• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریخ کا فیصلہ قطعی ہی نہیں صادق بھی ہوتا ہے، قوموں کی ابتدا اگرچہ اختیار پر ہے لیکن خاتمے کا نوحہ بےعنوان ہوتا ہے، جدید تاریخ کے سب سے بڑا ’’آقا‘‘ فرنگی نے اپنے ملک کو بچانے کیلئے اپنے سامراج سے کنارہ کشی اختیار کی۔ سرکشی، باطل انا کے حُسن کا غرور سہی لیکن آنے والی کل کی سیاہ بختی کا نقارہ بھی ہے۔ کروچی کہتے ہیں ’’یہ کہنا کہ آزادی مر گئی بالکل ایسا ہے جیسے یہ کہنا کہ زندگی ختم ہو گئی کیونکہ آزادی کا مخرج زندگی ہے‘‘۔ انکے نزدیک آزادی اسی قدر ابھرتی ہے جتنا اس کو دبایا جاتا ہے۔ اس دعوے کی تائید میں کروچی‘ نپولین کی مثال سامنے لاتے ہیں جس نے متعدد یورپی اقوام کی آزادی کو پامال کیا لیکن بالآخر یہ آزادی بڑے زور و شور سے نمودار ہوئی۔ مولانا روم فرماتے ہیں ’’جو زندگی بےفیض ہے وہ جسم میں ایسی ہے جیسے لکڑی کی تلوار غلاف میں ہوتی ہے، جب تک وہ غلاف میں رہتی ہے تب تک وہ قیمتی سمجھی جاتی ہے لیکن جب باہر نکال لی جاتی ہے تو صرف جلانے کے کام آتی ہے‘‘۔ اب تاریخ کی فطرت یہ ہے کہ وہ مصنوعی تلواروں کو جلا دیتی ہے کہ تاریخ کا فیصلہ قطعی ہی نہیں، صادق بھی ہوتا ہے۔ ضربِ کلیم میں حضرت اقبال اعلان کرتے ہیں

جو بات حق ہو وہ مجھ سے چھپی نہیں رہتی

خدا نے مجھ کو دیا ہے دلِ خبیر و بصیر

اب حضرت کے اس دیس میں حضرت ہی کی اس سنت کے احیا یا پھر تقلید کو اگر ایسا گناہ قرار دیا جائے جس کی سزا قید و بند یا قتل سے کم نہ ہو تو کیا یہ گمان نہیں گزرے گا کہ ’سرکش‘ حضرت کی اس سوچ کے باغی ہیں جس کی روشنی میں آزادی کی دلہن کی نقاب کشائی پر رات سحر میں ڈھل گئی تھی۔ اس ناچیز کی کم عقل نے جناب میر شکیل الرحمٰن کو پابندِ سلاسل رکھنے والے واقعہ سے متعلق نیب کی کارروائی کے مقبول عام فلسفہ کو تاحال قبول کرنے کی استطاعت نہیں پائی ہے۔ میدانِ صحافت کے ہم جیسے بارہویں کھلاڑی اہلِ صحافت کے دل غم زدہ کرنے والے اس واقعہ پر کس کھاتے میں رائے زنی کر پائیں گے، لیکن پھر بھی اتنا تو جانتے ہی ہیں کہ اس کارروائی کے پسِ پشت وہ سوچ ہے جس کا خمیر ہی عدم برداشت سے عبارت ہے اور جنگ جیو کے بےباک کردار نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس سوچ کو للکارنے والے بھی موجود ہیں۔ حضرت اقبال کیا خوب ایسی جرأت رندانہ کی ترجمانی فرماتے ہیں؎

خرد نے مجھ کو عطا کی نظرِ حکیمانہ

سکھائی عشق نے مجھ کو حدیثِ رندانہ

یہ یاد رہے کہ قلم کے مزدور اس امر کے داعی ہوتے ہیں کہ حروف ہمارے خون میں شامل اور جملے ہمارے اظہاریہ کے رگِ جاں ہیں، ہم جو ملک و ملت کی تکالیف، مسائل و عوارض کو اجاگر کرنے کے پیامبر ہیں، اس سفر میں ہمیں روزی روٹی کے ساتھ ساتھ فکر اس آزادی کی بھی ہوتی ہے جو آئین نے ودیعت کی ہے اور جس کیلئے اصحابِ قلم نے ماضی میں ناقابلِ فراموش قربانیاں دی ہیں۔ قربانیوں کی اس تاریخ کا قرض یہ ہے کہ ایسے موقع پر وہ اصولی موقف زیرِ نظر رہے جو اظہارِ رائے کی آزادی کی چادر اوڑھے ہوئے ہے، اگر ایسا ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ تلاطم خیز موجوں کو قرار نصیب نہ ہو۔ یہ واضح ہے کہ بات صرف اپنے اس حق کی ہے جو اگر تہِ تیغ آ جائے تو پھر ایسا لامتناہی سلسلہ چل نکلتا ہے جسکے تلے وہ لوگ بھی آ سکتے ہیں جو کاروباری مسابقت یا دیگر وجوہ کی بنا پر میر صاحب کی گرفتاری کو وہی معنی پہنانے کی کوشش کر رہے ہیں جو گرفتاری کے جواز میں پیش کیے جا رہے ہیں۔ میڈیا مالکان کے مسابقتی رجحانات تلے عزائم اپنی جگہ لیکن اظہارِ رائے کی آزادی کے ایک نکتہ پر کیوں نہ اتفاق کر لیا جائے۔ بلاشبہ مادر پدر آزادی کا تصور کسی بھی معاشرے میں روا نہیں، پیپلز پارٹی کے دور میں آصف زرداری صاحب پر تمسخرانہ انداز میں تنقید کی گئی لیکن وہ قوتِ برداشت کا لاجواب مظاہرہ کر گئے، ہم یہ نہیں کہتے کہ ہر کوئی اسی نوع کی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرے لیکن آئین نے جس قدر آزادی دی ہے اُسے پامال کرنے سے اجتناب ازبس ضروری ہے۔ اب جو بھی آئینی دائرہ کار سے ہٹ کر اپنے اختیار کا استعمال جاری رکھنے اور اس طرح قدغن و گرفتاریوں پر بضد ہو تو اُن کی نظر میں یہ عمل کس قدر بھی بزعمِ خود جائز و شائستہ ہو لیکن خلقِ خدا اس طرز پر بقول احمد فراز یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتی کہ ؎

یار خوش ہیں کہ انہیں جامۂ احرام ملا

لوگ ہنستے ہیں کہ قامت سے زیادہ پہنا

تازہ ترین