• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسان قدیم ہو یا جدید اس میں ایک خطرناک بات یہ بھی ہے کہ وہ محض اپنے مطلب کی خاطر دوستی رکھتا ہے اور مفید بات یہ کہ کچھ باہمی مفاد کیلئے بھی دوستی رکھتے ہیں۔ مطلبی دوستی بگاڑ کو جنم دیتی ہے اور باہمی مفاد کا رشتہ معاشرے میں بناؤ کی ترجمانی اور تعمیر سازی ہے! اپوزیشن اور حکومت میں لاکھ سیاسی دشمنی ہو مگر ریاستی مفاد کا باہمی رشتہ قائم رکھنا حکومتی فرض ہے۔ اس فرض کو کسی ’’غیبی یا نیبی‘‘ طاقت سے نہیں حقوقِ انسانی کے فلسفہ کی بنیاد پر پرکھنا ضروری ہے۔

ہم نے بارہا دیکھا کہ حکومتوں میں ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ہوا کرتے ہیں، لیکن ضرورت سے زیادہ سمجھدار لوگ دانتوں پر غور کرتے ہیں نہ جبڑے پر، اور نہ یہ دیکھتے ہیں ہاتھی سفید ہے یا چٹا سفید۔ گویا گرگٹ کی طرح رنگ بدلنا زیادہ سمجھداروں کے نزدیک آرٹ ہے اور بات بدلنا مینجمنٹ سائنسز۔ زمانہ اور آنگن کوئی بھی ہو اگر حکومت اور اس کے حریف ایسی پٹیاں پڑھے ہوں گے تو انسانی حقوق اور استحقاق کے فہم پر قیامت نہیں ٹوٹے گی؟ کوئی حکومت یا کوئی فرد سارا نہ سہی آدھا جھوٹ ہی بولے، آدھا بھی نہیں، چلیے بیس فیصد ہی جھوٹ بولے تو کیا سچائی انفیکٹیڈ نہ ہوگی؟ اور ایسا انفیکشن معاشرے میں وبا کی طرح پھیلتا ہے چاہے قوتِ مدافعت جتنی بھی ہو۔ ذہن نشین یہ بھی رہے کہ اِدھر اُدھر سے بلائے اور آئے نام نہاد ساتھی اور حکومتی حلیف کوآرڈنیشن اور نیک نامی کا سبب کم ہی بنتے ہیں۔ بس وقت بدلا کہ وہ بدلے۔ کم سن اور کم نظر تو یہ نہ سمجھے مگر چشمِ بینا والا تو ایسے ساتھیوں کے سیاق و سباق سے واقف ہوتا ہے سو وہ تو چبھے گا۔

چلیے ذرا کرکٹ ہی کی زبان میں دیکھ لیتے ہیں، کرکٹ جتنی بھی دلکش ہو اگر کمنٹیٹر خاموش اور اسٹیڈیم میں تماشائی کھیل کے رموز و اوقاف سے ناآشنا تو کرکٹنگ رعنائی ہوگی؟ وہ کھلاڑی ہی کیا ہے جو کمنٹیٹر کے لفظوں سے الرجک ہو، کمنٹیٹر سے آؤٹ کو ناٹ آؤٹ اور زیرو کو سنچری کہنے کی توقع رکھنا کہاں کی گیم ہے؟ کھیل کبھی کسی کھلاڑی کیلئے گونگا، بہرہ اور اندھا نہیں ہوتا۔ اور نہ کوئی کھلاڑی صرف محض امپائر سے کمنٹیٹر اور تماشائیوں کا کام لےکر کھیل میں دلکشی کے رنگ بھر سکتا ہے! سیانے کہتے ہیں ہار تسلیم کرنا کھیل کا پہلا اصول ہے۔ ہاں، سیانوں کی بات تو درست ہے اگر کھیل میں اصول بدلنا ہی گیم نہ ہو،تو۔ ایک دلچسپ بات کہوں؟ اگر رمیز راجہ مروجہ سیاسی کھیل کا کمنٹیٹر ہوتا تو اندر ہوتا۔

پائیدار ترقی کیلئے اہلیت اور نیت میں الائنمنٹ ضروری ہے اور بہت زیادہ ترقی کیلئے کچھ قوتوں کی مدد۔ ہم تو کہتے ہیں پھر بھی کوئی بات نہیں، چلتے چلتے نیت اور اہلیت کا کہیں بھی تال میل کر لیں کیونکہ توبہ کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے اور معاشرتی و جمہوری بناؤ کے دروازوں کے تالے ہردم کھلنے کیلئے بےتاب رہتے ہیں بشرطیکہ کوئی انسانی حقوق کے رنگ میں رنگا ہو اور استحقاق اور بلیک میلنگ کے فرق کو جانتا ہو۔

