• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی و اقتصادی استحکام کی حامل حقیقی جمہوری ترقی یافتہ ریاستوں کے اپنے اس مقام و پہچان کے دو بڑے کھلے راز، آزاد صحافت میں ڈھلی، شہریوں کو حاصل اظہارِ رائے کی آزادی کی آئینی ضمانت اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانیوالا شفاف نظامِ انصاف و احتساب ہے۔

یہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ جن ممالک میں مختصر میڈیا لاز کیساتھ صحافت مطلوب حد تک آزاد اور بلاامتیازِ ’’چھوٹا‘‘ و ’’بڑا‘‘ احتساب و انصاف کا نظام ہے وہاں کی حکومتیں شفاف، پارلیمان معیاری، عدلیہ بااعتبار و باوقار اور عوام خوشحال، مطمئن و محفوظ ہوتے ہیں۔

قارئین کرام! گزرے ہفتے (14مارچ) کو جو ’’آئین نو‘‘ بعنوان ’’آزادیٔ صحافت کا تشویشناک انحطاط‘‘ میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری میں تحریر کیا گیا، اس میں حکومت کے تمام ریاستی اداروں، پارلیمان، سیاسی جماعتوں، میڈیا، عوام اور خصوصاً نئی نسل پر یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی کہ قیامِ پاکستان کے قیام کے چار عناصر دو قومی نظریہ، مسلم لیگ، قائداعظم کی راست باز قیادت اور برصغیر کی بے باک (آزاد نہیں) مسلم صحافت تھے۔ وہ مسلم صحافت جس نے فرنگی دور کی پالیسی کے برعکس مطلوب درجے کی جرأتِ اظہار سے نظریے، مسلم لیگ اور قائد اعظم کی معاونت بھرپور استدلال و اخلاص سے کی۔ انہی چار عناصر کی بدولت پاکستان قائم ہوا۔

وائے بدنصیبی، قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے انتقال اور شہادت کے بعد کوئی بھی تو ایسا قائد قوم کو نصیب نہ ہوا جو مقاصد قیامِ پاکستان کے حصول کا اہل اور بمطابق اتنا ہی دیانتدار اور باصلاحیت ہوتا۔

خود مسلم لیگ اور دوسری جماعتیں محض اقتدار کی ہوس میں بیمار ہو گئیں۔ لے دے کر قوم کی ایک ہی متاعِ عزیز کسی نہ کسی درجے پر موجود رہی، اس میں اتار چڑھائو آتا رہا۔

پاکستان کے ہر عشرے کی تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کی ہر نوع کی آمریتوں کے مقابل اپنی آزادی کے تحفظ میں جدوجہد کرتی بے باک صحافت اپنی جدوجہد سے حاصل آزادی یا جرأتِ اظہار سے حکومت اور قوم دونوں نے روایتی پیشہ ورانہ خدمات سے ہٹ کر سیدھے راستے پر چلانے اور رکھنے، سیاسی بیداری، جمہوریت کے تحفظ، مقاصدِ پاکستان کے فروغ، دفاعِ وطن، اطلاعات کے علاوہ تفریح و تعلیم عامہ کی فراہمی کیلئے جوبیش بہا خدمات انجام دیں وہ ہماری 70 سال کی مختصر لیکن بہت پُرآشوب تاریخ کا سنہری باب ہے۔

تاریخی حقیقت تو یہ ہے کہ قیام پاکستان کے متذکرہ چار عناصر میں سے آزادیٔ صحافت کی نعمت مفقود ہوتے ہوئے اگر بے باک مسلم صحافت کا عنصر، نظریے، جماعت اور قائد کے معاون کے طور پر تمام تر پابندیوں اور جملہ رکاوٹوں سے پوری سرگرمی سے رواں دواں نہ ہوتا تو ’’پارٹیشن آف انڈیا‘‘ کی انہونی ہونی نہ ہوتی۔

’’قیام پاکستان کی ابلاغی معاونت‘‘ تاریخ پاکستان کا بہت مفصل اور قابل فخر سنہری باب ہے۔ اسکی تاریخی اہمیت کو سمجھ کر ہماری نئی نسل اس قابل ہوگی کہ وہ پاکستان کو قائد و اقبال کی جہد اور خواب کے مطابق اسلامی جمہوریہ بنانے کے قابل ہو۔

قیام پاکستان کے بعد آنے والی تاریخ میں افسر شاہی، خودغرض و حریص سیاست، مارشل لائوں، سیاست پر خاندانی اجارہ داری، عدلیہ کے گرتے معیار اور نااہل اور طاقتور، افراد کے تابع پارلیمان جیسے بیمار عناصر کے قوام سے بنے اسٹیٹس کو کا حامل جو آج کا پاکستان ہے، وہ ہمارے سامنے ہے۔

