• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بہاولنگر کی تاریخ نے ایسی دلدوز محبتوں کا ہجوم شاید ہی کبھی دیکھا ہو اور وہ بھی کورونا وائرس کے پھیلتے خوف کے گمبھیر سایوں میں۔ وہ جو کبھی سماجی جمہوری جنگ میں کسی مورچے پہ نہ ہارا تھا، کینسر کے موذی مرض سے لڑتے لڑتے زندگی کی بازی ہار گیا۔ لیکن اس بار کامرانی کے جلوس کے بجائے، سوگواروں کا ہجوم اپنے بےلوث، ہردلعزیز عوامی رہنما سیّد ممتاز عالم گیلانی کے جسدِ خاکی کے آخری سفر میں اُسے وداع کرنے کے لیے جمع تھا۔ کورونا وائرس کے باعث اُس کی موت کا اعلان کیا گیا تھا، نہ کوئی روایتی نامہ و پیام۔ بس اس خبر کا سینہ بہ سینہ پھیلنا تھا کہ ’’گیلانی صاحب نہیں رہے‘‘، جانے کہاں کہاں سے اور کون کون سے لوگ آخری دیدار اور مغفرت کی دُعا کے لیے جمع ہو گئے۔ ہر آنکھ اشکبار تھی اور بارِ یگانگت سے جھکی ہوئی۔ میری اُن سے، اپنے بڑے بھائی اور کامریڈ سے ستر برس کی رفاقت انجام کو پہنچ رہی تھی اور سات دہائیوں کی جمہوری اور عوامی حقوق کی جدوجہد، قید و بند کے طویل سلسلے، رفاقت اور کربناک امتحانوں کے تمام مناظر میری آنکھوں کے سامنے گھوم رہے تھے۔ بس قلبی سکون اگر تھا بھی تو یہ کہ لوگوں کے تشکر کے جذبات سے بڑا نذرانۂ عقیدت کسی بھی عوامی رہنما کے لیے کیا ہو سکتا ہے۔ یہ تھے ممتاز عالم میرے بڑے بھائی جو ایک شفیق دادی اور اکیلی ماں اور خالہ کی کوششوں سے تعلیم حاصل کر پائے۔ راولپنڈی سے گریجویشن کرنے کے بعد وہ ایس ایم لا کالج میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے پہنچا تو کراچی میں موجود نوجوان انقلابیوں معراج محمد خان، فتحیاب علی خان اور شہنشاہ حسین وغیرہ کے ساتھ مل کر ایوب آمریت کے خلاف متحرک ہوگیا۔ وہ ایم ایس ایف کے پلیٹ فارم سے ایس ایم لا کالج کی یونین کا عہدیدار منتخب ہوا۔ 1964کے بالواسطہ انتخابات کا اعلان ہوا تو وہ بھی ملیر کینٹ کے فوجی علاقے سے بی ڈی ممبر منتخب ہوا۔ متحدہ اپوزیشن کی صدارتی اُمیدوار مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کی انتخابی مہم میں کوویرا اور محترمہ جناح نے اُسے اپنا چیف الیکشن ایجنٹ مقرر کر دیا۔ لیکن انہیں اور اُن کے دوست مناظر کو اغوا کر لیا گیا اور ایوب خان نے ایک بڑی انتخابی دھاندلی سے قائداعظم کی ہمشیرہ کو انتخابی معرکہ جیتنے نہ دیا۔ دریں اثنا 1965کی جنگ چھیڑی گئی اور ایوب خان کے ’’عشرہ ترقی‘‘ کا زوال شروع ہوا۔ اس کی نیولبرل اور ریاستی سرپرستی میں سماجی و علاقائی تفریق نے ایک طرف طبقاتی تفریق بڑھاتے ہوئے بائیس خاندانوں کی اجارہ داری تو قائم کی لیکن ’’ترقی‘‘ کے یہ ٹپکے محنت کشوں کے خشک ہونٹوں کو تر نہ کر سکے۔ اور وہ جگہ جگہ ہڑتالوں اور مظاہروں پہ مجبور ہو گئے۔ دوسری جانب مشرقی پاکستان و دیگر چھوٹے صوبوں کے استحصال سے علاقائی نابرابری کو مضبوط مرکز اور ملکی سلامتی کے نام پر اتنا بڑھایا گیا کہ 1940کی قرارداد میں کیے گئے علاقائی خودمختاری کے وعدے دفن ہو کر رہ گئے اور بنگالی، بلوچ، سندھی اور پختون قوم پرستی کے لاوے پھوٹ پڑے۔ ممتاز عالم جو کہ وکلا کے رہنما تھے، کالا کوٹ پہن کر باہر نکلے اور میں لاہور میں طالبعلموں کی ایکشن کمیٹی اور این ایس او کی رہنمائی کرتے ہوئے عظیم عوامی اُبھار میں شامل ہو گیا۔ بہاولنگر میں ’’جشن عشرہ ترقی‘‘ منایا جا رہا تھا اور ہم طالبعلم ایک جلوس لے کر جشن کی جگہ پہنچے ہی تھے کہ سارا میلہ اُلٹ گیا، کرفیو لگا اور ہمیں گرفتار کر لیا گیا۔

