• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدیوں کے شعوری سفر سے انسانیت نے یہ سیکھا ہے کہ انسانیت اور حیوانیت میں فرق صرف شعور کا ہے ورنہ کھانے پینے اور جنسی لذتیں اٹھانے میں جانور انسانوں سے زیادہ پیچھے نہیں ہیں۔ یہ عقل و فہم اور شعور کی عظمت ہے جو ہمیں یہ سکھلاتی ہے کہ حیوانیت کے بالمقابل انسانیت کی خصوصیات کیا ہیں۔ 

صدیوں قبل جب دنیا میں حیوانیت کی حکمرانی تھی تو اس جنگلی قانون کی کار فرمائی اندھی طاقت کا مظہر بن کر وارد ہوتی تھی جس کا مقصد ِ اوّلین تھا کہ اپنے سے اختلاف کرنے والوں کو کچل دو۔ 

آمریت، دہشت، جہالت، جبر، انتقام اور نفرت جیسی خصلتوں سے بھرپور تصورات و نظریات اسی حیوانی دور کی پیداوار ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جس طرح انسانی شعور نے بلندی حاصل کرنا شروع کی، علم و آگہی کی روشنی پھیلی تو یہ حیوانی جبلتیں دبتی چلی گئیں اور ان کی جگہ بتدریج جمہوریت، حریتِ فکر، آزادی اظہار، قانون کی حکمرانی، حقوقِ انسانی، مکالمے اور محبت و اخوت نے لے لی۔

تہذیبی سفر کی ابتدا میں علم و عرفان یا فلسفہ و منطق کی روشنی پھیلانے والوں کو نظریہ جبر پر ایمان و یقین رکھنے والوں نے سخت سے سخت اذیتیں دیں اور ناجائز مقدمات بنائے اور سزائیں سنائیں۔ 

جیتے داناؤں کو اس جرم میں پیالہ زہر پینے پر مجبور کیا جاتا رہا کہ یہ نئی نسلوں کو شعور و استدلال کے ساتھ حق سچ کہنے کا حوصلہ کیوں دیتے ہیں سیدنا مسیح ؑ جیسی سوچ کے علمبرداروں کو اس جرم میں صلیبوں پر چڑھائے جانے کا اہتمام کیا جاتا رہا کہ یہ معاشرے کے نام نہاد طاقتوروں کی منافقت ،جھوٹ اور دوغلے پن کو آشکار کیوں کرتے ہیں ۔

آج بلاشبہ جدید ذرائع ابلاغ کے ساتھ شعور کی روشنی پھیلانے والے اچھے خاصے مضبوط ہو چکے ہیں مگر پھر بھی ظلم و جہالت کے پیدا کردہ اندھی طاقت کے اندھیرے ہنوز کئی خطوں سے کافور نہیں ہوئے ہٹلر و مسولینی جیسے انسان نما حیوان تو ابھی کل کی بات ہیں جنہوں نے یورپ جیسے روشن خطے میں بیٹھ کر بظاہر جمہوریت کے لبادے میں فسطائیت و نازی ازم کے جبر کی اندھیر نگری مچائی، ایسی گھناؤنی سوچ کے مکروہ چہرے ہماری انسانیت کی صفوں میں آج بھی موجود ہیں مگر وقت کی اڑائی ہنگامی دھول میں بہت سی عوامی نگاہیں انہیں پہچاننے سے قاصر رہ جاتی ہیں۔ 

ذرا اس کورونا کی گہری و دبیز گرد کو بیٹھنے تو دو ہمارے عوام اس شناسا سیاہی کو پہچاننے میں تاخیر نہیں کریں گے جبکہ یہ درویش چشمِ تصور سے ان لمحات کا نظارہ کر رہا ہے جب سیاہی والے طاقت کے دعویدار چھپنے کے لیے محفوظ مقامات ڈھونڈ رہے ہوں گے ان میں عوام کے سامنے آنے کا یارا نہیں ہوگا۔

جنگ اور جیو کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن محض ایک شخص یا فرد کا نام نہیں ہے، وہ عصرِ حاضر میں علم و آگہی کی روشنی پھیلانے والا مینارہ نور، ایک ادارہ، ایک لائٹ ہاؤس ہیں جس کی کرنیں ہر روز سوئے ہوؤں کو جگاتی اور بےخبروں کو خبردار کرتی ہیں۔ 

میر شکیل الرحمٰن بڑے باپ کا وہ عظیم فرزند ہے جو گزشتہ تین دہائیوں سے ملک کے سب سے بڑے میڈیا ہاؤس کی سربراہی پر فائز ہیں لیکن اتنی عاجزی و فروتنی کہ درویش جیسا عام انسان انہیں ملنے جاتا ہے تو اٹھ کر ملتے ہیں، بات توجہ و انہماک سے سنتے ہیں، دروازے تک چھوڑنے آتے ہیں، کوئی انہیں عزت مآب کہہ کر مخاطب کرتا ہے تو فوراً انکساری کا پیکر بن کر کہا جاتا ہے کہ نہیں برادر آپ مجھے صرف شکیل صاحب یا میر صاحب کہیے۔ 

