• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ مجھے انجام کا آغاز لگتا ہے۔ یہ سب کچھ بہت تیزی سے ہوا ہے۔ جب بھی کوئی حکومت، چاہے وہ جمہوری ہو یا آمرانہ، محسوس کرتی ہے کہ عوام میں اس کی مقبولیت نہیں رہی، وہ ایسے اقدامات کرتی ہے، جو موجودہ حکومت کر رہی ہے۔

وزیراعظم عمران خان کی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات و نشریات نے جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کے حوالے سے جو طویل پریس کانفرنس کی، اسے ’’جیو نیوز‘‘ پر دیکھا لیکن جیسے ہی یہ پریس کانفرنس ختم ہوئی، ٹی وی سے ’’جیو‘‘ غائب ہو گیا۔

میں ڈھونڈتا رہا، جیو نہیں ملا۔ اسے یا تو کیبل سے ہٹا دیا گیا یا آخری نمبرز پر ڈال دیا گیا تھا۔ ایسا صرف حکومت کے حکم پر ہی ہوتا ہے۔ اس سے پریس کانفرنس میں پیش کیے گئے تمام دلائل غیر موثر ہو گئے۔

ان کا بار بار یہ کہنا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے ہاتھوں میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کو صحافت کی آزادی سے نہ جوڑا جائے کیونکہ یہ ایک فرد کی جائیداد سے متعلق کیس ہے، ایک غیر منطقی بیانیہ محسوس ہوا۔ آزاد اور غیر جانبدارانہ صحافت تو یہ ہے کہ ان کی پریس کانفرنس کو جیو مسلسل دکھاتا رہا اور اپنے گروپ کے ایڈیٹر انچیف کی گرفتاری پر حکومت کے موقف کو اپنے ناظرین تک پہنچاتا رہا۔

جیو نیوز کو کیبل سے ہٹانے کے حکومتی اقدامات نے ثابت کر دیا کہ حکومت آزادیٔ صحافت کو برداشت نہیں کرتی، پھر لوگ میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کو آزادیٔ صحافت سے کیوں نہ جوڑیں۔

کوئی معاشرہ کس قدر جمہوری، مہذب اور ترقی یافتہ ہوتا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ وہاں اظہار، فکر اور اختلافِ رائے کی آزادی کتنی ہے۔ انسان نے اپنے بنیادی اور سیاسی حقوق کے حصول کیلئے طویل جدوجہد کی اور قربانیاں دی ہیں۔

تحریک انصاف کی قیادت اس جدوجہد اور قربانیوں کا ادراک نہیں کر سکتی کیونکہ یہ وہ سیاسی جماعت ہے، جو اس جدوجہد کے دھارے میں کبھی نہیں رہی۔ اس کا تو بنیادی بیانیہ ہی یہ ہے کہ سیاسی قوتیں کرپٹ ہیں۔ ماضی میں بھی کئی مذہبی اور سیاسی جماعتیں اسی بیانیے پر چلتی رہیں لیکن کبھی نہ کبھی بنیادی سیاسی دھارے میں شامل ہو گئیں۔

تحریک انصاف کو اس سیاسی دھارے میں شامل ہونے کا اب تک بوجوہ موقع نہیں ملا۔ ہو سکتا ہے کہ حکومت کی مدت ختم ہونے کے بعد اسے یہ احساس ہو کہ حقیقی جمہوری معاشرے کے قیام کیلئے ابھی کتنی طویل جدوجہد کی ضرورت ہے۔

انجام کے آغاز کا مطلب لازمی طور پر حکومت کا خاتمہ نہیں بلکہ دلوں پر حکومت کا خاتمہ ہے۔ ایوب خان، ضیاءالحق اور پرویز مشرف نے طویل عرصے تک حکومت کی لیکن ان کے انجام کا آغاز ان کے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد ہی ہو گیا تھا۔ انہوں نے طاقت اور آمرانہ اقدامات پر اس لیے انحصار کیا کہ عوام میں ان کی مقبولیت نہیں تھی۔

ہر وہ حکمراں، جس کی عوام میں قبولیت نہ ہو، طاقت اور آمرانہ اقدامات پر انحصار کرتا ہے۔ تاریخ کا پہیہ بہت آگے بڑھ چکا ہے۔ اسے پیچھے دھکیلنے کی کوشش نہ کی جائے۔ طاقت اور آمرانہ اقدامات سے تاریخ پیچھے کا سفر نہیں کرتی۔ صحافت، آزادیٔ اظہار اور آزادیٔ فکر کو پابند کرنے کی کوششیں پہلے بھی بہت ہوئیں۔

34سال پہلے والے مقدمے کی بنیاد پر ملک کے سب سے بڑے میڈیا ہاؤس کے سربراہ کی گرفتاری کی خبر اور اس پر لوگوں کے تبصروں اور ردعمل کو روکنا کس طرح ممکن ہے۔ اگر حکومت یہ کہتی ہے کہ نیب اپنے طور پر کارروائیاں کر رہا ہے تو اسے کرنے دیں۔

ان کارروائیوں سے پہلے وزیراعظم کی دھمکیوں کے بارے میں اگر کوئی سوال کر رہا ہے کہ تو اسے بھی نہ روکیں۔ اس سوال کا جواب دینے کیلئے میڈیا آپ کو پلیٹ فارم مہیا کر رہا ہے۔ ٹی وی کیبل سے کسی نیوز چینل کو غائب کر دینا سوال کا جواب نہیں ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں صحافت اور صحافتی اداروں نے کبھی اتنا مشکل وقت نہیں دیکھا، جس قدر مشکل وقت وہ موجودہ حکومت میں دیکھ رہے ہیں۔ اداروں کیلئے نہ صرف زبردست مشکلات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے بلکہ انہیں غیر علانیہ سنسر شپ اور دباؤ کا بھی سامنا ہے۔ صحافتی اداروں سے وابستہ صحافی اور کارکنان بہت بڑی تعداد میں بیروزگار ہوئے ہیں۔

ملک اس وقت شدید بحران کا شکار ہے۔ معاشی بحران اگرچہ بہت خطرناک صورت اختیار کر چکا ہے لیکن اس سے زیادہ خطرناک بحران سیاسی ہے۔ تحریک انصاف اپنی سیاسی مقبولیت بہت تیزی سے گنوا رہی ہے۔ لوگوں نے اس کو ایک متبادل سیاسی قوت سمجھتے ہوئے اس سے بہت امیدیں وابستہ کر لی تھیں، اب نہ صرف یہ امیدیں دم توڑ گئی ہیں بلکہ پاکستان کے عوام سیاسی طور پر مایوسی کا شکار ہیں۔

غیر سیاسی قوتوں کے قہر آلود عزائم کو مزاحمت دینے والی کوئی قوت موجود نہیں رہی۔ میڈیا میں جو بات کرنے کی آزادی تھی، وہ تھوڑی بہت مزاحمت کی ایک صورت تھی، جسے اب حکومت کچلنا چاہتی ہے۔

سیاست اور صحافت کے خاتمے سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا، صرف ان قوتوں کو فائدہ ہو گا، جنہوں نے مختلف سیاسی جماعتوں کے لوگ تحریک انصاف میں بھیجے۔ وہ اب عمران خان کے وزیر اور مشیر ہیں، جو انہیں سب ٹھیک ہے کی خبریں سنا رہے ہیں۔ آزاد میڈیا سے جو حقیقت انہیں معلوم ہو سکتی تھی اس سے بھی وہ محروم ہو گئے۔

وزیراعظم اگر بنیادی دھارے میں کبھی شامل رہے ہوتے تو انہیں اس امر کا ادراک ہوتا کہ ان کے سیاسی انجام کا آغاز ہو گیا ہے۔ پرانے ہتھکنڈوں کی بنیاد پر حکمرانی کا زمانہ اب نہیں رہا۔

تازہ ترین