ایک برس پہلے 1967میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی جس میں ممتاز عالم بھی شامل تھے۔ 69ء کے عوامی اُبھار کی لہروں کے دوش پر ذوالفقار علی بھٹو ایک مقبول رہنما کے طور پر اُبھرے اور مغربی پاکستان میں چھا گئے۔ اب ایوب آمریت تو ختم ہوئی لیکن ایک اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل یحییٰ خان اقتدار پر براجمان ہو گیا۔معراج محمد خاں جیسے قدآور سوشلسٹ اور شیخ رشید، ڈاکٹر مبشر حسن اور ممتاز عالم جیسے سوشل ڈیمو کریٹس سے لیکر سندھ، پنجاب اور پختونخوا کے بڑے جاگیردار اور دیہی اور شہری محنت کشوں کا ایک جمِ غفیر پیپلز پارٹی میں شامل ہو گیا۔ جب انتخابات کا انعقاد ہوا تو پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر کھمبے کو بھی ووٹ پڑ گیا تو بائیں بازو کے اُن دوستوں جو ’’انتخاب نہیں انقلاب‘‘ پر مصر تھے اور جنہوں نے معراج محمد خاں اور ممتاز عالم سمیت درجنوں پارٹی ٹکٹ واپس کرتے ہوئے دوسروں کے لیے انتخابی مہم چلائی، انتخابات کے نتائج پر ہاتھ ملتے رہ گئے۔ اور جب بھٹو صاحب اقتدار میں آئے تو یہ لوگ رفتہ رفتہ سائیڈ لائن ہو گئے اور جاگیر داروں نے پیپلز پارٹی پہ اپنی گرفت مضبوط کر لی اور شیخ رشید جیسے کسان لیڈر پارٹی میں غیر موثر ہو گئے۔ ممتاز عالم بھی شیخ رشید کے اُن ساتھیوں  میں سے تھے جو اُمید کا دامن تھامے رہے۔ بھٹو صاحب کے دور میں جہاں کچی پکی اصلاحات ہوئیں وہاں ٹریڈ یونینز، کسانوں اور بائیں بازو والوں  پہ بھی ایک آفت ٹوٹی۔ میں اُس وقت مزدور کسان پارٹی میں تھا اور واں بھچراں (میانوالی) میں ہماری کسان ریلی پہ پولیس حملہ آور ہوئی اور ہمیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور میانوالی جیل ہمارا مقدر ٹھہری۔ پھر قومی اتحاد کی تحریک چلی اور جنرل ضیاء الحق طویل عرصے کے لیے اقتدار پر قابض ہو گیا۔ مارشل لا کی اس طویل رات کے خلاف ہزاروں جمہوریت پسندوں نے لمبی جیلیں کاٹیں، کوڑے کھائے اور عقوبت گاہوں  میں بدترین تشدد کا نشانہ بنے۔ ممتاز عالم بھی کئی بار جیلوں میں گئے اور میرے جیسے سوشلسٹوں اور انقلابیوں کے لیے جیل کی طویل رات ختم ہونے کو نہ آئی تاآنکہ آمریت کے سائے ڈھلنے شروع نہ ہوئے۔ جب 1988کے انتخابات ہوئے تو ممتاز عالم گیلانی نے بغیر ایک پیسہ خرچ کیے حلقہ این اے 144سے علاقے کے سب سے بڑے جاگیردار خاندان کو شکست دی جو 1970کے انتخابات میں بھی کامیاب رہا تھا۔ محترمہ بینظیر بھٹو سے اُن کا قریبی تعلق تھا اور اُنہوں نے انہیں اپنا چیف کوآرڈنیٹر بنایا۔ 2008کے انتخابات ہوئے تو ممتاز عالم پھر سے قومی اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے اور ملک کے پہلے وزیرِ انسانی قانون۔ وزارت کے پاس کوئی فنڈ نہ ہونے کے باوجود اُنہوں نے انسانی حقوق کے لیے بڑا کام کیا اور جمہوری جدوجہد کے سینکڑوں مجاہدین کی جدوجہد کے اعتراف میں بینظیر ہیومن رائٹس ایکسیلنس ایوارڈ جاری کیا۔ حکومت کے خاتمے پہ جب وہ گھر لوٹے تو خالی ہاتھ تھے۔ اگلے انتخابات میں اُنہیں پارٹی ٹکٹ سے محروم کر دیا گیا اور وہ پیپلز پارٹی کا جھنڈا پہنے آخری آرامگاہ میں سکون کی نیند سو گئے۔ اب عوام اُن کی یاد میں آنسو بہایا کیئں اور اُن کی بیگم ثمینہ عابدہ اُن کی یاد کے دیے جلایا کیئں۔

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

تازہ ترین