ہمارے دوست خواجہ افتخار مرحوم ساری زندگی جنگ کے حریف یا بالمقابل ادارے میں رہے، ایک انٹرویو میں جب تقابلی جائزہ لیتے ہوئے میر شکیل الرحمٰن کی شخصیت کا جائزہ لینے کا کہا تو بولے، کوئی تقابل ہی نہیں بنتا، میر شکیل صلاحیتوں کے حوالے سے ہی نہیں انسانیت اور اخلاقیات کی رو سے بھی صحیح معنوں میں بڑے انسان ہیں اور ان میں اپنی بڑائی کا کوئی خبط ہے نہ کسی نوع کی اکڑ۔

سچ تو یہ ہے کہ جو شاخ جھکی ہوتی ہے پھل بھی اُسی کو لگا ہوتا ہے خدا نے انہیں جس شان سے نوازا ہے حاسدوں کے حسد سے وہ کم نہیں ہو سکتی۔ کہنے والے کہتے تھے کہ میں آپ کو چھوڑوں گا نہیں فی الوقت بلاشبہ انہیں جیل کی کال کوٹھری میں بند کر دیا گیا ہے لیکن ہر سیاہ رات کے بعد ایک سحر ہوتی ہے، میر صاحب جلد رہا ہو کر اپنی فیملی کے ساتھ ہوں گے، ان کے ادارے کو پچھلے نمبروں پر ڈالنے والے سوچ لیں کہ جبر کے ان ہتھکنڈوں پر انہیں سوائے شرمندگی و خجالت کے اور کچھ نہ ملے گا۔ 

یاد رہے کہ ظلم کرنے والے تاریخ میں ہمیشہ کے لیے ظالموں کی فہرست میں شمار کیے جاتے ہیں۔ عامۃ الناس تک ہر روز حقائق بلا کم و کاست پہنچانا اور ان میں شعور و آگہی پھیلانا ہی اُن کا اصل جرم ہے۔ یہ آگہی جھوٹ و منافقت کی ملمع کاری کا پردہ چاک کرتی ہے ورنہ دہائیوں قبل کے کیسز ڈھونڈنا اور جعلی مقدمے بنانا اہلِ جبر کے لیے پہلے مشکل تھا نہ اب مشکل ہے۔ 

جھوٹ کی یہی پہچان ہے کہ درد کہیں اور ہوتا ہے بتلایا کہیں اور جاتا ہے ورنہ یہاں درجن بھر نام گنوائے جا سکتے ہیں یہی قانون جب موم کی ناک بن گیا۔یہاں کس میں یارا ہے کہ بی آر ٹی یا فارن فنڈنگ کیس کی پٹاری کھولے یا نشریاتی ادارے پر حملے کی۔ 

غداری جیسے سنگیں ترین جرم کی پاداش میں یہاں اتنی بڑی عدالت ایک مجرم کو شدید ترین سزا سناتی ہے ابھی اس کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوتی کہ اُس بڑی عدالت کو خلافِ قانون قرار دیتے ہوئے سزا کیا اُس عدالت کا بھی تیا پانچہ کر دیا جاتا ہے۔

اول تو یہ الزام ہی مضحکہ خیز ہے کہ آپ 34 برس قبل کا کوئی کھاتہ کھول کر لائیں، دوسرے جب وہ معزز و ذمہ دار شخصیت آپ کے نوٹس پر خود پیش ہو رہی ہے تمام سوالات کا سامنا کر رہی ہے تو پھر گرفتاری کا کوئی جواز کیسے بنتا ہے؟ موبائل فونز اور بیگ پر قبضے کا کیا جواز ہے؟ جیو کو غائب کرنے یا پچھلے نمبروں پر ڈالنے کا کیا جواز ہے؟ 

کیا یہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون ہے؟ کیا پاکستان صحافت کو یوں بےآبرو کرنے کے لیے بنایا گیا تھا؟ یہ تو کھلم کھلا آزادیٔ صحافت پر حملہ ہے۔ شاہ زیب خانزادہ کے منطقی و شعوری سوالات پر انتقامی کارروائی ہے۔ انسانی حقوق اور آزادیٔ اظہار پر قدغن ہے۔ پاکستان کی جگ ہنسائی ہے۔ بہادر شاہ ظفر نے کیا خوب کہا ہے ؎

ظفرؔ آدمی اُس کو نہ جانیے گا

وہ ہو کیسا ہی صاحبِ فہم و ذکا

جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی

جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا

تازہ ترین