اس غیرمطلوب (لیکن پھر بھی کتنے مثبت پہلوئوں کا حامل) پیچیدہ پاکستان کے ہر مثبت پہلو کی تشکیل میں ہماری جزوی آزاد یا خود حاصل کردہ جرأتِ اظہار پر مبنی قومی صحافت کا کردار غالب ہے۔

قومی صحافت کے اس مجموعی کردار اور تاریخی پس منظر میں آج پاکستان کی تیزی سے فروغ پاتی، نئے اور مثبت کردار ادا کرتی قومی صحافت پھر ماضی کے کتنے ہی آمرانہ ادوار کی طرح زیر عتاب ہے۔

مملکت کے سب سے بڑے ابلاغ عامہ کے ادارے جنگ؍ جیو گروپ کے مالک اور ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری جسے حکومت نے ایک بے جرم الزام کا ملزم بنا کر گرفتار کیا ہے، سے خود عمران حکومت ایک بڑی سیاسی و عوامی مجرم اور ’’نیب‘‘ کا تیزی سے رہی سہی ساکھ کھوتا ادارہ پریشر ٹول بن گیا ہے۔

وزیراعظم بھول گئے کہ انہوں نے ’’پاناما لیکس‘‘ کی جس تہلکہ خیز خبر کے دوش پر سوار ہو کر پاپولر نواز حکومت کو اپنے احتسابی ایجنڈے سے ٹھکانے لگانے میں کلیدی کردار ادا کرکے اپنے اقتدار کے حصول کو ممکن بنایا ، وہ جنگ گروپ کے اخبارات دی نیوز اور جنگ نے بریک کی تھی۔

اگر قومی سطح پر ممکن ہونے والے اسٹیٹس کو کے چوٹی کے کرتا دھرتوں کا احتسابی عمل ممکن ہوا تو یہ اسی لئے ہوا کہ جنگ گروپ کے تحقیقاتی رپورٹنگ سیل سے وابستہ رپورٹر عمر چیمہ، انٹرنیشنل یونین آف انویسٹی گیٹو جرنلٹس کے پاکستان میں نمائندہ تھے، انکو اسی حیثیت میں عالمی اسکینڈل کی طویل ترین دستاویزات سے پاکستان سے متعلق حقائق فراہم کیے گئے تو اس خبر کا پاکستان میں مکمل تفصیلات کیساتھ شائع ہونا ممکن ہوا۔

وگرنہ دنیا میں تو یہ جرمن اخبار کے حوالے سے خبر بنی۔ ہمارے ہاں بھی ایسے ہی شائع ہوتی اور بہت جلد بغیر فالو اَپ کے دم توڑ جاتی۔

عمران حکومت اور میر شکیل الرحمٰن کی غیر قانونی گرفتاری کے مرتکب ’’نیب‘‘ کی یادداشت کیلئے، جو خبر دی نیوز اور جنگ میں شائع ہوئی اس میں میر صاحب کا نام بھی ایک نان فنکشنل کمپنی قائم کرنے کے حوالے سے آیا جس پر انہوں نے ازخود نیب کو خط لکھا اور وضاحت کی، مزید تفتیش (اگر مطلوب ہو تو) کی پیشکش کی اور اس ضمن میں تعاون کا یقین دلایا۔

بحیثیت مجموعی پاکستانی موجود سرگرم مین اسٹریم میڈیا کو قومی دفاع اور سلامتی کے لحاظ سے بہت نازک وقت میں اس بری طرح ڈسٹرب کرنا، انتہا کا غیر ذمہ دارانہ حکومتی رویہ ہے۔

اسکے پس منظر میں بدنیتی اور انتقامی حربے کی تیاری بہت واضح ہے۔ بڑا نقصان نیب کے کردار سے اس احتسابی عمل کو ہوا ہے جو شروع ہوا تو نیم مردہ نیب کیلئے مسیحا ثابت ہوا لیکن پھر یہ احتسابی عمل ڈیل، ڈھیل، جیل پھر بیل پر بیل کے دوران چیئرمین صاحب کی متنازع خبروں اور سوشل میڈیا پر اس کے عوامی نوعیت کے چرچے سے اپنا وقار اور اعتبار کھو بیٹھا اور اس کا گراف تیزی سے نیچے آگیا۔

دوسری طرف کرپشن کلچر کو بےنقاب کرنے اور احتسابی ایجنڈے کو عام کرنے پر جنگ و جیو کی تعریف و توصیف میں وزیراعظم کے بیانات کے ریکارڈ سے جنگ؍ جیو کا آرکائیو بھرا پڑا ہے۔

تازہ ترین