• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اُس نے پاکستان کے عوام کو پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا، لوگ کہتے ہیں وعدوں کی یہ خیالی عمارت زمین بوس ہو گئی بلکہ پہلے سے موجود چھوٹے بڑے شیلٹر تک غریبوں سے چھن گئے، اُس نے وزیراعظم ہائوس کو یونیورسٹی بنانے کا وعدہ کیا، گورنر ہائوسز کو تعلیمی اداروں میں تبدیل کرنے کا وعدہ بھی ایفا نہ ہو سکا لیکن یہاں موجود کاریں اور بھینسیں بیچ دی گئیں اور اب روزانہ سینکڑوں لیٹر دودھ باہر سے خریدا جاتا ہے۔ ضرورت پڑنے پر کاریں کرایہ پر لی جاتی ہیں، اُس نے کہا یہ میٹرو بسیں، اورنج ٹرینیں، یہ پل، یہ روڈ انفراسٹرکچر، انڈر پاسز سب فضول، پیسے کا ضیاع اور کرپشن کے ذرائع ہیں، ہم حکومت میں آکر تعلیمی ادارے اور اسپتال بنائیں گے، لیکن خود خیبر پختونخوا میں ’بی آر ٹی‘ منصوبہ بھی شروع کیا جس کی تکمیل کیلئے کئی تاریخیں دینے کے باوجود یہ مکمل نہیں ہوا اور اس میں ارب ہا روپے کی کرپشن بھی ہو چکی، کوئی نیا تعلیمی ادارہ یا نیا اسپتال تو کجا پرانے اسپتالوں کی صورتحال بھی بہتر نہیں ہو سکی۔ خان نے وعدہ کیا تھا کہ کھربوں ڈالر کی انویسٹمنٹ بیرونی ممالک سے آئے گی لیکن صورتحال یہ ہے کہ ملک کے اندر کا بزنس مین غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر اپنا سرمایہ روک کے بیٹھا ہے۔ جی ڈی پی کی شرح بھی افسوسناک ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر کی شرح بھی حوصلہ افزا نہیں۔ خان کا وعدہ تھا کہ کرپٹ لوگوں کو ساتھ نہیں رکھیں گے لیکن آج حقیقت کافی مختلف ہے، اُس نے چیخ چیخ کر بتایا تھا کہ عوام کا پیسہ لوٹنے والوں کو جیلوں میں ڈالیں گے اور لوٹا ہوا مال برآمد کرکے ملکی خزانے میں ڈالیں گے لیکن یہ وعدہ بھی دیگر وعدوں کی طرح ہوائی فائر ثابت ہوا۔ بعض لوگوں پر الزامات تو لگے، انہیں جیلوں میں بھی ڈالا گیا لیکن ایک روپیہ بھی ان سے نکلوایا نہ جا سکا۔ ان میں سے خاصے لوگوں کو تو بیرونِ ملک بھجوا دیا گیا اور بہت سے لوگ آہستہ آہستہ ضمانتوں پر رہا ہو رہے ہیں۔ خان نے کہا تھا آئین توڑنے والے پرویز مشرف پر آرٹیکل 6لگنا چاہئے لیکن جب ڈکٹیٹر پر کیس چلنے کا وقت آیا تو خان (حکومت) اسے رکوانے کیلئے خود فریق بن گیا! خان نے قوم سے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ وزیراعظم بن کر غریب کی قسمت، مجبور کا حلیہ اور کسان کا مقدر بدلنے کیلئے بہترین نئی پالیسیاں بنائے گا لیکن وہ ’خان‘ ہی کیا جس کا کوئی وعدہ ایفا ہو جائے چنانچہ ’’ڈھاک کے وہی تین پات‘‘ بحالت مجموعی عوام کے حالات مزید دگرگوں ہو گئے اور وہ اپنے عوام میں یوٹرن خان ہو گیا۔

گزرے اٹھارہ مہینوں میں خان نے اور کچھ کیا ہو یا نہ لیکن اُس نے ایک وعدہ بڑے عزم کے ساتھ پورا کیا، اُس نے کہا تھا میں نواز شریف اور آصف علی زرداری کو رُلائوں گا، انہیں جیل میں ڈالوں گا، خان کا یہ وعدہ پورا ہوا، اُس نے ان دونوں کو ان کے خاندان کے افراد اور پارٹی کےدیگر زعما سمیت جیلوں میں ڈالا اور اپنے اس وعدے کو پورا کرنے کیلئے حکومتی خزانے سے بےدریغ پیسہ بھی خرچ کیا اور بےشمار وقت بھی۔ خان نے ایک اور وعدہ بھی کیا تھا جو میڈیا کے ساتھ تھا، لہٰذا روزنامہ جنگ اور جیو ٹیلی وژن کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کو ’’نیب‘‘ کے ذریعے گرفتار کروا کے جیل میں ڈالنے کا یہ وعدہ بھی پورا کیا۔ بڑی تگ و دو کے بعد 34سال پرانا ایک الزام ڈھونڈا گیا، قانونی مشیروں نے خان کو بتایا کہ اس کیس میں سزا نہیں ہو سکے گی لیکن خان مصر تھا کہ ایک دفعہ انہیں جیل میں ڈالنا ضرور ہے۔ خان کی ضد آڑے آئی، چلو جیل نہ سہی حوالات ہی سہی، خان کا کیا ہوا وعدہ پورا ہوا، خان خوش ہے کہ میں نے بےشمار یوٹرن لیے، بہت سے وعدے پورے نہیں کیے لیکن اپنے مخالفین کو رُلانے یا جیل میں ڈالنے کی اپنی معصومانہ خواہش تو پوری کر ہی لی!

میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری پر اندرون و بیرون ملک صحافتی اور سماجی و انسانی حقوق کی بےشمار تنظیمیں سراپا احتجاج ہیں یقیناً یہ پاکستان کی صحافتی تاریخ کا ایک افسوسناک واقعہ ہے۔ پاکستان بننے سے پہلے اور بعد میں بھی بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان کو اپنے اخبار ’’زمیندار‘‘ میں حکومت پر تنقید اور سچ لکھنے کی پاداش میں بارہا جیلوں کی ہوا کھانا پڑی۔ ممتاز ادیب و صحافی مولانا چراغ حسن حسرت ہوں، روزنامہ جنگ کے بانی ایڈیٹر میر خلیل الرحمٰن یا پاکستان بھر میں سچ لکھنے اور کہنے کی پاداش میں سینکڑوں کارکن صحافی، انہوں نے اظہارِ رائے اور میڈیا کی آزادی کیلئے کوڑے بھی کھائے اور جیلیں بھی بھگتیں لیکن برصغیر کی انگریز حکومت ہو یا پاکستان کی مارشل لا و جمہوری حکومتیں، تاریخ کی گواہی موجود ہے کہ صحافیوں یا میڈیا ہائوسز پر دبائو بڑھانے یا انہیں دھمکانے ڈرانے سے سچ کبھی چھپ نہیں سکا اور شکست ہمیشہ حکومتوں کے حصے میں آئی۔ میر شکیل الرحمٰن کو غیر قانونی طور پر گرفتار کیا گیا تو کسی ایجنڈے پر چل رہے دو ایک میڈیا ہائوسز اور ان سے منسلک بعض صحافیوں نے تصویر کا غلط رخ دکھانے میں اپنی ’صلاحیتیں‘ صرف کیں، کسی نے میر صاحب کو ایک میڈیا ٹائیکون کہتے ہوئے یہ دلائل دیے کہ میر شکیل الرحمٰن صحافی نہیں ہیں چنانچہ صحافتی تنظیمیں ان کیلئے احتجاج کیوں کریں۔ اس ضمن میں پوری ذمہ داری سے ان لوگوں سے عرض ہے کہ میر شکیل الرحمٰن پچھلے چالیس سال سے شعبۂ صحافت سے منسلک ہیں، انہوں نے صحافت کی ہر صنف کو سیکھا بھی ہے اور کیا بھی۔ میری طرح بہت سے صحافی جانتے ہیں کہ میر صاحب روزنامہ جنگ لاہور کے پرانے دفتر گڑھی شاہو میں سب ایڈیٹر اور رپورٹرز کے ساتھ بیٹھ کر کام بھی کرتے تھے۔ 1980-81ء میں جب ’جنگ‘ لاہور سے شائع ہونا شروع ہوا تو پاکستان کی اردو صحافت میں ایک انقلاب آنا شروع ہوا، فور کلر پرنٹنگ سے لے کر کمپیوٹر ٹائپنگ اور صحافت میں نئے اسلوب و بیان کے طریقے، ہر شعبہ ہائے زندگی سے متعلق علیحدہ علیحدہ ایڈیشن، بہترین سہولتوں سے مزید دفتر اور دیگر بےشمار نئی صحافتی جہتیں صرف اور صرف میر شکیل الرحمٰن کی متعارف کردہ ہیں لہٰذا وہ صرف صحافی ہی نہیں بلکہ صحافیوں کے صحافی ہیں، سوال یہ بھی ہے کہ اگر صحافی ادارے کا مالک بھی ہو تو کیا وہ صحافی نہیں ہوتا؟

اس معاملے کا ایک دوسرا رخ بھی ہے کہ میر شکیل الرحمٰن پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا ہائوس کے مالک ہیں، ہزاروں ورکرز اور لاکھوں لوگوں کا روزگار ان کے ادارے سے منسلک ہے، اگر اس ادارے کو جس نے پوری دنیا میں پاکستان کی آواز پہنچائی، کے ساتھ اس قسم کا رویہ چہ معنی دارد؟ بڑے چھوٹے اداروں میں ملازمین کا آنا جانا معمول کی بات ہے، پوری دنیا میں ملازموں کو رکھا اور نکالا جاتا ہے لہٰذا یہ الزام دینا بھی درست نہیں کہ یہاں کسی کو ملازمت سے نکالا یا اُس کی تنخواہ روکی گئی۔ میں خود اٹھائیس سال سے لندن میں مقیم ہوں، جنگ لاہور اور بعد میں جنگ لندن میں بھی سالہا سال کام کیا، ہمارے تنخواہ کبھی ایک بار بھی نہیں رکی لیکن یہ ضرور سچ ہے کہ جب نئی نئی ٹیکنالوجی آتی ہے تو مین پاور کی ضرورت کم ہو جاتی ہے تو ملازمتیں ختم ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ میر شکیل الرحمٰن آج نظر آنے والی جدید صحافت کے معمار ہیں۔ ان کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر پاکستان کے ہر جمہوریت پسند صحافی کو آواز اٹھانا چاہئے۔

تازہ ترین