگیا- اس نے مستقبل کے ہندوستان میں انگریزوں اور ہندوستانیوں کی مشترکہ حکومت کی تجویز پیش کی جس میں مسلمانوں کیلئے کوئی جگہ نہ تھی- وفات سے دو سال قبل 1925کے اوائل میں اس نے آریہ سماجی اردو روزنامہ ’تیج‘ میں ہندوئوں کو تمام مسلمانوں کو ختم کرنے کی تحریک دیتے ہوئے لکھا کہ ہندو اور مسلمان کبھی یکجا نہیں رہ سکتے-

پچانوے سال بعد فروری 2020میں دلّی کی سرحد سے بیس کلومیٹر دور اتر پردیش کے غازی آباد ضلع کی بستی دسہ میں دیوی مندر کے مہنت نرسنگھ آنند سرسوتی نے اسلام کو ہندوستان میں مکمل طور پر ختم کرنے کیلئے ہندوئوں سے اٹھ کھڑے ہونے کی اپیل کی- انجینئرنگ میں ماسٹرس ڈگری رکھنے والے سرسوتی کے ایک تازہ وڈیو بیان کے مطابق اسلام کو ختم کرکے ہی عالمِ انسانیت کو بچایا جا سکتا ہے- دلّی اسمبلی کے حالیہ انتخابات میں بی جے پی کی شکست کے بعد اس نے مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کو خط لکھا جس میں حال ہی میں بنائے گئے مسلم مخالف شہریت قانون کے خلاف شاہین باغ دلّی میں پُرامن مظاہرے پر بیٹھی مسلم خواتین کو ’جہادی‘ قرار دے کر انہیں کچلنے کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا۔ پھر میرٹھ میں ’دھرم سمواد‘ کے نام پر جلسے میں وفاقی وزیر گریراج سنگھ نے خطاب کرتے ہوئے ہندوئوں کو ’غزوہ ہند‘ کے خلاف لڑائی کیلئے تیار رہنے کی تلقین کی- اس دوران سنگھ نے ایک نیا نعرہ ’بھارت واسی تیرا میرا رشتہ کیا؟ جے شری رام جے شری رام‘ بھی لگایا-

اس کے ایک ہفتے بعد تلواروں اور بندوقوں سے لیس ہزاروں بلوائی جے شری رام کے نعرے لگاتے ہوئے دلّی میں نمودار ہوئے اور راہ چلتے اور گھر بیٹھے مسلمانوں پر حملہ آور ہو گئے- بیسیوں افراد کو تیز دھار والے ہتھیاروں اور گولیوں سے قتل کیا گیا جبکہ کئی کو تو پتھر مار کر یا زندہ جلا کر مارا گیا- زخمیوں نے پولیس اور ایمبولینس عملے سے مدد کی درخواست کی جو انہیں نہیں ملی بلکہ الٹا کئی زخمیوں کو پولیس نے مارپیٹ کر ہلاک کر دیا- اگر کوئی اسپتال پہنچنے میں کامیاب ہوا بھی تو اسے وہاں کے عملے نے دہشت گرد اور شدت پسند قرار دے کر دھتکار دیا- سینکڑوں مکانات اور کاروبار تباہ کر دیے گئے جن کا اب کوئی پرسانِ حال نہیں ہے- اس پر مستزاد یہ کہ اب مظلوموں کو ہی گرفتار کیا جا رہا ہے- ان تمام حالات میں دلّی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال کا کردار نہایت شرمناک رہا جو ایسے تماشا دیکھتے رہے جیسے وہ اس غارت گری میں دانستہ شریک ہوں- وزیراعظم مودی کی سیاسی مخالف اور مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بینرجی نے ان فسادات کو ایک ’منصوبہ بند نسل کشی‘ قرار دیا ہے-

دوسری جانب عدالت نے یکم فروری کو شاہین باغ میں جاری مسلم خواتین کے پُرامن احتجاج پر گولی چلانے والے کپل گجر کو ضمانت پر رہا کر دیا جس نے اس وقت ببانگ دہل کہا تھا کہ ملک میں وہی ہوگا جو ہندو چاہیں گے- دلّی سے اٹھنے والے خونخوار دھویں اور دھمکیوں کے باوجود شاہین باغ کی خواتین اب تک اپنے حقوق کیلئے ڈٹی ہوئی ہیں- ایک صدی سے زائد عرصہ پہلے لالہ ہردیال نے چاندنی چوک کے واقعے پر میر سے منسوب جو شعر پڑھا تھا اس کا متبادل چاندنی چوک سے لگ بھگ دو کلومیٹر دور دلّی گیٹ سے متصل مدفن مرزا سودا کے استاد ظہور الدین حاتم سے منسوب ہے:

پگڑی اپنی یہاں سنبھال چلو

اور بستی نہ ہو یہ دلّی ہے

تازہ ترین