• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم آج کل انواع و اقسام کے امراضِ خوف میں مبتلا ہیں۔ اندر کے پھٹ کھل جانے کا خوف، باہر کا خوف اور اقتدار سے محروم ہو جانے کا خوف، تیغِ انتقام سے کٹ جانے کا خوف اور کورونا وائرس سے موت کے جبڑوں میں جکڑے جانے کا خوف۔ وہ زمانہ تو بیت گیا جب ہر کوئی اپنوں جیسی بات کرتا تھا۔ اب تو ایک ایسا زمانہ آیا ہے کہ آپس میں ہاتھ بھی نہیں ملا سکتے اور سلام بھی فاصلے ہی سے کرنے کی اجازت ہے۔ اب سلامتی اِسی میں ہے کہ انسانوں سے سماجی رابطے توڑ دیے جائیں۔ کورونا وائرس نے محلوں، بستیوں، شہروں اور ملکوں کے درمیان فاصلے کی دیواریں کھڑی کر دی ہیں۔ اب تو کالجوں، یونیورسٹیوں اور مدرسوں کے ساتھ ساتھ سرکاری دفاتر بھی بند کیے جا رہے ہیں اور زندگی کو منجمد کر دینے والے تمام طور طریق آزمائے جا رہے ہیں۔ ہوٹل، ریستوران اور کلب ایک بار بند ہو گئے تو ہزاروں لوگ روزگار سے محروم ہو جائیں گے اور معیشت کی رفتار خطرناک حد تک سست پڑ جائے گی۔ اگر انسانوں کے اجتماع پر پابندی کے اصول کا اطلاق ہر جگہ کیا گیا تو کارخانے بھی بند کرنا پڑیں گے۔ یعنی ہماری حکومت اپنے ہی ہاتھوں سے ملکی معیشت کا پہیہ منجمد کر دے گی اور جناب وزیرِاعظم عمران خاں کا یہ خوف درست ثابت ہو گا کہ عوام بھوک سے مرنے لگیں گے۔

بنیادی کام تو وائرس کی مؤثر روک تھام اور حفاظتی تدابیر کا نفاذ ہے۔ اِس بارے میں پاکستان کے چیف جسٹس جناب جسٹس گلزار احمد نے حال ہی میں ایک مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے یہ ریمارکس دیے ہیں کہ حکومت نے کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے ایک بھی قدم نہیں اُٹھایا اور ہم سے عدالتیں بند کرنے کی درخواست کی ہے۔ غائرانہ نگاہ سے دیکھا جائے تو اب تک حکومت کی طرف سے جتنے انتظامات کیے گئے ہیں، اُن سے تدبر اور دُور بینی کے بجائے خوف ٹپک رہا ہے اور زندگی مفلوج ہوتی جا رہی ہے۔ وہ عالی مرتبت اشخاص جن کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور ہے، اُنہوں نے اُمڈتے ہوئے خطرے کی سنگینی کا احساس کرنے کے بجائے اِسے معمول کا واقعہ سمجھا، چنانچہ اعلیٰ سطح پر کسی سنجیدگی کا مظاہرہ ہوا نہ کوئی دور رس منصوبہ بندی کے آثار پیدا ہوئے بلکہ ناتجربہ کاری یا معاشی ہوس نے ایک ایسی حکمتِ عملی اختیار کی جس نے کورونا وائرس کو پاکستان میں اپنے پنجے گاڑنے کا موقع فراہم کیا۔ وفاق یہ کہتا رہا کہ اِس آفت سے نبٹنے کی ذمہ داری صوبوں پر عائد ہوتی ہے جبکہ ایران سے آئے ہوئے زائرین کے پہلے پڑاؤ کا اہتمام بلوچستان کے دور افتادہ اور ہر نوع کی سہولتوں سے محروم سرحدی علاقے تفتان میں کیا گیا۔ کورونا وائرس سے متاثر لوگ ایک ہی جگہ رکھے گئے۔ وفاق اِس حساس معاملے میں ذرا دلچسپی لیتا، تو وہاں فوج یا رینجرز کے زیرِ اہتمام اچھے انتظامات کیے جا سکتے تھے۔ تفتان میں جو بےاحتیاطی ہوئی، اِس کے باعث پاکستان میں متاثرہ افراد کی تعداد تیزی سے پھیلتی جا رہی ہے جس کے باعث وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے عوام کے اندر شدید خوف کا احساس پیدا کیا اور خطرے کی ماہیت کا پوری طرح جائزہ لیے بغیر زندگی کی رونق چھین والے اقدام کرنا شروع کر دیے۔ اب ہر سُو ویرانی بڑھتی جا رہی ہے اور پیداواری ذرائع سمٹتے اور بند ہونے لگے ہیں۔ ہمارے بلند نگاہ شاعر جناب محمود شام نے اِس کیفیت کو اِس شعر میں سمو دیا ہے ؎

