• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد ہائیکورٹ کا حکم نامہ، کہ جیو نیوز کو پرانے نمبروں (یعنی میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری سے پہلے والی پوزیشن) پر بحال کیا جائے، آزادیٔ اظہار کے حوالے سے اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ جنگ/ جیو گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کو جمعرات 13؍مارچ 2020کو 34؍سال پرانے واقعہ پر، جس کی ابھی تک تفتیش بھی نہیں ہوئی، قومی احتساب بیورو (نیب) نے قانونی تقاضے پورے کئے بغیر ایسے انداز میں گرفتار کیا جسے نیب کی آزادانہ و غیرجانبدارانہ حیثیت سے متعلق سامنے آنے والے بعض سوالات کی روشنی میں دیکھا جائے تو بہت کچھ آشکار ہو جاتا ہے۔ نیب کی طرف سے کی گئی کارروائی اس کے اپنے قوانین، دستور پاکستان میں دیے گئے بنیادی حقوق اور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کی صریح خلاف ورزی پر مبنی ہے اور باوجود یکہ میر شکیل الرحمٰن نیب کے بلانے پر حاضر ہو رہے تھے اور سوالات کے مکمل جوابات دے رہے تھے، دوسری پیشی پر جس عاجلانہ انداز میں انہیں گرفتار کیا گیا اس سے جنگ/ جیو گروپ سے وابستہ تمام ارکان و کارکنان ہی نہیں ملک بھر کی اخباری برادری پر واضح ہو گیا کہ قومی احتساب بیورو اپنے طرزِ عمل، طرزِ تفتیش اور پراسیکیوشن کے طریقوں پر کوئی تنقید برداشت کرنے اور کوئی مشورہ سننے کا روا دار نہیں۔ بات یہیں نہیں رکتی بلکہ متعدد علاقوں میں کیبل آپریٹروں پر دبائو ڈال کر جس انداز سے جیو چینل کو بند کرنے یا اس کو اصل نمبروں سے (جن پر ناظرین اس چینل کو دیکھنے کے عادی ہیں) ہٹا کر کہیں آخر میں ڈال کر گمشدہ کرنے کے ایسے واقعات سامنے آئے جنہوں نے عام لوگوں کو ششدر کرکے رکھ دیا۔ ان واقعات کو حکومت کے ایک وزیر کے بیان کے ساتھ ملاکر دیکھا جائے تو اب تک کئے جانے والے نیب کی آزادی کے دعووں کی قلعی کھل جاتی ہے۔ نیب کے مذکورہ اقدام کے حوالے سے حیرت اس امر سے ہے کہ 34؍برس پہلے کئے گئے پراپرٹی کے ایک سودے میں کسی فرد کو مورد الزام ٹھہرانے کا کوئی موقع تلاش کر ہی لیا گیا تھا تو اس صحافتی ادارے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کیوں کی گئی جس کی غیرجانبدارانہ رپورٹنگ اور فریق ثانی کا نقطہ نظر شائع اور نشر کرنے کی روایت کی دنیا معترف ہے۔ پچھلے 19؍ماہ سے جاری میڈیا کے مالی بحران کا عقدہ بھی پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن، آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی اس وضاحت سے کھل جاتا ہے کہ میڈیا کے 6؍ارب روپے کے بقایاجات حکومت نے روک رکھے ہیں جن میں سے تین ارب روپے کے بقایاجات تصدیق شدہ و آڈٹ شدہ ہیں۔ ان بقایا جات کی عدم ادائیگی نے اشتہارات کے بارے میں حکومتی پالیسی کے ساتھ مل کر شدید مالی بحران کی ایسی کیفیت پیدا کردی جس کے باعث میڈیا انڈسٹری کے ہزاروں افراد بے روزگار ہوئے۔ پاکستانی صحافت کا یہ بحران ماضی کے تمام بحرانوں سے سنگین تر ہے مگر ان شاء اللہ اس بار بھی صحافتی اداروں کے مالکان اور کارکن مل کر اظہارِ رائے کی آزادی سمیت جمہوری اقدار پر قدغن لگانے کی کوششوں کو ناکام بنادیں گے۔ اس باب میں ملک بھر میں جاری احتجاج کی لہر اور بیرون ملک سے آنے والے حکومتی و ادارہ جاتی بیانات کے سلسلے کے ساتھ عدالتی سطح پر کارروائی بھی جاری ہے جس کا ایک اظہاریہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جاری کردہ حکمنامے کی صورت میں سامنے آچکا ہے جبکہ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس عاصم حفیظ بھی جنگ/ جیو کے سرکاری اشتہارات کی بندش سے متعلق مقدمہ میں وفاقی اور پنجاب حکومت سے سرکاری اشتہارات کی تقسیم کا میکنزازم اور پچھلے دس برس کے دوران سرکاری اشتہارات کی تقسیم سے متعلق ریکارڈ طلب کرچکے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ پی ٹی آئی حکومت ملک کی تاریخ کے موجودہ مرحلے پر بھی جمہوری روایات کی تاریخ میں کسی بہتر مقام کے حصول کی ضرورت نظرانداز نہ کرے۔

تازہ ترین