ہمارے ہاں دو رواج عام ہیں، ایک ٹھک کرکے کسی صاحبِ نظر یا پیشہ ور صحافی پر بلیک میلنگ کی تہمت لگا دینا، یہ جانے بغیر کہ وہ درست راہ پر ہے یا غلط شاہراہ پر۔ اور دوسرا اپنے استحقاق کو کلرک سے سیکرٹری اور ووٹر سے وزیراعظم تک اندھا دھند استعمال میں لانا۔ کیا کوئی دور اندیش اور ژرف نگاہ یہ بتلائے گا کہ پٹواری سے آئی جی پولیس تک اور ممبر اسمبلی سے وزرائے اعلیٰ و وزیراعظم تک اگر کوئی ڈرا دھمکا کر کام لے یا کرسی و عہدہ کا غلط استعمال کرے تو ایسی صورت میں ’’وائٹ میلر‘‘ کہلائے گا یا ’’ریڈ میلر‘‘؟ بلیک میلر بھی یقیناً اس معاشرےمیں پائے جاتے ہیں مگر وہ زیادہ تر تھیوری ٹیکل ہوتے ہیں یا پھر لگ گیا تیر، نہ لگا تو تکا کے مصداق۔ مگر اس گلوبلائزیشن، آئی سی ٹی سوسائٹی اور ڈیجیٹل لائف میں چوتھے ریاستی ستون کو گونگا، بہرہ اور اندھا تصور کیسے کیا جا سکتا ہے؟ ان حالات میں سوسائٹی اور ’’پریکٹیکل وائٹ میلر‘‘ کیلئے سائیڈ افیکٹس زیادہ مہلک نہیں ہو جائیں گے؟

حالات و واقعات کے حالیہ اثرات ان لوگوں پر بھی موجود ہیں جو ایوانوں اور بالاخانوں کی بظاہر رونق ہیں، کیونکہ ان اقتداری شہنائیوں، توانائیوں اور خوشنمائیوں کے بغیر ان کا جینا محال ہے مگر ساتھ ساتھ ایک خوف بھی اپنے اندر پال پوس رہے ہیں کہ کوئی غیر یقینی کیفیت یا کوئی یوٹرن ان کو اپنے اندر جکڑے گا تو کیا ہوگا؟

اس گلوبل ویلیج میں آواز نکلنے سے پہلے بازگشت بڑی دور تک نکل جاتی ہے۔ ایسے میں اگر انصاف فراہم کرنے والے سپریم ادارے کسی طاقتور ادارے کو یہ کہیں کہ ’’نیب کی نیت خراب ہے یا اہلیت کا فقدان؟‘‘ تو ایسے میں کیا تاثر زبان زدِ خواص و عوام ہوگا؟ جو لوگ سیاسی پارٹیوں کو انسٹیوشنز کی طرح نہیں چلا سکتے وہ امورِ ریاست بھی خوش اسلوبی سے چلانے کے قابل نہیں ہو سکتے یہ زید کے ٹولے سے ہوں یا بکر کے گروہ سے۔ ان نااہلیوں اور عاقبت نااندیشیوں کی صورت میں اگر کہیں رسمِ اذاں میں ذرا سا بھی روحِ بلالی کا عنصر سامنے آگیا تو اقتدار مزاحمت پر اترے بغیر کہاں رہ سکتا ہے۔ ایسا کل بھی تھا، اور آج بھی ہے۔ رسمِ اذاں کبھی روح بلالی کے ساتھ تو کبھی روحِ بلالی کے بغیر مگر سماعتوں کو تو اذاں ہی لگے گی، بس اثرات مختلف ہو سکتے ہیں لیکن یہ طے ہے کہ اذاں ایک ایسا عمل ہے اس پر ردعمل تو آئیں گے، کبھی نیبی تو کبھی غیبی، کبھی مثبت تو کبھی منفی۔ مگر صورت کچھ بھی ہو اور اذاں جیسی بھی بہرحال اذاں کی جگہ کوئی اور نہیں لے سکتا۔ خدمات کے سدا بہار قافلے چلتے رہیں گے، میر صاحب! آپ کا عزم ہی ہماری دلیل ہے۔

پھر بھی ہم ریاستی استقامت اور ملکی بناؤ ہی چاہیں گے سو ہم انکشاف نہ چھوڑیں گے اور امیدِ واثق ہے عادل انصاف نہیں چھوڑیں گے! حکومتیں بےنقاب ہوتی رہتی ہیں اور زنجیریں کھٹکتی رہتی ہیں۔ مگر زبانِ خلق کی اس بات پر ہم پریشاں ہیں کہ جب وہ بےنقاب ہوگا تو بےحساب ہوگا!

تازہ ترین