• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی کرکٹ ٹیم جنوبی افریقہ سے ٹیسٹ سیریز بری طرح ہار گئی اور ٹی ٹوئنٹی اتنے ہی شاندار طریقے سے جیت گئی۔ یہی حال ہماری سیاسی پارٹیوں کا ہے کہ ان میں سے اکثر بالخصوص حکومتی پارٹیاں پانچ سالہ میچ میں تو بری طرح ناکام ہوئیں لیکن اب پارلیمینٹ کے دور کے خاتمے کے موقع پر ٹی ٹوئنٹی ٹائپ کھیل میں جیتنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ بدقسمتی سے ریاستی معاملات میں بہت طویل ٹیسٹ سیریز کھیلنے والوں کا ہی نام زندہ رہتا ہے باقی کا ذکر اگر تاریخ کے حاشیوں میں بھی آجائے تو بڑی بات ہے۔ قوموں کی تاریخ میں وہی لوگ عظیم قرار پاتے ہیں جو ملک کو نیا طویل المیعاد معاشی ڈھانچہ دیں اور اس کے ساتھ ساتھ لازمی طور پر ذہنی و فکری (سوشل) انفراسٹرکچر بیک وقت فراہم کریں۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی پارٹیوں میں سے کوئی بھی اس معیار پر پورا نہیں اترتی۔ اسی وجہ سے جوزف کالونی جیسے سانحے رونما ہوتے ہیں۔
پہلے تو کچھ حالیہ ٹی ٹوئنٹی سیاست کے بارے میں۔ اس میں اولین نام تو پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کا آتا ہے جنہوں نے دیوانوں کی طرح میٹرو بس سروس کو الیکشن شروع ہونے سے پہلے مکمل کرنا میچ کی فتح کیلئے ضروری سمجھا۔ ان کا کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کرنے کا اعلان بھی الیکشن کے ٹی ٹوئنٹی میچ کا ہی حصہ تھا۔ پیپلزپارٹی کے ہاتھ میں ایسا کوئی منصوبہ نہیں تھا اس لئے زرداری صاحب نے ایران کا رخ کیا اور جس گیس پائپ لائن کے معاہدے کو وہ سالوں سے (شاید اس موقع کیلئے) لٹکا رہے تھے فوراً مکمل کر لیا اور اس کا افتتاح بھی ہو گیا۔ زرداری صاحب کو پتہ ہے کہ یہ بیل بڑی مشکل سے منڈھے چڑھے گی لیکن انہوں نے ایک تیر سے دو نہیں تین شکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک تو یہ تاثر دینا کہ انہوں نے انرجی کیلئے کتنا عظیم کارنامہ کیا ہے، دوسرے شیعہ ووٹروں کی ہمدردی حاصل کرنا اور تیسرے آنے والی حکومت کیلئے درد سر چھوڑنا۔ ظاہر بات ہے آنے والی حکومت کیلئے امریکہ کیساتھ ہموار تعلقات قائم کرنے میں ایران گیس پائپ لائن گلے کا کانٹا بن جائے گی۔ مولانا فضل الرحمن نے بھی چھوٹا موٹا ٹی ٹوئنٹی پشاور میں اے پی سی بلا کر کرنے کی کوشش کی ۔ ان میں پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کا ٹی ٹوئنٹی تو بظاہر فکسڈ ہی لگتا ہے۔
سیاسی پارٹیوں کے ان ٹی ٹوئنٹی میچوں میں اگر کوئی ٹھوس جیت ہے تو وہ مسلم لیگ (ن) کے میاں شہباز شریف کی جنہوں نے لاہور میٹرو بس کا کافی پیچیدہ پروجیکٹ بہت تھوڑے عرصے میں پایہٴ تکمیل تک پہنچا دیا۔ شریف برادران کی فزیکل انفرااسٹرکچر کے منصوبوں کی تکمیل قابل ستائش ہے اور جب کبھی موٹر وے جیسے ہائی وے کا نام آئے گا تو میاں نواز شریف کو یاد رکھا جائے گا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ شریف برادران معاشی اور فزیکل انفرااسٹرکچر کے سلسلے میں تو انہونی کو بھی عملی شکل دے دیتے ہیں لیکن ابھی تک وہ فکری اور شعور یعنی سوشل انفرااسٹرکچر کے بارے میں ذہنی سستی یا ابہام کا شکار ہیں۔ ان کو ابھی تک شاید یہ سمجھ نہیں آیا کہ ایک جدید معاشی انفرااسٹرکچر کو صحرائی بدو کے دماغ سے نہیں چلایا جا سکتا۔ اگر آپ تیل کے سب سے بڑے پیداکار ہوں تو شاید بلند و بالا چمکدار عمارتوں اور ہائی ویز سے جدیدیت کا ڈھونگ رچا سکتے ہیں لیکن اگر آپ کا زیادہ انحصار انسانی وسائل کا مرہون منت ہو تو آپ کو صحرائی بدو ہوتے ہوئے بھی جدید فکری و شعوری انفرااسٹرکچر اپنانا پڑتا ہے جیسا کہ خلیج کی ریاستوں کے بڑے مراکز میں جزوی طور پر کیا گیا ہے۔
سوشل انفرااسٹرکچر کا مطلب ہے کہ شہریوں کی شخصیت میں گہرائی اور وسعت پیدا کرنا، ان کو بہترین انسانی روایات سے روشناس کرانا تاکہ وہ مادی اشیاء جمع کرنے والی مشینیں بن کر ایک دوسرے کو تباہ نہ کریں اور جوزف کالونی جیسے سانحے جنم نہ لیں۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ ایک انگریز امریکہ کے کسی قصبے میں ایک امریکی سے تبادلہ خیالات کر رہا تھا۔ امریکی نے دعویٰ کیا کہ ہمارا قصبہ اتنا ہی جدید اور ترقی یافتہ ہے جتنا کہ برطانیہ میں ہوتا ہے۔ برطانوی نے پوچھا کہ کیا تمہارے قصبے میں کوئی لائبریری اور تھیٹر ہے؟ یعنی ترقی یافتہ ملکوں اور تہذیبوں میں لائبریری اور تھیٹر مہذب ہونے کی علامتیں ہیں۔ پاکستان میں کتنے شہر اور قصبے ہیں جن میں یہ دونوں چیزیں موجود ہیں؟ اکا دکا لائبریری تو شاید مل جائے لیکن تھیٹر تو بڑے شہروں (کراچی لاہور وغیرہ کے علاوہ) میں بھی موجود نہیں ہے۔ روایتی تقلیوں اور راس دھاریوں (یہ اسٹیج ڈرامے کے عوامی اظہار تھے) کے ختم ہونے کی وجہ سے شاید نئی نسل کے لوگوں نے کسی قسم کا اسٹیج ڈرامہ دیکھا ہی نہیں ہے۔ لائبریری اور تھیٹر کا ہونا تو شاید انگریزوں کا جنون ہو یا یہ انتہائی ترقی یافتہ صنعتی ملکوں میں ممکن ہو لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ نئے غیر یورپی ملکوں میں ترقی کے لئے کیا سوشل انفرااسٹرکچر بنایا گیا۔ ان ملکوں چین، جاپان، کوریا، ملائیشیا اور جنوبی اور بعیدا ایشیاء کے سب ملکوں کو شامل کر لیجئے جنہوں نے قابل ذکر ترقی کی ہے۔ ان سب میں مندرجہ ذیل خصوصیات قدر مشترک ہیں

اول: ان سب ملکوں میں مذہب یا عقیدے کو ریاستی مذہب کا درجہ نہیں دیا گیا چنانچہ وہ مذہبی اور فرقہ پرستی کے تنازعات سے محفوظ ہیں۔ چین اور ویتنام میں کمیونسٹ نظریہ اپنایا گیا ہے لیکن اب اس کی گرفت بھی بہت ڈھیلی ہوتی جا رہی ہے۔دوم: چین، جاپان اور کوریا میں زبردست زرعی اصلاحات کے ذریعے جاگیرداری کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا جو کہ پاکستان میں ابھی تک ممکن نہیں ہوا۔ سوم: ترقی پر گامزن ملکوں میں حکومتی بجٹ کا بہت بڑا حصہ تعلیم اور طبی سہولتوں کے لئے مخصوص کیا گیا ہے۔ ایک خاص سطح تک (عام طور پر اعلیٰ ثانوی اسکول) تعلیم مفت اور یکساں ہے یعنی ہر طبقے کے نوجوانوں کو مساوی مواقع حاصل ہوتے ہیں۔ پاکستان میں تعلیم کلیتاً طبقاتی ہو چکی ہے جسے ختم کرنا اشد ضروری ہے۔ چہارم: نئے ترقی یافتہ ملکوں میں کوئی ایسا ملک نہیں جس میں پرائمری اسکول کی سطح پر مادری زبان ذریعہ تعلیم نہ ہو۔ چین، جاپان اور دیگر ممالک میں تو اعلیٰ تعلیم بھی مقامی زبانوں میں دی جاتی ہے۔ ان ملکوں نے انگریزی سیکھنے کے بجائے اپنی زبانوں کو استعمال کرتے ہوئے ترقی کی ہے۔ پاکستان میں سوائے سندھ کے کسی صوبے میں (خیبر پختونخوا میں کسی حد تک) مادری زبان ذریعہ تعلیم نہیں۔ سندھ میں قدیم جاگیرداری اس کی ترقی کے راستے میں حائل نہ ہوتی تو وہ باقی صوبوں سے کہیں آگے ہوتا۔پنجم: سوائے چین کے (جس کی معیشت بہت بڑی ہے) ترقی پانے والے ملکوں میں اکثریت کی ترجیح دفاعی نظام پر زیادہ خرچ کرنا نہیں ہے۔ ان کا مقصد صنعتی میدان میں آگے بڑھنا ہے سو وہ بڑھ گئے۔ ہماری ترجیح دفاع تھی اور ہم نے ایٹمی طاقت بننے کا معجزہ کر دکھایا یعنی اگر ہماری ترجیح مشرق بعید کے ملکوں جیسی ہوتی تو ہم ان سے آگے یا ان کے ہم پلہ ہوتے۔ششم: ان تمام ممالک نے اپنے ماضی سے رشتہ نہیں توڑا۔ چین اور جاپان نے اپنے جاگیرداری دور کی روایات کو زندہ بھی رکھا ہے اور اس پر فخر بھی کیا جاتا ہے۔ ہم وادی سندھ کی دنیا کی قدیم اور شاندار تہذیب کے وارث ہیں لیکن ہم اس سے رشتہ جوڑنے کو گناہ گردانتے ہیں۔ وادی سندھ کی ابتدا آج کے ہریانہ اور پنجاب (مشرقی و مغربی) سے لے کر سندھ دریا اور اس کی شاخوں کے گرد ہوئی تھی۔ ہندومت کا پہلا وید (رگ وید)آج کے پنجاب میں لکھا گیا تھا اور مہابھارت ہریانہ میں لڑی گئی تھی جو پہلے پنجاب کا حصہ ہوتا تھا پھر اس علاقے میں بدھ مت چھا گیا اور آخر میں اکثریت نے اسلام قبول کر لیا لیکن ہم میں سے ہر ایک ثابت کرنا چاہتا ہے کہ وہ عرب، عجم یا وسط ایشیاء کا مہاجر ہے یعنی وادی سندھ کے باسی معدوم ہو گئے! حقیقت یہ ہے کہ ہماری اکثریت اسی مٹی کی ہے اور جب تک ہم یہ تسلیم نہیں کریں گے تب تک ہماری نجات ممکن نہیں۔ سوشل انفرااسٹرکچر کی تعمیر میں یہ اہم ترین نکتہ ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے عناصر ہیں جو ترقی پانے والے ملکوں کو ہم سے الگ کرتے ہیں لیکن ایک بات واضح ہے کہ ان تمام ملکوں نے فزیکل (مادی) انفرااسٹرکچر کے ساتھ ساتھ سوشل انفرااسٹرکچر کو بھی ترقی دی جس سے وہ آج صنعت ،ادب، آرٹ اور کھیلوں میں صنعتی ممالک کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ایک ہم ہیں کہ ہم نے برصغیر کی دوسری بڑی فلم انڈسٹری تباہ و برباد کر دی اور آج گھر گھر بالی وڈ کی فلمیں دیکھی جاتی ہیں۔ فلمی صنعت سوشل انفرااسٹرکچر کی تباہی کا ایک استعارہ ہے اور آنے والے حکمرانوں کے لئے چیلنج ہے کہ وہ اسے بحال کر سکتے ہیں یا نہیں۔ ہم سے بہتر تو ایران کے ملّا تھے جنہوں نے خود ماڈرن اسٹوڈیو بنا کر فلم سازوں سے کہا کہ فلمیں تخلیق کرو (سر ننگا کئے بغیر) اور آج ایرانی فلم کا دنیا میں ایک مقام ہے۔ فلمی صنعت کی بحالی خود اتنی اہم نہیں لیکن یہ ثابت کرے گی کہ ہمارے حکمرانوں کو سوشل انفرااسٹرکچر کی اہمیت کا اندازہ ہوا ہے یا نہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو سمجھ لیجئے کہ ٹی ٹوئنٹی سیاست جاری ہے۔
تازہ ترین