• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کسی بھی ملک میں جمہوریت کو صرف اسی صورت میں مضبوط بنیادوں پر استوار کیا جاسکتا ہے جب اس ملک کے تمام بلدیاتی ادارے پوری طرح فعال طریقے سے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہوں۔ قدیم یونان میں جمہوریت کو شہری ریاستوں ہی کی بدولت فروغ حاصل ہوا تھا اور پھر یہ ادارے مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے گئے جن کے ستونوں پر کئی ایک طاقتور ممالک وجود میں آئے اور مہذب ممالک کی پہچان ان ممالک میں موجود جمہوریت ہی سے ہونے لگی۔
موجودہ دور میں بھی وہی ملک ترقی کی جانب گامزن ہیں جہاں جمہوریت نچلی سطح سے اوپر تک پہنچی ہے یعنی پہلے خاندان اور معاشرے میں جمہوری اصولوں پر عملدرآمد کیا جائے گا تو یہی اصول آگے چل کر انسان کو اپنے محلے اور علاقے میں اور پھر قصبے اور دیہات میں بھی جمہوری اداروں کو تشکیل دینے کی جانب راغب کریں گے۔ اگر نچلی سطح پر ملک میں جمہوری ادارے موجود نہ ہوں گے تو وہاں پر جمہوریت کو جاری رکھنا بڑا مشکل ہو جاتا ہے۔ عرب ممالک کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ موجودہ دور میں کئی ایک عرب ممالک ”عرب بہار“ کے جھونکے کو محسوس کررہے ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ ان عرب ممالک میں جمہوریت قائم نہیں ہو پا رہی ہے؟ اس کی سب سے بڑی وجہ ان عرب ممالک میں سے کسی ایک میں بھی نچلی سطح پر یعنی علاقائی یا بلدیاتی سطح پر جمہوریت کا موجود نہ ہونا ہے۔ ان عرب ممالک میں جمہوریت کے قیام کے لئے پہلے نچلی سطح پر جمہوری بنیادوں کو استوار کرنا ہوگا اور اس کے بعد ہی کہیں عرب ممالک میں جمہوری ادارے قائم ہو سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہمارے سامنے مصرکی مثال موجود ہے۔ مصر میں طویل ڈکٹیٹر شپ کے بعد جمہوریت قائم ہوئی ہے لیکن یہ جمہوریت ریت کی دیوار کی مانند دکھائی دیتی ہے اور کسی وقت بھی شدید طوفان یا آندھی کے سامنے گر سکتی ہے۔ پچھلے دنوں مصر میں ہونے والے مظاہروں سے بھی یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ جمہوریت کی بساط کو کسی وقت بھی لپیٹا جاسکتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ مصر میں نچلے درجے پر علاقائی یا پھر بلدیاتی سطح پر جمہوری اداروں کا موجود نہ ہونا ہے۔ ادھر شام میں مطلق العنانیت کے خاتمے کے لئے جنگ کا سلسلہ جاری ہے لیکن جنگ میں ملوث مخالفین جمہوری اصولوں سے نابلد ہیں اور یہی صورتحال کم و بیش لیبیا میں بھی ہے جہاں قذافی کو ہٹائے جانے کے باوجود ملک جمہوری راہ پر گامزن نہیں ہوسکا ہے۔ وجہ بالکل عیاں ہے کہ عرب ممالک میں جمہوریت کی بنیادیں ہی موجود نہیں ہیں۔ عرب ممالک کو ابھی جمہوریت کو سمجھنے اور اس سے آگاہی حاصل کرنے میں وقت لگے گا کیونکہ جمہوریت اوپر سے نہیں تھونپی جا سکتی اسے ایک پودے کی مانند جڑوں پر کھڑا ہوتے ہوئے ایک تناور درخت بننے کے لئے وقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ مصر کے صدر محمد مرسی کو عوامی اکثریت حاصل کرنے کے باوجود شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ اس کے برعکس ترکی جہاں پر اگرچہ فوج نے طویل عرصے تک اپنی حاکمیت قائم کئے رکھی ہے، جمہوریت مضبوط بنیادوں پر استوار ہے اس کی وجہ ترکی میں علاقائی اور بلدیاتی اداروں کا طویل عرصے سے بڑے فعال طریقے سے عوامی خدمات کو جاری رکھنا ہے۔ ان بلدیاتی اداروں میں خدمات سرانجام دیئے جانے کی وجہ سے یہ ادارے کئی ایک سیاستدانوں کے لئے نرسری ثابت ہوئے اور انہوں نے جمہوریت کی ابتدائی ٹریننگ یہاں سے ہی حاصل کی اور پھر ملک کی سیاست میں انہوں نے بڑا نمایاں کردار ادا کیا۔ بلاشبہ ان اہم سیاستدانوں میں وزیراعظم رجب طیب ایردوان کو الگ ہی مقام حاصل ہے۔
ترکی کے وزیراعظم رجب طیب ایردوان نے اپنی سیاست کا آغاز استنبول بلدیہ کے میئر کی حیثیت سے کیا۔ وہ جب استنبول بلدیہ کے میئر منتخب ہوئے تو اس وقت استنبول دنیا کے ان گنے چنے شہروں میں سے ایک تھا جہاں مافیا نے ڈھیرے لگا رکھے تھے اور یہ شہر لاطینی امریکی ممالک کے شہروں کی مانند شہر ہی دکھائی دیتا تھا۔ یہ شہر گنجان آباد ہونے کے باعث جرائم پیشہ لوگوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا اور ایسے لگتا تھا جیسے یہ شہر لاطینی ممالک کا کوئی شہر ہو۔ ان حالات میں ایردوان نے استنبول بلدیہ کے میئر کے طور پر فرائض سنبھالے تھے۔ ایردوان نے استنبول بلدیہ کے میئر ہونے کے دور میں استنبول شہر کا رنگ و روپ تبدیل کر کے رکھ دیا۔ تنگ گلیوں اور سڑکوں اور گاڑیوں کی تعداد میں ہونے والے اضافے کی وجہ سے شہر کی ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو چکا تھا اور ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لئے گھنٹوں بسوں کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ ایردوان نے میئر کا عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد ہی شہر میں ٹریفک نظام کی طرف خصوصی توجہ دی اور بڑی سرعت سے شہر کے ٹریفک کے نظام کو بہتر بنانے میں کامیابی حاصل کی تھی، انہی کے دور میں استنبول میں پانی کے مسئلے کو حل کیا گیا۔ ایردوان نے جب استنبول بلدیہ کے میئر کی حیثیت سے فرائض سنبھالے تھے تو اس وقت یہ شہر دو بلین ڈالر کے قرضے تلے دبا ہوا تھا۔ ایردوان نے اپنے میئر ہونے کے دور میں مختلف مدوں سے حاصل کردہ آمدنی سے اس شہر کے قرضے کو نہ صرف ختم کیا بلکہ اپنے اسی دور میں شہر کی تعمیر نو کے لئے چار بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرتے ہوئے ترکی میں بلدیاتی اداروں کے لئے ایک نیا باب رقم کیا تھا اور دیگر شہروں کے میئروں نے بھی انہی کو رول ماڈل بناتے ہوئے اپنے اپنے شہروں میں سرمایہ کاری کا آغاز کیا۔ ایردوان نے جس طریقے سے استنبول کے عوام کی خدمت کی اس سے ان کی شہرت کو مزید چار چاند لگ گئے۔ استنبول شہر کی قسمت تبدیل ہونے پر ترکی بھر کے عوام اب ایردوان کو ملکی سیاست میں دیکھنا چاہتے تھے تاکہ ان کی خدمت صرف ایک شہر تک محدود نہ رہے بلکہ پورا ملک ان کی خدمات سے استفادہ کر سکے اور ہوا بھی یوں کہ ایردوان نے ایک شہر کی قسمت بدلنے کے بجائے پورے ملک کی کایا پلٹنے کو ترجیح دی اور یوں انہوں نے بلدیاتی سیاست سے ملکی سیاست میں قدم رکھا۔
