• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ عرصے سے سندھ اور پنجاب کے شہروں مثلاً کراچی، حیدر آباد اور لاہور میں ادبی میلوں کے انعقاد سے ان علاقوں کے عوام میں کئی متنازع ایشوز پر کافی آگاہی بڑھ رہی ہے، اسی قسم کا ایک ادبی میلہ حیدر آباد میں فروری کے پہلے ہفتے میں منعقد ہوا۔ اس میلے کی ایک بیٹھک کا موضوع ’’دریائے سندھ سے سندھ کیلئے پانی کی دستیابی کے سلسلے میں پیدا کی جانے والی رکاوٹیں‘‘ تھا۔ اس بیٹھک میں سندھ کے کچھ ممتاز آبی ماہرین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس بیٹھک کے پہلے مقرر سندھ کے ایک سابق سیکرٹری آبپاشی خالد حیدر میمن تھے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ دریائے سندھ میں سندھ کے حصے کا پانی پنجاب میں چوری ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ حکومت سندھ کا فرض ہے کہ وہ خبر رکھے کہ پنجاب میں کہاں کہاں سندھ کا پانی چوری ہوتا ہے اور سندھ کے پانی کی مکمل فراہمی یقینی بنائے۔ خالد حیدر میمن نے اعتراف کیا کہ سندھ کے بڑے محکموں کے افسران میں سے غیرت اور ایمانداری ختم ہوتی جا رہی ہے، اس وجہ سے سندھ کے مسائل میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ سندھ بھر میں دریا اور کینالوں کے آخر تک دریائے سندھ کا پانی نہ پہنچنا بڑا جرم ہے۔ حکومت سندھ کو یہ اعداد و شمار ظاہر کرنا چاہئیں کہ دریائے سندھ کا پانی سمندر میں نہ جانے کی وجہ سے سندھ کی کتنی زمین پانی سے محروم ہو جاتی ہے اور اس وجہ سے ان علاقوں کے عوام کا کیا حال ہے، دریائے سندھ پر پانی کے دائمی حق کے بارے میں سندھ کے سابق سیکرٹری آبپاشی نے کہا کہ سندھ میں پانی کی کمی کے کئی اسباب ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ 1960ء میں دریائے سندھ سے نکلنے والے تین دریا ایک معاہدے کے ذریعے بھارت کو دیدیے گئے اور دریائے سندھ کے پانی کے اس حصے کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا جو سندھ کے سمندر میں جاتا تھا، بھارت نے 1960ء کے معاہدے کا سہارا لیکر جب اپنے یہاں ڈیم تعمیر کیے تو ہم پانی کی کمی سے متاثر ہوئے۔ علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ دریائے سندھ کو 20سے 25فیصد پانی دریائے کابل سے ملتا ہے۔ بھارت اور افغانستان کی مشترکہ حکمت عملی کے نتیجے میں یہ پانی بھی روک دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ 1945ء میں بھی پانی کا معاہدہ ہوا یہ سارے اقدامات سندھ کیلئے اس وجہ سے نقصانِ کار ہوئے کیونکہ سندھ کے افسران سوتے رہے، بعد میں 1991ء میں پانی کا معاہدہ ہوا جس سے سندھ کی پریشانیوں میں اضافہ ہوا۔ انہوں نے ایک اور سنگین انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ ہم حیران ہیں کہ پھلیلی کینال کا ڈیزائن غلط پلاننگ سے تیار ہوا۔

خالد میمن نے کہا کہ اسے پھلیلی کینال اور اکرم کینال کے متاثرین سے ہمدردی ہے اور وہ ان کی مدد کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اب صوبائی حکومت کو سندھ کے پانی کا کیس بڑی ہوشیاری سے لڑنا پڑے گا کیونکہ وہ ایک نئی اسکیم ’’سندھ کینال‘‘ کو سندھ کے خلاف سازش تصور کرتے ہیں۔ ایک اور مقرر عثمان راہو کڑو، جو دریائے سندھ پر مسلسل تحقیق کرتے رہے ہیں، نے کہا کہ اگر پھلیلی کینال متاثر ہوئی تو دریائے سندھ کا پانی سمندر میں داخل نہیں ہو سکے گا۔ تاریخ کا جائزہ لینا ہوگا کہ دریائے سندھ کے پانی کی فراہمی کس کس دور میں تبدیل کی جاتی رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ دور خطرناک دور ہے۔ اگر دریائے سندھ کا پانی سمندر میں داخل نہیں ہوا تو سندھ کا زیر زمین پانی نمکین ہو جائے گا۔ ماضی میں جب کوہستان کے پہاڑی علاقے اور تھر میں قحط پڑتا تھا تو وہاں کے کسان اپنے مویشی لیکر ٹھٹھہ اور بدین کی طرف آتے تھے تاکہ وہاں ان کے کھانے کا بندوبست کیا جا سکے مگر دریائے سندھ کے پانی کی فراہمی متاثر ہونے کی وجہ سے اب وہاں بھی گھاس وغیرہ نہیں اگتی جبکہ ماضی میں ایک یہ وقت بھی تھا کہ کراچی سے بدین ضلع میں واقع علی بندر تک سمندر کے کنارے پانی کے بہائو کی جگہیں تھیں۔ ایک انداز ے کے مطابق ان مقامات کی تعداد 26تھی، سندھ کی تاریخ کی یہ بندرگاہ آج بھی ریکارڈ پر موجود ہے، ہکڑو کیلئے پانی کا بہائو بند ہونے سے بدین ضلع کی یہ بندرگاہ متاثر ہوئی۔ سندھ کی تاریخ کاجائزہ لینے سے پتا چلتا ہے کہ ماضی کے سندھ میں اس وقت ٹھٹھہ اور بدین دارالحکومت ہوتے تھے مگر اب وہاں دریائے سندھ کا پانی نہ پہنچنے کی وجہ سے لاکھوں انسان، جانور اور پرندے یہ علاقے چھوڑتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ایل بی او ڈی کا الٹا بہائو بھی سندھ کیلئے ایک سانحہ ہے۔ دریائے سندھ کی تاریخ بتاتی ہے کہ کئی صدیوں سے دریا کا پانی سمندر میں داخل ہوتا رہا ہے، یہ سارے حقائق تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہیں۔ ’’رگ وید‘‘ میں اس دریائے سندھ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ نوجوان صحافی حاجی زاہد اسحاق نے کہا کہ اس وقت کے ضلع سجاول میں گزشتہ سال 39ہزار ایکٹر زمین پر گنے کی فصل کاشت کی گئی مگر پانی کی عدم فراہمی کی وجہ سے وہاں اب صرف 18ہزار ایکٹر زمین پر گنا کاشت ہو سکا ہے۔ دریائے سندھ کا پانی سمندر میں نہ گرنے سے اس وقت کے ضلع سجاول میں بشمول تعلقہ جاتی سارا ساحلی علاقہ بہت زیادہ متاثر ہوا ہے یہاں کے لوگ روزگار کی تلاش میں کراچی حیدر آباد اور نواب شاہ تک جا پہنچے ہیں یہ لوگ مجبور ہو کر دوسرے علاقوں میں منتقل ہو رہے ہیں، اس صورتحال کا حل یہ ہے کہ انڈس ڈیلٹا کو بچانے کیلئے دریائے سندھ کا پانی سمندر میں داخل کیا جائے۔

تازہ ترین