• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا وائرس کے بارے میں جو اطلاعات ہیں ان کے مطابق اس کا پہلا کیس نومبر میں چین کے شہر ووہان کی گوشت مارکیٹ میں سامنے آیا اور پھر پھیلتا ہی چلا گیا۔ یہ وائرس اس قدر تیزی سے اتنے وسیع پیمانے پر پھیلا کہ عالمی سطح پر ایسی کوئی مثال دکھائی نہیں دیتی۔ اس کا پھیلائو ہنوز جاری ہے اور اس پر قابو پانے کی بھی کوئی سبیل دکھائی نہیں دے رہی۔ کم و بیش دو تہائی دنیا اس کی زد میں آ چکی ہے۔ یورپ اور مشرق وسطیٰ میں ایران اس سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ پاکستان میں کورونا کے بڑھتے ہوئے کیسز سے نمٹنے کیلئے افواجِ پاکستان میدان میں آ گئی ہیں۔ بلوچستان اور سندھ میں کورونا کے مزید کیسز سامنے آ گئے ہیں اور ملک میں متاثرین کی تعداد 450 سے تجاوز کر گئی ہے، اس پھیلائو کو روکنے کیلئے 12ٹرینیں بند کر دی گئی ہیں جبکہ مزید 20کی بندش زیر غور ہے۔ پنجاب سے سندھ کیلئے بس سروس بھی معطل کر دی گئی ہے۔ پشاور اور مردان کو جزوی طور پر بند کر دیا گیا ہے۔ سندھ میں راشن کی تقسیم کا ذمہ فوج نے اپنے کاندھوں پر لے لیا ہے۔ وائرس کے حوالے سے مصدقہ اطلاعات کیلئے سرکاری ویب سائٹ جاری کر دی گئی ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے صوبائی چیف سیکرٹری کو بڑے ہوٹلوں کو قرنطینہ سنٹرز میں تبدیل کرنے کیلئے خط ارسال کر دیا ہے۔ دوسری جانب امریکہ سمیت دنیا کے جدید ترین ممالک بھی کورونا سے نمٹنے میں بری طرح ناکام ہو گئے ہیں۔ کروڑوں افراد گھروں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں، کورونا کے سبب اموات کی تعداد 10ہزار سے زائد بتائی جا رہی ہے۔ امریکی ویزہ سروس معطل کر دی گئی ہے۔ اٹلی، اسپین، فرانس اور برطانیہ میں ایک ہی روز میں 741افراد لقمہ اجل بن گئے۔امریکہ نے اس کے لیے 16ہزار ارب روپے مختص کر دیے ہیں۔ روس میں جمعرات کو کورونا سے پہلی ہلاکت کی تصدیق ہوئی جبکہ ایران میں ہر دس منٹ بعد ایک ہلاکت کی اطلاع ہے۔ نوول کورونا وائرس سے دنیا کے 178سے زائد ممالک میں ڈھائی لاکھ سے زائد افراد کے متاثر ہونے کی اطلاع ہے۔ دنیا بھر کی معاشی مشکلات اس پر مستزاد ہیں، اسٹاک مارکیٹیں کریش کر چکی ہیں، اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری انتونیو گوتریس کا یہ خدشہ بےجا نہیں کہ اگر جلد کورونا کے پھیلائو کو نہ روکا گیا تو دنیا میں لاکھوں افراد موت کے گھاٹ اتر جائیں گے اور اس وبا سے غریب ممالک کے زیادہ متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔ دنیا پر بلائے بےدرماں بن کر نازل ہونے والے کورونا وائرس کے بارے میں ابتدا میں کہا گیا کہ یہ دنیا میں ہر وقت موجود رہنے والے وائرسوں میں سے ایک ہے لیکن اتنا مہلک نہیں اور یہ کہ اس وائرس سے موت کے امکانات محض تین سے چار فیصد ہیں۔ شاید یہی وجہ رہی کہ دنیا نے اسے سنجیدگی سے نہ لیا حتیٰ کہ یہ سنجیدگی اس وقت بھی نہ سامنے آئی جب عالمی ادارۂ صحت کے سربراہ نے کورونا کو عالمی وبا قرار دیا۔ اس وبا کے برق رفتار پھیلائو کی ایک وجہ اس کی جانب سے اغماض برتنا بھی ہے، تحقیق کا عمل اگرچہ جاری ہے اور دنیا بھر کے سائنسدان کورونا کا شافی علاج کرنے پر مستعد ہیں لیکن ابھی تک ایسا کوئی علاج دریافت نہیں ہو سکا۔ ان حالات میں وہی اقدامات حکومتیں کیا کرتی ہیں جو کر رہی ہیں۔ یاد رہے یہ وائرس ان لوگوں کو جلد اپنی لپیٹ میں لیتا ہے جن کی قوتِ مدافعت کم ہو اور ہمارے ہاں ایسا ہی ہے، لہٰذا عامۃ الناس محکمۂ صحت کی طرف سے بتائی گئی احتیاطی تدابیر کو فریضہ جان کر ان پر عمل کریں۔ علاوہ ازیں قرنطینہ بنانے کیلئے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی تجویز پر بھی غور کرنا چاہئے کہ اب یہ اطلاعات بھی ہیں کہ موسم کے گرم ہونے پر بھی اس وائرس سے نجات کی کوئی ضمانت نہیں۔ اس موقع پر پوری قوم کو متحد ہوکر اس آفت سے نمٹنا ہوگا۔ یہ بات حرزِ جاں بنانا ہوگی کہ فی الوقت اس بیماری سے بچائو کا واحد طریقہ احتیاط اور صرف احتیاط ہے۔

تازہ ترین