پاکستان میں اگرچہ گزشتہ پانچ سال سے جمہوریت کی ٹرین پٹڑی پر چل رہی ہے لیکن بدقسمتی سے ٹرین کے انجن کی حیثیت رکھنے والے بلدیاتی اداروں کی طرف وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومتوں نے بھی ذرہ بھر بھی کوئی توجہ نہیں دی ہے۔ اگر وہ جمہوریت کی اس گاڑی کے انجن کو ٹھیک رکھتے اور اس کی طرف بھرپور توجہ دیتے تو ملک میں ان حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جس کا اب کرنا پڑ رہا ہے۔ بلدیاتی ادارے کسی بھی ملک میں مقامی اور علاقائی آبادیوں کے رہن سہن ، گلی کوچوں ، سڑکوں ،ٹریفک ، آمدو رفت، رسل و رسائل ، نکاسی آب ، پلوں، پانی گیس کی فراہمی اور شہر کی صفائی ستھرائی کے لئے قائم کئے جاتے ہیں تاکہ مقامی لوگ خود ہی اپنی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے یہ خدمات سرانجام دیں۔ لوکل باڈیز دراصل مقامی باشندوں کی اپنے ہی علاقے کو بہتر بنانے کے نظام ہی کا دوسرا نام ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں پچھلے پانچ سالوں کے دوران بلدیاتی اداروں کو فعال بنانے، منظم کرنے اور چلانے کی جانب کوئی توجہ ہی نہیں دی گئی ہے۔ اراکین پارلیمینٹ اور سینیٹرز جن کا کام قانون سازی ہے نے قانون سازی کے بجائے گلیوں نالیوں کی صفائی کرانے کے لئے ڈویلپمنٹ فنڈ حاصل کرتے ہوئے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے وقار میں اضافہ کرنے اور اپنے اپنے علاقوں کو خوبصور ت بنانے کے بجائے قومی اسمبلی اور سینیٹ پر دھبہ لگانے کے ساتھ ساتھ اپنے علاقوں کے ترقیاتی فنڈز جیب میں ڈالتے ہوئے عوام کو ہر طرح کی سہولتوں سے محروم رکھا ہے۔ بلوچستان میں ایک ایک سینیٹر اور رکن پارلیمینٹ کو پچیس سے پینتیس کروڑ روپے کے ترقیاتی فنڈز دیئے گئے۔ کیا یہ فنڈز کسی بھی حلقے میں استعمال کئے گئے ہیں؟ صرف پنجاب میں شہباز شریف کی ذاتی کاوشوں کے نتیجے میں یہ فنڈز استعمال ہوتے ہوئے دکھائی دیتے( لیکن ترقیاتی فنڈز استعمال کرنے کا حق اراکین پارلیمینٹ کو نہیں بلکہ بلدیاتی اداروں کا ہونا چاہئے) ہیں ورنہ وہاں بھی حالات دیگر صوبوں سے مختلف نہ ہوتے اراکین پارلیمینٹ نے ترقیاتی فنڈز حاصل کرتے ہوئے قوم کو مایوس کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا ہے۔ اگر ملک میں بلدیاتی ادارے فعال طریقے سے اپنے فرائض ادا کررہے ہوتے تو قومی اسمبلی کے اراکین اور سینیٹرز کو شہروں کی ترقیاتی فنڈز جیبوں میں ڈالنے کا موقع ہی نہ ملتا اور نہ ہی حکومت ڈویلپمنٹ فنڈز کی رشوت کے طور پراستعمال کرتی۔
اگر ملک میں بلدیاتی ادارے کام کر رہے ہوتے تو میٹرو بس صرف لاہور شہر تک ہی محدود نہ رہتی اور نہ پنجاب کے وزیراعلیٰ اپنی تمام تر رعنائیاں صرف اسی منصوبے کے لئے صرف کرتے بلکہ پاکستان کے تمام بڑے بڑے شہروں کے درمیان میٹرو بس سروس کے ساتھ انڈرگراؤنڈ ریلوے لائن بچھانے کا صحت مندانہ مقابلہ ہوتا جو ملک کو ترقی کی جانب گامزن کرتا۔ اگر بلدیاتی ادارے صحیح طریقے سے کام کرتے رہیں تو مستقبل میں صوبائی اسمبلیوں کی بھی ضرورت محسوس نہ ہو بلکہ شہروں ہی کی مقامی اسمبلیاں یہ فرائض ادا کر سکیں اور ملک صوبائی تعصب، صوبائی اسمبلیوں اور صوبائی وزراء کے اخراجات کے بوجھ سے بھی بچ سکتا ہے۔
تازہ ترین