• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ دن بھی دیکھنا تھا۔ یہ کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ کچھ جنگیں دیکھیں، کچھ زلزلے اور سیلاب دیکھے، دہشت گردی دیکھی اور بےگناہوں کا قتل ِ عام دیکھا۔ سوچا تھا کہ بہت ہو گیا۔ کہنے والے کہتے تھے کہ اس کے بعد دنیا ایسی نہیں رہے گی جیسے اس سے پہلے تھی۔ کہنے والوں کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ ابھی اور بہت کچھ ہونا باقی ہے۔اب جو ہوا ہے وہ کچھ ایسا ہے کہ پہلے کبھی نہیں ہوا۔ ملکوں ملکوں کرفیو لگا ہے۔ سب کچھ بند ہے، لوگ گھروں میں بند ہو کر بیٹھ رہے ہیں۔ ہر ایک کو ہر ایک سے خوف ہے۔ کسی کو کسی سے ہاتھ ملانے کی تمنا نہیں، کوئی کسی سے گلے ملے، توبہ کیجئے۔ بہت سنی تھی چھوت کی بیماری، بہت کہا جاتا تھا اڑ کر لگنے والا مرض، اب پتا چلا کہ چھو کر لگنے والی بیماری بھی ہوتی ہے جسے لوگ چھوت کی بیماری کہتے ہیں۔ کوئی کسی کے قریب نہ جائے، کھانسی آنے پائے نہ چھینک آئے، میں جس چیز کو ہاتھ لگاؤں کوئی اور نہ لگائے، کوئی او ر جس چیز کو چھوئے میں اس سے پرے رہوں، ورنہ...؟ وہ ایک جرثومہ ہے جو کہیں چپ سادھے پڑا تھا۔ انسان اس سے واقف نہ تھا، دنیا کی ایک ایک چیز سے باخبر انسان کو اس کی خبر نہ تھی۔ ہر شے انسان کے بس میں تھی۔ جو نہیں تھی وہ کسی تاریک گوشے میں دبک کر بیٹھی ہوئی وہ مخلوق تھی کہ کورونا کہیں جسے۔ آخر وہ اس شان سے نمودار ہوئی کہ انسان کا سارا علم اور تمام کی تمام لیاقت دھری کی دھری رہ گئی۔ اب یوں ہے کہ کورونا وائرس کی ہرطرف پکار پڑی ہے، ہاہا کار مچی ہے۔ اس گلی تک آگئی، اگلے موڑ تک آگئی۔ علاقہ لپیٹ میں ہے، شہر زد پر ہے، ملک کا ملک آپے سے باہر ہوا جاتا ہے، اب کوئی سلامت رہے گا کہ نہیں، اب کون کسے بچائے گا اور کیسے۔ہر سوال کا جواب دینے والی دنیا اب بوکھلاہٹ کے عالم میں ادھر اُدھر دیکھ رہی ہے اور کوئی جواب بن نہیں پڑ رہا۔ سائنس چپ ہے، ریاضی خاموش ہے، کیمیا بےبس ہے اور طبیعات کے مشوروں کا ذخیرہ ختم ہوا چاہتا ہے۔ کیسی بےبسی ہے کہ اس کی جھولی میں ایک ہی مشورہ ہے کہ گھر میں بند ہوکر بیٹھ رہو۔ یہ بلا آپ ہی آئی تھی، آپ ہی چلی جائے گی۔ بعض دینے والے آسمانی برکات کا آسرا دلا رہے ہیں اور بعض زمینی گناہوں کو مجرم ٹھہرا رہے ہیں۔ کچھ اتنے بھولے ہیں کہ طرح طرح کے منتر بتا رہے ہیں کہ ان کی مالا جپو، ورنہ اپنے کیے کی سزا بھگتو۔ ایسے بھی ہیں جن کو یقین ہے کہ فلاں تیل پیو، بلا ٹل جائے گی، فلاں پتّی ابال کی کر پیو، بھلے چنگے ہو جاؤ گے۔ سچ ہے، ایسی فضا میں ایسے ہی لوگوں کا کاروبار چلتا ہے۔ جادو، تعویذ اور ٹونے کی دکان داری ایسے ہی زمانوں میں چمکتی ہے۔ جسے دیکھو اپنے ٹوٹکے بتا رہا ہے اور کامیابی کی سو سو کہانیاں دہرا رہا ہے۔ عقیدوں کی آزمائش کے یہی دن ہوا کرتے ہیں صاحبو!

