• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’تھری ان ون ‘‘دہلی کے شاہین باغ کی شیرنیوں کو سلامایسے ماحول میں جب بڑے بڑوں کے کس بل نکل چکے ہیں اور گلے ملنا، گلے کاٹنے کے برابر ہو رہا ہے، مصافحے ہاتھوں کی بجائے پیروں سے ہو رہے ہیں، عبادتوں سے لیکر شادیوں تک کے اجتماعات پر پابندیوں کا موسم ہے، الکحل گائوماتا کے خارج شدہ فالتو، فضول لیکن پھر بھی ’’مقدس‘‘ پانی پر بازی لے جاچکی ہے، جہالت اور توہمات کی دھجیاں اڑ رہی ہیں .....ایسے ’’دھرم شکن‘‘ حالات میں ہر کسی کو یقین تھا کہ کرونا کا خوف شہریت ترمیمی قانون، این پی آر اور این آر سی کے خلاف شاہین باغ دہلی میں تین ماہ سے جاری دھرنا احتجاج ختم ہو جائے گا لیکن خود ہندوستان میڈیا کے مطابق شاہین باغ کی سرفروش اور دلیر خواتین نے احتجاج ختم کرنے سے واضح طور پر انکار کرتے ہوئے کہا کہ جب تک یہ ننگِ انسانیت قانون واپس نہیں لیا جاتا، اجتماعی احتجاج جاری رہے گا۔ شاہین باغ کی شاہین صفت مائوں، بہنوں، بیٹیوں کو ہمارا سلام اور دریندر مودی کو نمشکار۔دوسرے کالم کا تعلق بھی کرونا ڈارلنگ سے ہے۔خبر آئی کہ اوقاف پنجاب کی 435مساجد میں صلوٰۃ التوبہ اور اجتماعی دعا کا انعقاد کیا گیا تو میں سوچ رہا ہوں کہ یہ صرف ہم جیسے مقامی گنہگاروں کا مسئلہ تو ہے نہیں، یہ تو عالمی بین الاقوامی قسم کی وباء اور وائرس ہے تو دعا اور توبہ کا انعقاد بھی گلوبل سطح پر ہی کیا جانا چاہئے جو سوائے اقوام متحدہ کے اور کوئی کر نہیں سکتا جبکہ اقوام متحدہ میں ہماری حیثیت کیا ہے ؟وہاں تو کشمیر پر ہمارے واویلے پر کسی نے کان نہ دھرے تو کرونا پر ہماری کون سنے گا؟اس سے بھی اہم اور حساس بات یہ ہے کہ ’’توبہ‘‘ کا مطلب کیا ہے ؟دو ہی باتیں سمجھ آتی ہیں ۔ ایک ہے اب تک کے گناہوں پر ندامت اور ان پر توبہ تو کیا یہ کافی ہو گی؟کیا آئندہ کے امکانی گناہوں سے توبہ ضروری نہیں ؟اور پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی مجھ جیسے عادی، عامی گنہگار کے ’’بی ہاف‘‘ پر توبہ طلب کرے اور اس کی یہ عرض قبول ہو جائے ؟ میرے حصہ کی توبہ تو مجھے ہی کرنا ہو گی اور اگر مجھ جیسا کم بخت بلکہ بدبخت ’’توبہ‘‘ کیلئے تیار ہی نہیں تو کیسی توبہ؟ کون سی دعا؟ کہیں منافقت کا اک اور گناہ ہی گناہوں کی فہرست میں شامل نہ ہو جائے۔سچی بات ہے میں کیونکہ اوروں سے کہیں زیادہ گنہگار ہوں اس لئے مجھے تو کرونا، قدرت کی طرف سے قیامت کا ریمانڈر اور پروموٹائپ کوئی شے محسوس ہوتا ہے ۔سنا کہ ہم مسلمان تعداد میں تقریباً ایک ارب 80کروڑ کے لگ بھگ ہوتے ہیں ۔صرف 80کروڑ بھی 5وقت دعا کرتے ہوں تو خود ہی حساب لگالیں کہ ایک دن، ایک ہفتہ، ایک مہینہ، ایک سال، ایک صدی میں کتنی دعائیں نہ مانگی گئی ہوں گی جبکہ کئی صدیوں سے شنوائی نصیب نہیں تو کیا ضروری نہیں کہ آسمانوں کی طرف دیکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے گریبانوں میں بھی جھانک لیا جائے؟ اس کا کرم تو بے کراں ہے ہی، ہمارے اجتماعی کردار کا کیا حال ہے؟تیسرا کالم ہماری غربتوں اور مجبوریوں سے متعلق ہے۔ہر پڑھا لکھا جانتا ہے کہ پاکستان کا FATFکی گرے لسٹ سے نکلنا کتنا ضروری ہے۔ اتنا ہی ضروری جتنا ہر جاندار کیلئے آکسیجن، اس سلسلہ میں پاکستان کو جون تک 13اہم نکات پر عملدرآمد کی ہدایت جاری کر دی گئی ہے یعنی ’’وقت کم اور مقابلہ سخت’’ اہم ترین بات یہ کہ ’’ہدایت‘‘ کے ساتھ ساتھ مقدمات چلانے کیلئے کالعدم تنظیموں اور افراد کی فہرستیں بھی دیدی گئی ہیں اور یہ جاننا چنداں مشکل نہیں کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ہاتھوں سے لگائی گرہیں دانتوںسے کھولنی پڑتی ہیں’’لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نےسزا پائی ‘‘MOREOVERکے طور پر دہشت گردوں کی مالی معاونت کا خاتمہ، ہنڈی حوالہ جیسے ذرائع کی بیخ کنی، نقد رقوم کی نقل وحرکت پر پابندی کے علاوہ مدارس کو سکولز اور ہیلتھ یونٹس میں تبدیل کرنے جیسے اقدامات بھی شامل ہیں ۔’’اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے ‘‘ ۔اللہ پاک اسلام کے اس قلعہ اور اس کے کرتوں دھرتوں کو ہوشمندانہ، معاصرانہ فیصلوں کی توفیق عطا فرمائے اور اس ملک کو مہم جوئوں، تزویراتی گہرائی کے بیوقوف شوقینوں سے محفوظ رکھے کہ مومن اپنے عہد، اپنے عصر سے ہم آہنگ ہوتا اور اس کے تقاضوں کو سمجھتا ہے۔فکری، جذباتی، نفسیاتی طور پر ’’کوڈو‘‘ قسم کے چند لوگ اس ملک کو اندرونی اور بیرونی طور پر اس بری طرح گھائل کرگئے ہیں کہ ابھی تک اپنا آپ سنبھلتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اشرافیہ اور عوام میں بھی ابھی تک حماقتوں اور جہالتوں کا مقابلہ جاری ہے اور شاید انہیں اب تک ترجیحات کے تعین میں شدید دشواری کا سامنا ہے۔خداخیر کرے۔ہر شاخ پہ ’’فایٹر‘‘ بیٹھا ہے۔(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین