• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دراصل یہ ایک ٹریجڈی ہے کہ ہم علم حاصل کرتے ہیں لیکن علم سیکھتے نہیں۔ پڑھنے اور سیکھنے میں بڑا فرق ہے۔ پڑھنے کا مطلب خواندگی اور ممکن حد تک ذہن میں محفوظ رکھنا ہے۔ سیکھنے کا مطلب اس علم کو اپنے اوپر نافذ کرنا ہے گویا جو پڑھا ہے اُس پر عمل کرنا سیکھنا کہلاتا ہے۔ یہ قول پڑھتے پڑھتے آنکھیں تھک گئی ہیں کہ ہم تاریخ سے سیکھتے نہیں چنانچہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے۔ مطلب یہ کہ ہم تاریخ پڑھتے ضرور ہیں لیکن اس سے سیکھتے نہیں، اس پر عمل بھی نہیں کرتے چنانچہ اُنہی غلطیوں کو دہراتے ہیں جو ہمارے پیش روں (پیشرئوں) یا بزرگوں نے کی تھیں، اسی کو تاریخ کا دہرانا کہتے ہیں۔

میں نے زندگی کا طویل حصہ سرکاری نوکری کی نذر کر دیا۔ خاموشی سے زندگی کے تجربات کی وادی سے گزرتا رہا، چنانچہ معلومات میں اضافہ ہوتا رہا اور حتیٰ الوسع سیکھنے کی کوشش کرتا رہا۔

بھلا بصارت اور بصیرت میں کیا فرق ہے؟ بصارت ظاہر کو دیکھنا اور بصیرت اپنے اندر دیکھنے کی صلاحیت کا نام ہے۔ بصیرت اُس ذہنی پختگی کا نام ہے، اُس نافع علم کا نام ہے اور اُس صلاحیت کا نام ہے جس کے ذریعے ہم مستقبل کی جھلک دیکھتے ہیں، آنے والے طوفانوں کا مقابلہ کرنے کے لئے حکمتِ عملی وضع کرتے ہیں اور درست فیصلے کرتے ہیں۔ درست فیصلے کیے جائیں تو تاریخ اپنے آپ کو دہراتی نہیں اور انسان بار بار انہی غلطیوں کا ارتکاب نہیں کرتا۔

غلطیوں کے ارتکاب سے یاد آیا کہ میں دورانِ ملازمت صوبے اور مرکز میں محکمہ اطلاعات سے بھی وابستہ رہا ہوں۔ اس محکمے کے سفر کے دوران بڑے بڑے معرکے برپا ہوتے دیکھے۔ حکمرانوں کو قریب سے دیکھنے اور اُن کا مزاج سمجھنے کے مواقع ملے۔ سچ یہ ہے کہ بہت سے حکمران دیکھے اور کرسی اقتدار پر براجمان ہوتے ہی اُن کے نظریات، اطوار اور انداز بھی بدلتے دیکھے۔ جب نئے نئے حلف وفاداری کا بوجھ اٹھائے، ایوانِ اقتدار میں پائوں رکھتے تو اُن سے زیادہ کوئی روشن خیال، جمہوریت پرست، غریبوں کا غم خوار، میرٹ کا علمبردار، انصاف کا پرستار، آزادیٔ اظہار کا کوہسار اور اصولوں کا غلام پوری تاریخ میں نظر نہ آتا۔ کرسیٔ اقتدار پر بیٹھتے تو طاقت، اختیار اور خوشامد کے وٹامن کھا کر ان کی سوچ بدلنا شروع ہوتی، خود پرستی کا عمل شروع ہوتا، سوچ میں تبدیلی کے آثار نمایاں ہونے لگتے، احکامات میں تحکم اور غرور کا پہلو سر اٹھانے لگتا اور تھوڑے ہی دنوں میں جادو کی مانند سر پر چڑھ کر بولنے لگتا۔ پھر اس طرح کے شاہی حکم جاری ہوتے فلاں زبان دراز کو سبق سکھا دو، اُسے ذرا ٹائٹ کرو، فلاں کو جینے نہیں دینا چاہئے اس کا بیلٹ باکس اٹھانا پڑے وغیرہ وغیرہ۔ میں کبھی کبھی روزانہ کی ’’رٹ‘‘ سے الگ ہوکر سوچتا کہ یہ صاحب جب تشریف لائے تھے تو جمہوری اصولوں کی روشن خیالی کے پرچارک تھے۔ اب کیا ہوا۔ وہی ہوا کہ اُنہوں نے وہ باتیں پڑھی تھیں، اُن کو تقریروں اور میڈیا انٹرویوز میں طوطے کی مانند دہرایا تھا لیکن اُنہیں سیکھا نہیں تھا اور نہ ہی اُنہیں اپنی بصیرت کا حصہ بنایا تھا چنانچہ وہ وہی غلطیاں کرنا شروع کر دیتے جو اُن سے پہلے تخت نشین نے کی تھیں۔ پہلے تخت نشین کا کیا حشر اور انجام ہوا؟ اس سے سیکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ تخت نشینوں کا انجام اُنہیں خود سکھاتا ہے، وہ کسی سے نہیں سیکھتے۔ چنانچہ بیورو کریسی کے وہ کل پرزے جو ہاں میں ہاں ملاتے یا اقتدار کے نشیلے احکامات کے سامنے خاموش رہتے وہ انہیں اچھے لگتے۔ جو تھوڑے سے انحراف کی جسارت کرتے یا صحیح مشورہ دیتے وہ آنکھ میں کنکر بن کر چبھنےلگتے۔ پھر حاکم وقت قصیدہ خوانوں میں گھر کر رہ جاتے۔