عجب مرض ہے جس کی دوا ہے تنہائی

بقائے شہر اب شہر کے اُجڑنے میں ہے

چین کے ہمسایوں نے پورا نظامِ زندگی تلپٹ کیے بغیر اِس وبا پر قابو پا لیا ہے۔ ہانگ کانگ، تائیوان، جنوبی کوریا اور سنگاپور نے جچے تُلے اقدامات کے ذریعے وائرس کی روک تھام کا ایک عظیم کارنامہ سرانجام دیا۔ اُنہوں نے پوری آبادی کو عذاب میں مبتلا کرنے کے بجائے آبادی کے اُس حصے پر خصوصی توجہ دی جس پر وائرس حملہ آور ہو سکتا تھا۔ ساٹھ سال سے نیچے کی آبادی وائرس سے نسبتاً محفوظ ہے، باقی آبادی کو احتیاطی آداب سمجھائے جا سکتے اور بہتر طبی سہولتیں فراہم کی جا سکتی ہیں، چنانچہ اِن ممالک نے سائنٹفک انداز میں وبا کا مقابلہ کیا اور اب وہاں متاثرین کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ چین میں چونکہ یہ وبا ایک شہر سے پھیلی تھی، اِس لیے اُس کا لاک ڈاؤن کیا گیا اور ضرورت کے مطابق سڑکیں اور شہر دھو دیے گئے اور ہڑبونگ کے بجائے زبردست منصوبہ بندی اور سخت نظم و نسق سے کام لیا گیا۔ ہمارا مشورہ ہے کہ وہ پاکستانی زائرین جو ابھی تک ایران میں ہیں، اُنہیں وقتی طور پر چین کے اُن اسپتالوں میں بھجوانے کا معاہدہ کیا جانا چاہئے جو اب مریضوں سے خالی ہو چکے ہیں۔ وہیں سے بڑی تعداد میں وینٹی لیٹرز درآمد کیے جا سکتے ہیں۔

جناب وزیرِاعظم عمران خان کی توقعات کے مطابق پوری قوم کو اِس عالمی وبا کا بےخوفی سے مقابلہ کرنا اور جنگ کو جیتنا ہوگا مگر بدقسمتی سے اِس نازک مرحلے میں نیب نے پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا ہاؤس جنگ اور جیو کے ایڈیٹر اِن چیف میر شکیل الرحمٰن کو گرفتار کر کے پوری صحافتی برادری، جمہوری حلقوں اور سول سوسائٹی میں غیرمعمولی ارتعاش پیدا کر دیا ہے۔ پاکستان کے علاوہ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور دُوسرے ممالک سے صحافیوں اور حکمران شخصیتوں نے اِس گرفتاری پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ نیب کے بارے میں تازہ تازہ سپریم کورٹ نے یہ ریمارکس دیے ہیں کہ وہاں نیت اور صلاحیت کا فقدان ہے۔ اپوزیشن برملا یہ الزام لگا رہی ہے کہ حکومت میڈیا کو سرنگوں کرنے پر تُلی ہوئی ہے جو اسے آئینہ دکھاتا اور جرأت سے اذانِ حق دیتا رہتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایسے معرکے میں اہلِ صحافت کی فتح اور اَربابِ حکومت کی آخرکار شکست ہوتی ہے۔ اِسی بنا پر پاکستان کے عظیم المرتبت سیاستدان جناب چوہدری شجاعت حسین کی طرف سے یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ میر شکیل الرحمٰن جلد رہا ہو جائینگے اور میڈیا کا معاشی قتل کا پورا نظام ایک خوفناک انجام سے دوچار ہو گا اور اہلِ حکومت پر خوف کی دہشت طاری رہے گی جب تک وہ قانون کی بالادستی عملی طور پر قائم نہیں کرتے۔

تازہ ترین