ایک وقت تھا جب ہم کہا کرتے تھے کہ ہم سے انسان پر انسان کے ظلم نہیں دیکھے جاتے۔ جب ہم کہا کرتے تھے کہ یہ خوں ریزی کے منظر ہٹالو ہمارے آگے سے۔ جب ہم کہتے تھے کہ یہ جبر و تشدد ہم سے نہیں دیکھا جاتا۔ کیسی عجب بات ہے کہ آج ہم پکار اٹھے ہیں کہ انسان کی یہ بےبسی ہم سے نہیں دیکھی جاتی۔ وہ جو اپنے سپر پاور ہونے پر نازاں تھے آج آپس میں ایک دوسرے کو سمجھا رہے ہیں کہ رومال میں چھینکو، وہ بھی میسر نہ ہو تو اپنی کہنی کے پاس اپنی آستین میں چھینکو۔ آج ہم سوچتے ہیں کہ ہر زمانے میں آستین نے ہمارے کیسے کیسے کام نکالے اور بدلتے وقتوں کے ساتھ ہم نے اس میں کیا کیا چھپایا اور کیا کیا پالا۔ان دنوں ہم نے ایک نیا لفظ بھی سیکھا: لاک ڈاؤن، یعنی سب کچھ بند، کاروبار بند، کھانا پینا بند، دوا دارو بند، گلی چوبارے بند، شہر بند، علاقے بند، کشمیر بند۔ کہاں یہ پہاڑوں میں چھپی وادی اور اس میں لاک ڈاؤن، کہاں وہ لق و دق ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور اس میں لاک ڈاؤن،اب سب ایک ہوئے۔ کیا امریکی اور کیا کشمیری، سارے کے سارے ایک صف میں کھڑے ہر روز میّت بردار گاڑیوں کا آنا جانا شمار کررہے ہیں۔ سب کی طرف سے آنکھیں موندے امریکہ اب اچھی طر ح جاننے گا کہ لاک ڈاؤن کس بلا کا نام ہے اور یہ آباد بستیوں پر کیسا غضب ڈھاتا ہے۔

ایک چین بھی ہے، انسان ہی انسان، لوگ ہی لوگ، ایک بیمار پڑے تو سو کو جان کے لالے پڑ جائیں۔ کہتے ہیں یہ کورونا کی وبا وہیں چین سے پھوٹی تھی۔ ہم نے پوچھا کہ چینیوں کا قصور کیا تھا۔ جواب ملا کہ وہ بلا بدتر کھاتے ہیں، کچھ نہ ملے تو چمگادڑ کو بھی لقمہ تر جانتے ہیں اس لئے ان کے خون میں یہ گولیوں جیسا وائرس پیدا ہوا کہ جس کے بدن پر ایسے آنکڑے نکلے ہوتے ہیں جو کسی چیز سے چمٹ جائیں تو کوئی جدا نہ کر سکے مگر پھر کیا ہوا، جس میدان میں سارے بے بس ہوگئے وہاں وہی کیڑے مکوڑے کھانے والے چینی یوں اٹھ کھڑے ہوئے جیسے قومیں جہاد کے لئے سینہ سپر ہو جاتی ہیں۔ انہوں نے نہ دن دیکھا نہ رات۔ فرد کو فرد نہ سمجھا بلکہ پورے معاشرے کو ایک ملت جانا اور جی جان سے مرض کی بیخ کنی کا بیڑا اٹھایا۔ آخر اسی چین کے افق پر ایک روز نجات کا سورج ابھرا اور ویران پڑے ہوئے گلی کوچوں میں آج بچے یوں کھیل رہے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔

ترقی کی بلندیوں کو چھونے والے معاشرے سر کھپا رہے ہیں کہ کسی طرح کورونا وائرس کا علاج دریافت کرلیں۔ اور اگر یوں ہی دن رات ایک کرتے رہے تو دیکھنا ایک روز اس وائرس کا علاج نکل ہی آئے گا مگررہ رہ کر خیال آتا ہے کہ پھر کوئی نیا اور نرالا وائرس پھوٹ پڑا تو...؟

تازہ ترین