میری باتیں اور یادیں تھوڑی ’’تُرش‘‘ ہیں۔ اسی لیے دوستوں سے کہتا ہوں کہ مجھے صفدر نامہ لکھنے پر مجبور نہ کرو۔ بہت سے دوستوں کا فرمان ہے کہ شہاب نامہ کے وزن پر صفدر نامہ لکھو۔ سچ یہ ہے کہ میں شہاب صاحب کی مانند لکھنے کا اہل ہی نہیں۔ محترم مرحوم و مغفور قدرت اللہ شہاب صاحب اعلیٰ درجے کے ادیب اور افسانہ نگار تھے، کہانی لکھنے کا فن جانتے تھے اور اُن کے علمی خزانے میں بےشمار روحانی وارداتوں کے ہیرے چمکتے تھے، وہ ایک عابد و زاہد انسان تھے۔ چنانچہ شہاب نامہ سوانح عمری کے بجائے روحانی گائیڈ، کرامات کی کہانی اور وظائف کی کتاب کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔ مجھ جیسا تہی دامن لکھاری اُس کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتا۔ شہاب صاحب سے پہلی ملاقات ہوئی تو ہاتھ ملاتے ہی فرمایا ’’میں نے تمہاری مسلم لیگ والی کتاب پڑھ کر کئی تقریریں لکھیں‘‘۔ میں ان الفاظ کو ایک شفیق بزرگ کی شفقت سمجھ کر خاموش رہا۔ ملازمت کے دوران دو بار اُن کی کرسی پر بیٹھنے کا موقع ملا۔ اول وفاقی سیکرٹری وزارتِ تعلیم، دوم پیرس میں یونیسکو کے ایگزیکٹو بورڈ کے منتخب رکن کی حیثیت سے، میں دونوں حیثیتوں میں اُن کا زیر بار رہا۔ خانس پور (نتھیا گلی) تربیتی کیمپ میں شہاب صاحب کو خطاب کی دعوت دی تو معذرت کر لی۔ ممتاز مفتی نے میرا ہاتھ دبایا اور کہا کہ دراصل ایسی مصروفیات سے ان کی روحانی معمولات اور وظائف میں خلل پڑتا ہے، اس لیے انکار کرتے ہیں باقی سب پردہ پوشی۔ بات شروع ہوئی تھی پڑھنے اور سیکھنے سے یعنی قول اور فعل کے تضاد سے۔ ایک بار حکمِ حاکم پر حاضر ہوا تو حاکمِ اعلیٰ نے چھوٹتے ہی کہا ’’فلاں اخبار اور اُس کے مالک کو سیدھا کر دیں‘‘۔ عرض کیا حضور زندگی بھر کے تجربات کا نچوڑ ہے کہ اس سے نقصان حاکم کا ہوتا ہے، اخبار یا اُس کے مالک کا کچھ نہیں بگڑتا۔ قیامِ پاکستان کے چند برس بعد پنجاب کے وزیراعلیٰ نے ایک اخبار بند کیا تھا۔ اخبار آج بھی چھپ رہا ہے اور گزشتہ کئی دہائیوں سے اُس وقت کے مرحوم وزیراعلیٰ اور مرحوم وزیراعظم پر مسلسل تبریٰ بھیج رہا ہے۔ صحافت سے جھگڑا مول لینے والا سیاستدان افسر حاکم ہمیشہ گھاٹے میں رہتا ہے۔ پھر کیا ہوا اس کو چھوڑیے صرف اتنا یاد رکھئے کہ میر شکیل الرحمٰن کو پابندِ سلاسل کرنے والے گھاٹے میں رہیں گے، رخصتی کے بعد پچھتائیں گے لیکن میر شکیل کا کچھ نہیں بگڑے گا، اس کے قد و قامت میں اضافہ ہی ہوگا۔ کم سے کم میں نے ایسا ہی ہوتے دیکھا ہے۔

تازہ ترین