• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر آپ کو حکومت سے اتنی شکایات ہیں تو آپ اپنی جماعت کو حکومتی اتحاد سے علیحدہ کر لیں، حکومت خود ہی ختم ہو جائے گی کیونکہ عددی اعتبار سے حکومت اتحادی جماعتوں کے بل بوتے پر ہی قائم ہے۔ 

میرے اس سادہ سے مشورے پر وہ مسکرائے اور بولے آپ اتنے بھولے نہ بنیں، آپ کو بھی سب معلوم ہے کہ حکومت گرانا اتنا آسان کام نہیں۔ حکومت میں آتے ہی حکمرانوں کے پاس بہت ساری طاقتیں جمع ہو جاتی ہیں اور جب تک حکمرانوں کو ان کی حمایت حاصل ہوتی ہے حکومت قائم رہتی ہے جس کی اہم مثال سینٹ کے چیئرمین کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد ہے جو اپوزیشن کی واضح اکثریت کے باوجود بری طرح ناکام ہو گئی یعنی ہاتھ اٹھا کر رائے شماری کے عمل میں چیئرمین سینیٹ فارغ ہو چکے تھے لیکن جیسے ہی پرچی کے ذریعے ووٹنگ کا آغاز ہوا چیئرمین سینیٹ باآسانی کامیاب ہو گئے اور اپوزیشن جیتی بازی ہار گئی، لہٰذا ہمیں بھی یہ ڈر ہے کہ ہم حکومت کے اتحاد سے الگ ہوتے ہیں تو حکومت اپوزیشن جماعتوں سے کوئی فارورڈ بلاک تیار کرکے حکومت برقرار رکھنے میں باآسانی کامیاب ہو جائے گی.

اس کے بعد ہمارے خلاف نہ صرف پرانے مقدمے کھل جائیں گے بلکہ نئے مقدمات بھی قائم ہونگے، ہمارے پہلے ہی ہزاروں کارکن پابندِ سلاسل ہیں مزید گرفتاریاں شروع کردی جائیں گی، غرض ہم ابھی نام کے اتحادی ہی صحیح لیکن عتاب سے بچے ہوئے ہیں اور نہیں چاہتے ہماری پارٹی مزید کسی مشکل کا شکار ہو۔ یعنی یہ طے ہے کہ جب تک موجودہ حکومت اقتدار میں ہے آپ اس کے اتحادی ہی رہیں گے؟۔ 

میرے اس سوال پر مسکراتے ہوئے وہ گویا ہوئے، سیاست میں کوئی بات حتمی نہیں ہوتی، ہم بھی وقت کا انتظار کررہے ہیں۔ میں نے موضوع تبدیل کرتے ہوئے اپنے سیاستداں دوست سے سوال کیا کہ جنگ جیو گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کو جس طرح گرفتار کیا گیا ہے اس سے نیب اور حکومت کی عالمی سطح پر جگ ہنسائی ہوئی ہے۔ 

کیا حکومت کے پاس جنگ اور جیو کی آواز کو دبانے کا کوئی اور مناسب طریقہ موجود نہیں تھا؟ میرے تبصرے نما سوال پر سیاستداں دوست بولے، آپ کے ایڈیٹر انچیف کے خلاف موجودہ حکومت کے پاس ایک بڑی چارج شیٹ ہے، آپ کہیں تو میں بیان کردیتا ہوں۔

 میرے اقرار سے پہلے ہی وہ چارج شیٹ بیان کرنا شروع کر چکے تھے۔ وہ بتارہے تھے کہ الیکشن کے بعد جیسے ہی نتائج آنا شروع ہوئے تو سندھ میں کئی نشستوں پر ایسے نتیجے آنے لگے جس کی کسی کو توقع نہ تھی پھر کراچی کی ایک پرانی جماعت کی کئی جیتی ہوئی نشستوں پر نتائج کا اعلان موخر کردیا گیا اور کئی دنوں کے بعد ان نشستوں پر حکمراں جماعت کو فاتح قرار دے دیا گیا۔ 

اس چھوٹے سے ایشو پر آپ کے چینل نے حکومت کے قیام سے قبل ہی واویلا مچانا شروع کردیا جس سے حکمراں جماعت کی جیت کا مزہ ہی خراب ہو گیا۔ پھر پنجاب میں ایک درجن سے زائد ایسی نشستیں جس پر (ن)لیگ کامیابی کا شور مچا رہی تھی ان پر حکمراں جماعت کو فاتح قرار دے دیا گیا اس پر بھی آپ اپوزیشن کی آواز بنے رہے۔ 

پھر آپ کا ادارہ وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف مہم چلا کر صوبائی حکومت کو کمزور کرتا رہا۔ حکومت کے یوٹرن کا مذاق اڑاتا رہا، آپ کا ادارہ چینی اور آٹے کے حوالے سے حکومت پر تنقید کرتا رہا، رانا ثناء اللّٰہ کیا گرفتار ہوئے آپ کے ادارے کی نیندیں حرام ہو گئیں جب تک رانا ثناء اللّٰہ رہا نہیں ہوئے آپ کا ادارہ ان کی بےگناہی کا راگ الاپتا رہا، نواز شریف کو گرفتار کیا گیا تو آپ کے ادارے کو تکلیف رہی پھر ان کی لندن روانی تک حکومت مخالف رویہ اپناتا رہا۔

پشاور میں بی آر ٹی منصوبے پر آپ کا ادارہ واویلا کرتا رہا، پرویز خٹک، اعظم خان اور دیگر رہنمائوں کے نیب کیسز پر آپ کے ادارے کی تکلیف ختم نہیں ہوئی، غرض آپ کے ادارے نے حکومت کو گزشتہ اٹھارہ ماہ میں یکسوئی سے کام ہی کب کرنے دیا ہے لہٰذا کچھ تو حکومت نے کرنا ہی تھا۔ چاہے وہ اشتہارات روک کر آپ کو دبانے کی کوشش کرے یا آپ کے ایڈیٹر انچیف کو گرفتار کرکے دبائو میں لائے۔ 

میرے سیاستداں دوست جب اپنی جانب سے جنگ جیو کے خلاف لگائی جانے والی چارج شیٹ سنا چکے تو میں نے ان سے دریافت کیا یہی تو میڈیا کا کام ہے کہ حکومت کو آئینہ دکھاتا رہے اور اگر آئینے میں اپنا منہ گندا لگے تو حکومت کو اسے صاف کرنا چاہئے، نہ کے آئینہ ہی توڑ دیا جائے۔ 

یہی ادارہ تھا جس نے کپتان کے لیے اربوں روپے کی ٹیلی تھون ٹرانسمیشن کے ذریعے شوکت خانم اسپتال کے لیے فنڈ جمع کرکے دیا۔ اسی ادارے کے پروگراموں نے خان صاحب کو عوامی سطح پر مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ماضی میں کپتان اسی ادارے کے گن گایا کرتے تھے۔ 

ماضی میں کپتان میڈیا کے خلاف جن اقدامات پر سابقہ حکمرانوں پر کڑی تنقید کیا کرتے تھے آج اقتدار میں آکر وہ خود ہی میڈیا خصوصاً اور جنگ جیو کے خلاف وہی اقدامات کررہے ہیں بلکہ سابقہ حکمرانوں سے بھی آگے جاکر جنگ جیو گروپ کے ایڈیٹر انچیف کو ایک بوگس اور بےجان کیس میں گرفتار کر لیا ہے۔ 

جس سے اندرون ملک ہی نہیں بلکہ بیرون ملک بھی نیب، حکومت اور پاکستان کے وقار کو سخت نقصان پہنچا ہے۔ وزیراعظم کو چاہئے کہ اپوزیشن اور میڈیا سے لڑنے کے بجائے اپنی توانائی ملک کی ترقی پر صرف کریں تو نہ صرف آپ کی حکومت پانچ برس مکمل کر سکے گی بلکہ پاکستان بھی ترقی کرے گا، فیصلہ آپ نے کرنا ہے۔

تازہ ترین