• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں کافی دیر سے اس انتہائی خوبصورت اور گول مٹول جاپانی بچے کو دیکھ رہا تھا جو پارک میں دیگر بچوں کو کھیلتا دیکھ کر تالیاں بجا کر خوشی کا اظہار تو کر رہا تھا لیکن خود بچوں کے ساتھ کھیل میں شامل نہیں ہورہا تھا۔ بچے کی عمر کوئی چار سال کے لگ بھگ ہی ہوگی جبکہ بچے کے والدین بھی ساتھ ہی بیٹھے دیگر بچوں کو کھیلتا دیکھ رہے تھے لیکن ایک عجیب سی اداسی ان کے چہرے پر واضح تھی۔ میں ابھی اس فیملی کو دیکھ ہی رہا تھا کہ بچے سے برداشت نہ ہوسکا اور وہ دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل میں شامل ہونے کے لئے اپنی جگہ سے اٹھ کر دوسرے بچوں کی جانب چلا ہی تھا کہ چند قدم چلتے ہی وہ گر کر بے ہوش ہو چکا تھا میرے لئے یہ انتہائی حیران کن بات تھی کہ اچانک بظاہر صحت مند نظر آنے والے بچے کو کیا ہوگیا ہے۔ بچے کے والد نے بچے کو گود میں اٹھایا اور پارکنگ کی جانب بھاگے جبکہ بچے کی والدہ آنسوؤں کے ساتھ اپنے شوہر کے ساتھ چل پڑیں، پارک میں ہی موجود ایک جاپانی دوست نے بتایا کہ بچہ تھیلیسیمیا کا مریض ہے جسے باقاعدگی سے خون کی ضرورت رہتی ہے باوجود اس کے جاپان میں تھیلیسیمیا کا مرض نہ ہونے کے برابر ہے تاہم اب بھی اکا دکا واقعات نظر آتے رہتے ہیں۔ مجھے اس معصوم سے بچے کو تھیلیسیمیا کی بیماری میں مبتلا ہونے کا سن کر انتہائی صدمہ پہنچا تھا کیونکہ میرے بیٹے کی عمر بھی لگ بھگ اسی بچے کے برابر تھی اور اس چھوٹے سے بچے کی تکلیف مجھے اپنی تکلیف محسوس ہورہی تھی۔ اس عمر کے بچوں کو تو کھیلنے کودنے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن تھیلیسیمیا کے مرض کا شکار اس بچے کو ہر بیس دن بعد خون کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ ایک نہ ختم ہونے والی بیماری ہے جو تھوڑی سی غفلت اور لاپروائی کے سبب ہی دنیا میں آنے والے بچوں میں ماں باپ سے منتقل ہوجاتی ہے۔
اس روز اس معصوم بچے کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ کافی عرصے سے میرے دل و دماغ میں چھایا ہوا تھا کہ گزشتہ دنوں ایک جاپانی وفد کے ساتھ کراچی آنے کا اتفاق ہوا جہاں کراچی چیمبر آف کامرس کے صدر ہارون اگر سے ہونے والی ملاقات کے موقع پر چیمبر آف کامرس کے متحرک رکن عتیق الرحمن نے تھیلیسیمیا کے مریضوں کا مفت علاج کرنے والے ادارے افضال میموریل تھیلیسیمیا فاؤنڈیشن کے دورے کی دعوت دی اور اس دعوت کا اس قدر فالو اپ کیا کہ جاپانی وفد کو بھی اپنی دیگر مصروفیات منسوخ کرکے اس فاؤنڈیشن کے دورے کے لئے وقت نکالنا پڑا۔ اگلے روز جب کراچی کے علاقے فیڈرل بی ایریا میں واقع افضا ل میموریل تھیلیسیمیا فاؤنڈیشن اسپتال پہنچے تو ایک بار پھر چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کو خون ٹرانسپلانٹ ہوتا دیکھ کر دل کرچی کرچی ہوگیا ، ان معصوم بچوں جن کی عمر کھیلنے کودنے، گھومنے پھرنے اور اسکول جانے کی تھی وہ اپنے والدین کے ساتھ اسپتال میں خون ٹرانسپلانٹ کروارہے تھے۔ مجھ سے ان بچوں کے والدین کا تکلیف دہ چہرہ بھی نہیں دیکھا جارہا تھا، جو ہر دو سے تین ہفتے بعد اپنے معصوم بچوں کو لیکر خون ٹرانسپلانٹ کرانے آتے ہیں، یہ معصوم بچے ایک ایسے مرض میں مبتلا تھے جو کبھی ختم نہیں ہوتا اور ان کے والدین ایسی تکلیف میں مبتلا تھے جو کبھی ختم نہیں ہوسکے گی، ان تمام تکالیف کے باوجود میں اور میرے ساتھ آنے والے جاپانی وفد کے ارکان تھیلیسیمیا کے شکار بچوں کی بیماری کا مفت علاج کرنے والی اس فاؤنڈیشن کے اسپتال اور اس کے پُرجوش ڈاکٹروں اور اسٹاف کو دیکھ کر انتہائی خوش تھے کہ ان معصوم بچوں کو ایسے مسیحا میسر تھے جو اس مشکل وقت میں ان کے ساتھ کھڑے تھے، جاپانی وفد کے لئے خوشی کی بات یہ تھی کہ اس فاؤنڈیشن کو جاپانی حکومت نے تھیلیسیمیا کے مریضوں کے لئے لاکھوں ڈالر کا پانچ بستروں پر مشتمل جدید ترین آئی سی یو تحفے کے طورپر دیا ہے جبکہ جاپانی حکومت نے خون کے ٹیسٹ کے لئے جدید ترین مشینیں بھی عطیے کے طور پر دی ہیں۔
اسپتال کے معائنے کے بعد اب ہم کانفرنس روم میں آچکے تھے جہاں فاؤنڈیشن کے صدر اقبال پان والا ،ٹرسٹ کے سی ای او ڈاکٹر عاصم قدوائی ،ایڈوائزری بورڈ کے رکن عتیق الرحمن سمیت کئی سینئر ڈاکٹرز اور ٹرسٹ کے ارکان موجود تھے، جو جاپانی وفد کو فاؤنڈیشن کے حوالے سے معلوماتی پریذنٹیشن دینے والے تھے، ٹرسٹ کے سی ای او ڈاکٹر عاصم قدوائی جنہوں نے اپنی زندگی تھیلیسیمیا میں مبتلا بچوں کے علاج کے انتہائی اہم مقصد کے لئے وقف کررکھی ہے نے ٹرسٹ کے حوالے سے پریذنٹیشن دیتے ہوئے بتایا کہ تھیلیسیمیا سے متاثرہ بچوں کے مفت علاج معالجے کے لئے اس ٹرسٹ کا قیام 2003ء میں عمل میں لایا گیا تھا جس کا مقصد تھیلیسیمیا سے متاثرہ بچوں کو مفت علاج کی سہولت فراہم کرنا ہے اس وقت اس ادارے کو محتلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اور کاروباری اداروں کے مالی تعاون سے چلایا جارہا ہے ڈاکٹر عاصم قدوائی بتارہے تھے کہ یہ بات ثابت شدہ ہے کہ موثر آگہی کے ذریعے اس بیماری سے بچا جاسکتا ہے اور اس مقصد کے لئے حکومتی سطح پر آگہی کا باقاعدہ پروگرام متعارف کرانے کی ضرورت ہے جس میں میڈیا انتہائی اہم کردار ادا کرسکتا ہے، ڈاکٹر عاصم قدوائی بتارہے تھے کہ تھیلیسیمیا خون کی ایک موروثی بیماری ہے جو والدین سے بچوں میں منتقل ہوتی ہے، اس مرض میں بچوں میں خون بنانے کی صلاحیت بہت کم ہوتی ہے یا بالکل ہی نہیں ہوتی جبکہ خون میں ہیموگلوبین کی مقدار انتہائی کم ہوتی ہے جس کے لئے خون میں ہیموگلوبین کی سطح برقرار رکھنے کے لئے انتقال خون انتہائی ضروری ہوتا ہے اور ہماری فاؤنڈیشن بنیادی طور پر تھیلیسیمیا سے متاثرہ ایسے ہی بچوں کو انتقال خون کی سہولت بلامعاوضہ فراہم کرتی ہے جبکہ جو غریب والدین کراچی سے باہر سے آتے ہیں ان کو ہماری فاؤنڈیشن آنے جانے کا ٹکٹ بھی فراہم کرتی ہے جبکہ وہ والدین جو عام دنوں میں ملازمت کی وجہ سے انتقال خون کے لئے اپنے بچوں کو نہیں لاسکتے ان کو ہماری فاؤنڈیشن اتوار کے روز یہ سہولت فراہم کرتی ہے۔ ڈاکٹر عاصم قدوائی نے مزید بتایا کہ ہماری فاؤنڈیشن میں آنے والے مریضوں کو مہمانوں کی طرح ٹریٹ کیا جاتا ہے، بچوں اور ان کے والدین کو علاج کے دوران بہترین کھانا بھی فراہم کیا جاتا ہے جبکہ ہماری فاؤنڈیشن میں تھیلیسیمیا سے متاثرہ بچوں کو جو طبی خدمات فراہم کی جاتی ہیں ان میں انتقال خون ،طبی معائنہ ،مریضوں کے داخلے کی سہولت ،چوبیس گھنٹے ایمرجنسی کی سہولت، ویکسی نیشن، فارمیسی، مریض کے اہل خانہ کا بلڈ اسکرینگ ٹیسٹ ، جیسی سہولتیں شامل ہیں جبکہ جاپانی حکومت کی جانب سے پانچ بیڈ کا آئی سی یو بھی ہمارے مریضوں کے لئے ایک اثاثہ ہے جو ہمارے ایڈوائزر عتیق الرحمن کی کوششوں سے جاپانی حکومت نے ہماری فاؤنڈیشن کو فراہم کیا جس سے تھیلیسیمیا کے شکار بچوں کی زندگی بچانے میں انتہائی اہم مدد حاصل ہوئی جس کے لئے ہم جاپانی حکومت اور عوام کے شکر گزار ہیں۔
ڈاکٹر عاصم کی خاموشی کے ساتھ ہی میرے ساتھ بیٹھے جاپانی شینا اوزاوا نے ڈاکٹر عاصم سے سوال کیا کس طرح اس بیماری سے اپنی آنے والی نسلوں کو بچایا جاسکتا ہے یا کس طرح یہ بیماری پیدا ہونے والے بچوں میں منتقل ہونے سے روکی جاسکتی ہے جس کے جواب میں ڈاکٹر عاصم قدوائی نے بتایا کہ اگر شادی سے قبل ایک تھیلیسیمیا اسکرینگ ٹیسٹ کرالیا جائے اور تھیلیسیمیا میجر کے مریض مرد کی تھیلیسیمیا میجر خاتون سے شادی کو روک دیا جائے، تھیلیسیمیا میجر کا مرض بچوں میں منتقلی سے روکا جاسکتا ہے کیونکہ تھیلیسیمیا میجر میں ہی انتقال خون کی ضرورت ہوتی ہے تاہم عوام میں آگہی کے ذریعے اس بیماری کو آنے والی نسلوں میں منتقلی سے روکا جاسکتا ہے، تھیلیسیمیا کی علامات کے حوالے سے میرے ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر عاصم قدوائی نے بتایا کہ آہستہ نشو ونما ہونا ،خون کی کمی ،ہڈیوں کی مناسب نشوونما نہ ہونا،ہڈیوں کے گودے کا ختم ہونا،زرد رنگت ،کمزوری اور تھکاوٹ ،یرقان کی علامت ،سانس کا تیز ہونا،باربار بخار آنا ،ان علامات میں شامل ہے جو تھیلیسیمیا ظاہر کرتی ہیں، اپنے مستقبل کے منصوبوں کے حوالے سے ڈاکٹر عاصم قدوائی نے بتایا کہ ان کی فاؤنڈیشن نے تھیلیسیمیا کے مکمل اسپتال کے لئے زمین کی خریداری، لیبارٹری میں توسیع،کلینک برائے امراض قلب ،انتہائی نگہداشت کا یونٹ اور شعبہ برائے کفالت مریض ہمارے مستقبل کے منصوبوں میں شامل ہے جس کے لئے قومی اور بین الاقوامی اداروں کی امداد کی ضرورت ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ بلاشبہ اس خطرناک بیماری میں مبتلا بچوں کی مدد کرکے ہم سب اپنی آخرت سنوار سکتے ہیں اور قابل تحسین ہیں وہ لوگ جو اس فاؤنڈیشن کی مدد میں مصروف ہیں،جاپانی وفد نے بھی فاؤنڈیشن کی مدد کا وعدہ کیا۔ واپسی کے وقت میں نے کافی دیر سے خاموش کھڑے فاؤنڈیشن کے صدر اقبال پان والا سے پوچھا آپ کیوں اتنے خاموش کھڑے ہیں تو ان کے جواب نے مجھے بھی لاجواب کردیا۔ اقبال پان والا بولے میں نے اپنی زندگی تھیلیسیمیا سے متاثرہ بچوں کے لئے وقف کردی ہے اور اس کے صلے میں اپنے پروردگار سے اپنی آخرت سنوارنے کی دعا اور تمنا کرتا ہوں لہٰذا دنیاوی تعریفوں سے مجھے اپنی کاوشیں کمتر محسوس ہوتی ہیں اسی لئے میں خاموشی سے اپنے کام میں مگن رہنے کو ترجیح دیتاہوں۔ میں سوچ رہا تھا ایسے اور کتنے لوگ ہوں گے جو اللہ کے بندوں کی مدد کرکے اللہ تعالیٰ سے صلے کی توقع رکھتے ہوں،کیا ہم میں سے ہے کوئی ایسا۔
تازہ ترین