• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستانی حالات حاضرہ کے منظر پر فقد ایک ماہ میں تین اہم ترین خبریں نمودار ہوئی ہیں۔ گوادر پورٹ چین کے انتظام میں دینا ، پاک۔ایران گیس پائپ لائن کے معاہدے پر دستخط، پاکستان پر ڈرون حملوں کو بین الاقوامی قانون اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دینا ، ہمارے گہرے قومی مفادات سے وابستہ اہم ترین واقعات ہیں ۔ یہ چاروں خبری موضوعات بحیثیت مجموعی میڈیا میں اپنی اہمیت کے برعکس لو پروفائل میں آئے ہیں۔ وسیع تر قومی دلچسپی کے یہ حساس موضوعات ، میڈیا میں حکومت کی رخصتی ، نگران حکومت کے قیام اور جاتی حکومت کی طرح طرح کی داستان ہائے کرپشن کی خبروں کے رش میں دب کر رہ گئے ۔ یہ صورتحال ہمارے آزاد ، سرگرم اور قومی مسائل پر قابل تحسین پوزیشن لیتے چوکس میڈیا کا خبری کوریج میں واضع عدم توازن ہے ، جو ایک بڑی پیشہ ورانہ خامی کی نشاندہی کر رہا ہے ۔ ملکی سلامتی و خودمختاری ، وسیع تر قومی اقتصادی مفادات اور انگڑائی لیتے خارجی تعلقات کے تناظر میں یہ واقعات اہم ترین ہیں ۔ یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ متذکرہ چاروں واقعات کاحکومت کی آئینی عمر ختم ہوتے ہوتے ایک ہی ماہ میں وقوع پز یر ہونا معنی خیز نہیں ؟ یا یہ فقد ایک اتفاق ہے ؟ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ رخصت ہوتی حکومت گیس پائپ لائن کے معاہدے پر ایران کے ساتھ دستخط کر کے خاموش کیوں کر ہوگئی ؟ اسے تو گہرے عوامی مفاد کے حامل اس معاہدے پر بہت اترانا چاہیے تھا ۔ وہ اس عظیم پر اجیکٹ پر جس طرح چپ سادھے ہو ئے ہے ۔ یہ بھی اپنی جگہ معنی خیز ہے ،حالانکہ اسے لوڈ شیڈنگ کے گناہ کبیرہ کے کفارے کے طور پر اس کا غوغا کرنا چاہیے تھا ۔ کہیں سمندر پار بھاری بھر اکاؤنٹس ڈوبنے کا ڈر تو نہیں ؟ شاید حکومت یہ بھی سمجھ رہی ہو کہ اس نے ایک تیر سے دو شکار کھیلے ۔ یوں کہ ، اس نے عوامی مفاد کا ایک بڑا کارنامہ بھی کر دیا جس کے لیے بر سر اقتدار امریکی مزاہمت کی پرواہ نہ کر نے کی جرات درکار تھی ۔ دوسرے یہ کہ بر سر اقتدار آنے والی امکانی پاپولر جماعتیں حوصلہ کرتے ہوئے حکومت بنا کر اس پراجیکٹ کو جاری رکھنے کا اعلان کرتی ہیں تو انتخاب سے پہلے انہیں امریکی ناراضگی مول لینا ہو گی ۔حکومت بنا کر یہی موقف جاری رکھتی ہیں تو بھی شدید امریکی سفارتی دباؤ کا مقابلہ کرنا پڑے گا ۔ حقیقت یہ ہے کہ گوادر کا انتظام چین کے سپرد کر کے اور پاک -ایران گیس لائن کا معاہدہ کر کے عملاً صدر زرداری نے بال میاں نواز شریف اور عمران خان کے کورٹ میں ڈال دی ہے۔ اب انہوں نے ہی ان موضوعات پر مطلوب رائے عامہ کی تشکیل کے لیے قوم کی کھلی راہنمائی کرنی ہے ۔ اقوام متحدہ کی انسداد دہشت گردی سے متعلق کمیٹی کے بر طانوی سر براہ سپر ین کی رپورٹ آنکھیں کھول دینے والی ہے ۔ یہ عمران خان کے اس جاندار موقف سے یکسر ہم آہنگ ہے جس میں وہ کھل کر ابتداء سے ہی ڈرون حملوں کو پاکستان کی خود مختاری اور آزادی کے خلاف نیز بین الاقوامی قوانین اور بنیاد ی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دے رہے تھے ۔ عمران خان نے یہ جرات مندانہ موقف بھر پور دلائل کے ساتھ اپنے سیاسی ابلاغ میں مسلسل جاری رکھا ۔ قبائلی علاقے جو ڈرون حملوں سے برباد ہوئے اور مقتل بنے ، وہاں جا کر مظاہرہ بھی کیا ۔ یہ تو امر واقعہ ہے کہ قومی اسمبلی کی قرار داد کے باوجود حکومت نہ اپوزیشن مطلوبہ درجے پر حملوں کے خلاف آواز اٹھا سکی ۔ ان کا یہ رویہ ملکی مفاد پر چپ سادھنے اور امریکہ کی ایک سر ا سر اور مسلسل ناجائز بلکہ قابل مذمت کارروائی پر خوف زدہ رہنے کا رہا ۔آج جبکہ اقوام متحدہ نے کھل کر عمران خان کے اختیار کیے گئے موقف سے گہری مماثلت رکھنے والی رپورٹ مرتب کر کے واضح کر دیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ ناانصافی اور ظلم ہو رہا ہے تو کیا ہمارے تمام قومی رہنماؤں خصوصاً صدر آصف زرداری اور میاں نواز شریف میں اتنا حوصلہ ہے کہ وہ اپنی اپنی انتخابی مہم میں ایک مشترکہ کمٹمنٹ بھی کریں کہ وہ بر سر اقتدار آ کر اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق امریکہ کو ہر گز ہر گز ڈرون حملے کر نے کی اجازت نہیں دیں گے (جو رپورٹ کے مطابق پہلے بھی نہیں دی)لیکن امریکہ طاقت کے بل بوتے پر یہ حملے اپنے قومی مفاد کے نام پر جاری رکھتا ہے تو اس کے خلاف پوری دنیا میں سفارتی مہم تو چلائی جائے گی لیکن پاکستان کی تما م سیاسی جماعتیں اپنے یکساں موقف کے مطابق امریکی دباؤ اور طاقت کا مقابلہ جیسے تیسے کریں گی۔ میاں نواز شریف اور عمران خان سے کھلا سوال ہے کہ وہ گوادر پورٹ کو ،انتظام کے لیے چین کے حوالے کر نے پر اپنے کھلے موقف کا اظہار کریں ۔ اسی طرح انہیں اپنی انتخابی مہمات کے ابلاغ میں بالکل واضح کرنا ہو گا کہ موجودہ حکومت نے توانائی کے جاری سنگین بحران ( گو کہ یہ اس کا اپنا ہی پیدا کردہ ہے ) کو کم کر نے لیے ایران سے گیس لائن کے جس معاہدے پر دستخط کیے ہیں ، کیا وہ اس معاہدے پر عملدرآمد کو بغیر کسی دباؤ کی پروا کیے جاری رکھیں گے یا نہیں؟ میاں نواز شریف نے کہا کہ ''وہ اس کا جائزہ لیں گے ''ایک جماعت جو بر سر اقتدار آنے کے لیے پر امید ہے اس کی اتنی سکت ہو نی چاہیے کہ وہ اس کا جلد جائزہ لے کر انتخابی مہم کے دوران اس پر اپنے دو ٹوک موقف کا اعلان کرے وگرنہ خارجہ پالیسی نے جرات مندی اور خود مختاری کے دعوے نہ کیے جائیں ۔ ہماری سیاسی جماعتوں اور میڈیا کو بھی عوام کے ذہنوں میں اٹھتے اس سوال کا جواب بھی دینا ہے کہ پاکستان کو پابندیوں کی دھمکیاں دیتے دیتے اور اقوام متحدہ کی رپورٹ پر چپ سادھنے والا مریکہ ، کہیں گوادر کو چین کے زیر انتظام لانے کا رد عمل تو نہیں دے رہا؟ یہ تجسس اپنی جگہ برقرار ہے کہ متذکرہ چاروں خبریں موجودہ حکومت کے آخری ماہ میں ہی کیوں آئیں ؟
تازہ ترین