• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے مہربان دوست ماضی قریب کے بے مثل سپن باؤلر، کرکٹ سلیکشن کمیٹی کے چیئرمین اور نیشنل بنک کے ایگزیکٹو وائس پریذیڈنٹ جناب اقبال قاسم نے قومی کرکٹ ٹیم کی حالیہ کارکردگی پر تبصرہ کرتے ہوئے بالکل صحیح کہا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم وسیم اکرم، وقار یونس یا شعیب اختر جیسی صلاحیتوں اور خوبیوں کے فاسٹ باؤلر حاصل نہیں کررہے ،اقبال قاسم جانتے ہوں گے کہ اس حقیقت کے پیچھے ایک اور حقیقت بھی ہے کہ وسیم، وقار اور شعیب کو پاکستان کرکٹ بورڈ نے حاصل کرنے سے پہلے تلاش کیا تھا۔ ان کو ڈھونڈا تھا، ان کی صلاحیتوں اور خوبیوں کی جانچ پڑتال کی تھی اور شاید انہیں بہتر اور موثر بنانے کی تربیت بھی دی تھی،وہ کسی باپ ،چچا،ماموں یا خالو کی سفارش پر نہیں میرٹ کے ذریعے کرکٹ ٹیم میں داخل ہوئے تھے۔ یہ کام کرکٹ بورڈ آج بھی کرسکتا ہے بلکہ اس کا یہ فریضہ ہے کہ کرکٹ کنٹرول بورڈ کی شاندار روایات کو قائم رکھے اور آگے بڑھائے۔
ہمارے ایک شاعر نے کہا تھا #
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ورپیدا
نرگس کے پھول کی شکل انسانی آنکھ جیسی ہوتی ہے مگر وہ نور بصارت سے محروم ہوتی ہے اور اپنی بے نوری پر روتی رہتی ہے،وہ بے چاری نہیں جانتی کہ اس کی بے نوری کا سبب یہ ہے کہ وہ اپنے چمن سے باہر دیکھنے کی کوشش ہی نہیں کرتی ورنہ ہزاروں سال تک رونے کی بجائے اپنے پڑوس سے”دیدہ ور “ حاصل کرسکتی ہے۔
نرگس کے پھول کے علاوہ انگریزی زبان میں ہم تک پہنچنے والی ایک یونانی کہاوت کے مطابق نرگس نامی ایک خوبصورت نوجوان نے جھیل کے ٹھہرے ہوئے پانی میں اپنا عکس دیکھا تو اپنے آپ پر فوراً عاشق ہوگیا وہ نہیں
جانتا تھا کہ اپنے آپ سے عشق کرنے والوں کا کوئی رقیب نہیں ہوتا۔ اس نوعیت کی”نرگسیت“ تقریباً ہر انسان میں ہوتی ہے جو حد سے بڑھ جائے تو اندھا کردیتی ہے اور اندھا اپنے آپ اور عزیزوں اور اپنی چمن کی حدود سے باہر کی دنیا سے کٹ جاتا ہے۔ہماری قومی زندگی کے تقریباً تمام شعبوں کے ساتھ ایسے ہی حادثات پیش آئے ہیں جن کی وجہ سے ان تمام شعبوں سے”میرٹ“ غائب ہوگیا ہے اور جن نشستوں سے”میرٹ “ اٹھ جائے وہاں رشوت اور سفارش ، بددیانتی اور کرپشن براجمان ہوجاتی ہے چنانچہ سیاست، ثقافت، حکومت، صحت، تعلیم کے شعبوں کی طرح کرکٹ میں سے وسیم، وقار، شعیب اور اقبال قاسم جیسے باؤلرز اور میا ں داد، مدثر، انضمام اور ظہیرعباس جیسے بیٹس مین غائب ہوجاتے ہیں۔کہا جاتا ہے اور تسلیم کرنا پڑے گا کہ وسیم، وقار اور شعیب جیسے کھلاڑی اگر آسمان سے ٹپکتے تھے تو یہ سلسلہ اب بند ہوچکا ہے چنانچہ کرکٹ کنٹرول بورڈ والوں کو ائرکنڈیشنڈ دفتروں سے باہر نکل کر سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور عام کلبوں کا جائزہ لینا پڑے گا، وہ یقینی طور پر درجنوں نہیں سینکڑوں بلکہ ہزاروں باصلاحیت نوجوان کھلاڑیوں کو حاصل کرسکتے ہیں یہ بھی تو ہمارے کسی شاعر نے ہی کہا ہے کہ #
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کرگیا
ورنہ گلشن میں علاج تنگیِ داماں بھی ہے
اپنی ذاتی اور گھریلو کلیوں پر اکتفا اور قناعت کرنے والے بھی بے نورہی ہوتے ہیں اور اپنی بے نوری پر روتے اپنے سے دیدہ ور پیدا نہیں کرسکتے۔ نسلی خوبیوں کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جاسکتا، مگر نسلی خامیوں کی موجودگی سے انکار کیسے ہوگااورسفارش سے زیادہ خطرناک نسلی خامی اور کوئی نہیں ہوسکتی جو نسلوں کو تباہ کرسکتی ہے۔
تازہ ترین