• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا وائرس کے خطرے نے پاکستانی قوم کو ایسی صورتحال سے دوچار کر دیا ہے جس سے پہلے کبھی سابقہ نہیں پڑا تھا۔ اس عالمگیر وبا نے تقریباً پورے کرہ ٔارض کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس چیلنج پر جلد قابو پانے اور جانی و معاشی نقصانات کو کم سے کم سطح پر رکھنے کے لیے قومی یکجہتی اور اتفاق ناگزیر ہے۔ مقامِ شکر ہے کہ حکومت وقت نے اس ضرورت کو محسوس کیا اور گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان اور اسپیکر اسد قیصر کی ملاقات میں کورونا کی روک تھام کی خاطر حکومتی اقدامات کی نگرانی کے لیے ملک کی پوری سیاسی قیادت کے تعاون کے حصول کا نہ صرف فیصلہ کیا گیا بلکہ اس مقصد کیلئے عملی پیش رفت بھی شروع ہوگئی ہے۔ اسپیکر نے گزشتہ روز ہی چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف اور رانا تنویر حسین نیز جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا اسعد محمود سے فون پر تبادلہ خیال کیا اور جاری کیے گئے بیان کے مطابق ان رہنماؤں نے کورونا وائرس کے چیلنج سے نمٹنے کی خاطر مشترکہ حکمت عملی وضع کرنے اور حکومتی اقدامات کی نگرانی کے لیے پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل میں مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ اپوزیشن قیادت نے اسپیکر کے اس موقف کی بھرپور تائید کی کہ اس مشکل وقت میں قوم کو یہ پیغام دیا جانا چاہیے کہ چیلنج سے نمٹنے کیلئے پوری سیاسی قیادت متحد ہے۔ بلاول بھٹو نے اسپیکر سے اتفاق کرتے ہوئے اپنی اور اپنی جماعت کی جانب سے قومی مقصد کے لیے حمایت کا اعادہ کیا جبکہ مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے قومی صحت کے علاوہ اس چیلنج کے معاشی مضمرات سے نمٹنے کی ضرورت بھی واضح کی اور اس کی خاطر قومی اتحاد و یکجہتی پر زور دیا۔ اسپیکر کے مطابق پارلیمانی کمیٹی کا باقاعدہ اعلان سیاسی جماعتوں کی جانب سے اراکین کیلئے نام موصول ہونے کے بعد قومی اسمبلی سیکریٹریٹ سے جلد ہی جاری ہوگا۔ یہ پیشرفت یقیناً نہایت امید افزا ہے؛ تاہم حکومتی حلقوں کو اس حقیقت کا احساس بھی ہونا چاہیے کہ محض کورونا ہی نہیں بلکہ ملک کو درپیش تمام داخلی اور بیرونی چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے قومی یکجہتی لازمی ہے۔ آج سے آٹھ دہائی پہلے برصغیر کے مسلمانوں نے قائداعظم محمد علی جناحؒ کی بصیرت افروز قیادت میں جس وطن کے حصول کا فیصلہ کیا تھا وہ تو اللہ کے فضل سے اس عزم کے محض سات سال بعد ہی وجود میں آگیا لیکن اس تاریخ ساز کامیابی کے بعد قیامِ پاکستان کے اصل مقاصد کے حوالے سے سات عشروں سے زیادہ کی مدت گزر جانے کے باوجود اب تک کوئی اطمینان بخش پیش رفت نظر نہیں آتی۔ عام آدمی کو زندگی کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی، اس کے معیارِ زندگی میں بہتری، معاشی ناہمواریوں اور ناانصافیوں کا خاتمہ، آئین و قانون کی حکمرانی، کمزور و طاقتور سب پر قانون کا یکساں نفاذ، بلاامتیازِ مذہب و عقیدہ اور علاقہ و زبان سب کے لیے آگے بڑھنے کے مساوی مواقع، تمام ریاستی اداروں کا اپنی آئینی حدود کا پابند رہنا، شفاف اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد، ان کے نتیجے میں وجود میں آنے والی پارلیمان کا حقیقی معنوں میں بااختیار ہونا، قومی ضرورتوں کے مطابق نظام تعلیم کی تشکیل، مقتدر طبقوں کے ہاتھوں قومی وسائل کی لوٹ کھسوٹ کا مؤثر سدباب، اس مقصد کے لیے واقعتاً ایسے بلاامتیاز اور بےلاگ نظامِ احتساب کا فعال ہونا جس کی کارکردگی سے یہ تاثر نہ ملے کہ اس کا اصل کام حکومتِ وقت سے اختلاف کرنے والوں کو خوف زدہ کرکے خاموش رہنے پر مجبور کرنا ہے، قیامِ پاکستان کے یہ وہ اصل اہداف ہیں جن میں سے کوئی بھی حقیقتاً حاصل نہیں کیا جا سکا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ نہ صرف ہماری سیاسی قیادت بلکہ تمام ریاستی ادارے اور قوم کے تمام طبقے اپنی اپنی انا اور مفادات کو بالائے طاق رکھ کر محض کورونا سے لڑنے کیلئے نہیں بلکہ قیامِ پاکستان کے ان تمام حقیقی اہداف کے حصول کے لیے متحد ہونے کا فیصلہ کر لیں۔

تازہ ترین