• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوں وینزویلا کے صدر ہیوگو شاویز کی ناگہانی موت سے وینزویلا اور لاطینی امریکہ ایک کرشماتی لیڈر سے محروم ہو گیا۔ ہیوگو شاویز وینزویلا کی عوام کی آنکھ کا تارا تھے جن کی موت کے باعث ان کے حامی نہایت سوگوار ہیں۔ 14 سال تک وینزویلا پر حکمرانی کرنے والے شاویز گزشتہ 2 سال سے کینسر کے مرض میں مبتلا تھے اور اس دوران 4 مرتبہ سرجری کے عمل سے گزرے۔ شاویز کے والدین معلمی کے مقدس پیشے سے وابستہ تھے۔ شاویز نے 1975ء میں فوج میں شمولیت اختیار کی اور اپنی صلاحیتوں کی بنا پر بہت جلد فوج میں لیفٹیننٹ کرنل کے اعلیٰ عہدے تک ترقی پائی۔ 1992ء میں ہیوگو شاویز وینزویلا کے سیاسی منظر عام پر اُس وقت سامنے آئے جب ان کی قیادت میں کارلوس حکومت کے خلاف کی گئی فوجی بغاوت ناکام ہوئی جس کے بعد شاویز کو گرفتار کر لیا گیا اور قید کی سزا ہوئی تاہم 2 سال بعد حکومت نے ان کی سزا معاف کر دی۔ رہائی کے بعد شاویز نے ایک سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے اپنی تقریروں میں سیاستدانوں کے کرپشن اور سرکاری رویّے کو تنقید کا نشانہ بناکر وینزویلا کے عوام میں تبدیلی کا جذبہ بیدار کیا۔ اس طرح شاویز1998ء میں صدارتی انتخابات جیت کر تیل کی دولت سے مالا مال ملک وینزویلا کے صدر منتخب ہوئے۔
ہیوگو شاویز خود کو وینزویلا اور لاطینی امریکہ کے دیگر ممالک میں سوشلزم کا علمبردار قرار دیتے تھے۔ انہوں نے اپنے دور اقتدار میں ملک کے غریب عوام کیلئے کئی اصلاحات کیں۔ ہیوگو شاویز کے حامی انہیں غریبوں کیلئے آواز بلند کرنے والا جبکہ ناقدین انہیں آمر قرار دیتے تھے۔ سن 2000ء میں صدر شاویز نے ملک میں ایک نیا آئین متعارف کیا جس سے یہ واضح ہو گیا کہ وہ طویل عرصے تک سیاسی میدان میں رہنے کا ارادہ رکھتے ہیں کیونکہ نئے آئین میں دوبارہ صدر بننے پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ نئے آئین کی ان کے مخالفین نے شدید مخالفت کی جس کے نتیجے میں اپریل 2002ء میں انہیں ایوان صدر سے نکلنا پڑا لیکن صرف 48 گھنٹے کے اندر فوج نے صدر شاویز کو بحال کر دیا۔ ہیوگو شاویز بحال ہوتے ہی اپنے مخالفین کے خلاف سرگرم ہو گئے اور ملک کے روایتی سیاستدانوں، امراء اور بااثر طبقے کو کھل کر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اُن کے اثر و رسوخ کو کم کیا۔
ہیوگو شاویز نے اپنے 14 سالہ اقتدار میں وینزویلا کو ایک غریب ملک سے سماجی طور پر مستحکم ریاست کی شکل دے کر اسے اکیسویں صدی کے سوشلزم کی راہ پر گامزن کیا۔ شاویز نے عوام میں اپنی مقبولیت بڑھانے کیلئے عوامی صحت و بہبود کے کئی پروگرام شروع کئے، مزدوروں کی تنخواہیں کئی گنا بڑھا دیں اور لاکھوں ایکڑ زرعی زمین ہاریوں میں مفت تقسیم کی۔ انہوں نے تیل کی آمدنی سے حاصل ہونے والی خطیر رقوم غریبوں کیلئے رہائشی مکانوں، اسکولوں اور اسپتالوں کی تعمیر، اشیاء کی قیمتوں کو مستحکم کرنے، کسانوں کو مالی امداد فراہم کرنے اور کم آمدنی والے لوگوں کی مدد کرنے پر صرف کر دی جس کے نتیجے میں نہ صرف غریب شہریوں کی زندگی میں بہتری آئی بلکہ غربت کی شرح 81 فیصد سے کم ہوکر22 فیصد جبکہ بیروزگاری کی شرح 15 فیصد سے کم ہوکر 6 فیصد پر آ گئی۔ اس کے علاوہ شاویز نے اپنے دور میں تعلیم کو عام کرتے ہوئے ملک بھر میں بڑی بڑی یونیورسٹیوں کا جال بچھایا جس کے نتیجے میں ملک میں خواندگی کی شرح 97 فیصد تک آ گئی۔ صدر شاویز کی ان غریب نواز پالیسیوں نے غریب اور متوسط طبقے کے ووٹروں میں انہیں بہت مقبول بنا دیا۔ صدر شاویز کی اصلاحات کی غریب طبقے میں بے انتہا پذیرائی کی گئی جنہوں نے2012ء میں شاویز کو مسلسل چوتھی مرتبہ ملک کا صدر منتخب کیا لیکن انتخابات جیتنے کے بعد وہ شدید علیل ہوگئے اور علاج کی غرض سے انہیں کیوبا جانا پڑا۔
ہیوگو شاویز امریکہ کے سخت مخالفین میں شمار کئے جاتے تھے، ان کی امریکہ مخالف ممالک ایران، لیبیا، شام، کیوبا اور شمالی کوریا کے حکمرانوں سے گہری دوستی تھی۔ شاویز ابتدا ہی سے واشنگٹن کی جنگی پالیسیوں پر شدید تنقید کرتے رہے تاہم یہ محاذ آرائی اُس وقت شدت اختیار کر گئی جب انہوں نے 2006ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اپنی تاریخی تقریر کے دوران امریکی صدر بش کو شیطان کہہ کر مخاطب کیا اور کہا کہ ”کل شیطان اس جگہ تقریر کرکے گیا تھا، آج ابھی تک یہاں بارود کی بو آرہی ہے“۔ اس موقع پر انہوں نے امریکہ پر یہ بھی الزام عائد کیا کہ ان کی حکومت کا تختہ الٹنے میں امریکہ کا ہاتھ تھا۔
وینزویلا میں میرے کئی دوست مقیم ہیں جن سے میرے آج بھی روابط ہیں۔ کچھ سال قبل ٹیکسٹائل مشینوں کی خریداری کیلئے میرا وینزویلا جانے کا اتفاق ہوا۔ میں نے وینزویلا کو دو طبقوں میں تقسیم پایا، یہاں کا غریب طبقہ ہیوگو شاویز کو مسیحا اور ہیرو کا درجہ دیتا ہے جبکہ امیر طبقہ انہیں اپنا مخالف تصور کرتا ہے۔ ایک شام جب میں کراکس کے ایک ہوٹل کی لابی میں بیٹھا تھا تو میں نے ہیوگو شاویز کو کسی سیکورٹی یا پروٹوکول کے بغیر ایک عام آدمی کی طرح ہوٹل میں داخل ہوتے دیکھا جو کسی تقریب میں شرکت کیلئے آئے تھے۔ اس طرح مجھے ہیوگو شاویز کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اسی طرح جب 2007ء میں لیبیا پر عائد پابندیاں ختم ہونے کے بعد اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز مجھ سمیت کچھ صنعت کاروں کو اپنے ہمراہ لیبیا کے سرکاری دورے پر لے کر گئے تو ہمارے اعزاز میں لیبیا کے صدر معمر قذافی نے ایک خیمے میں عشایئے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ مجھے اس وقت بڑی حیرت سے دوچار ہونا پڑا جب خلاف توقع صدر قذافی، شوکت عزیز اور ہیوگو شاویز کا ہاتھ تھامے خیمے میں داخل ہوئے۔ اس طرح مجھے ہیوگو شاویز سے مصافحہ کا موقع بھی ملا۔ یہ امر باعث حیرت نہیں کہ ہیوگو شاویز کے ساتھ ملک کے لاکھوں غریب عوام کی ہمدردیاں تھیں جو اُن کی موت کی خبر سنتے ہی سڑکوں پر نکل آئے اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ ان کا کہنا تھا کہ جس مسیحا نے اُن کی زندگی کو خوشحال بنایا آج ان سے جدا ہوگیا ہے۔ ہیوگو شاویز کی موت کے بعد نکولس مادورا جنہیں شاویز کا جانشین کہا جاتا ہے نے قائم مقام صدر کا عہدہ سنبھال لیا ہے اور وینزویلا کے الیکشن کمیشن نے14/اپریل کو ملک میں صدارتی انتخابات کا اعلان کیا ہے تاہم اس بات کا قوی امکان ہے کہ شاویز کی مقبولیت کے باعث نکولس مادورا کو صدر منتخب کرلیا جائے گا لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وینزویلا کا آئندہ صدر، ہیوگو شاویز کی طرح کرشماتی شخصیت کا حامل نہیں ہو سکتا۔ آنجہانی ہیوگو شاویز کی آخری رسومات میں ایران سمیت دنیا کے کئی ممالک کے صدور اور وزرائے اعظم نے شرکت کی مگر افسوس شاید امریکی ناراضی کے ڈر سے پاکستان سے کوئی شریک نہ ہوا۔ پاکستان کے حکمرانوں کو ہیوگو شاویز کی شخصیت اور اُن کی غریبوں کیلئے کی گئیں خدمات سے سبق حاصل کرنا چاہئے، انہیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ عوام انہی حکمرانوں کیلئے روتے اور انہیں یاد کرتے ہیں جو اُن کی زندگی میں بہتری لاتے ہیں۔
تازہ ترین