• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
افغان صدر حامد کرزئی کے حالیہ بیانات میں امریکہ کی سرعام سرزنش سے کیا بن پائے گا؟ ان بیانات نے نئے امریکی وزیر دفاع چک ہیگل کے پہلے افغان دورے کی فضا کو خراب کیا۔ اس سے بڑھ کر اب افغان صدر کی نیت اور 2014ء میں اتحادی افواج کے افغانستان سے پُرامن انخلاء پر بھی سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔ حامد کرزئی کے ان بیانات کو سمجھنے کے کئی طریق کار ہیں جس میں ان کا یہ الزام بھی شامل ہے کہ امریکہ افغان طالبان کی ملی بھگت سے دہشت گردی کیخلاف جنگ کو طول دے رہا ہے۔ ان الزامات کے عائد کرنے کی ایک تعبیر تو یہ ہے کہ افغان صدر نے جو امریکہ سے افغان قیدیوں کی حوالگی کا معاہدہ کیا وہ بروقت پورا نہ ہونے پر وہ اپنی مایوسی کا اظہار کر رہے۔ صدارتی ترجمان کے مطابق حامد کرزئی نے ایسے بیانات اس لئے دیئے کیونکہ مغربی ممالک نے خلوت میں ہونے والی ملاقاتوں کے دوران ان کی شکایات پر کان نہیں دھرے۔ اس حوالے سے دوسری تشریح یہ ہو سکتی ہے کہ جیسے جیسے2014 ء میں نیٹو کے افغانستان سے انخلاء کی تاریخ اور صدر کرزئی کی آخری صدارتی میعاد اختتام کے طرف گامزن ہے، ایسے حالات میں حامد کرزئی افغانستان میں اپنا تاثر بطور قوم پرست قائم کرنے کے لئے بے چین ہیں اور وہ یہ بات بھی ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ امریکہ کی کٹھ پتلی نہیں ہیں۔ کرزئی کو یہ بھی خدشہ ہے کہ امریکہ اور افغان طالبان کے مابین مذاکرات سے ان کی حیثیت ثانوی سی رہ جائے گی اس لئے وہ امریکہ کی سفارتی کاوشوں کو بھی تنقید کا نشانہ بناسکتے ہیں۔ افغان صدر کی جانب سے غیض و غضب سے مزین لفاظی کا اظہار دراصل سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت کیا گیا جس کا مقصد امریکہ پر یہ واضح کرنا ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلاء کے معاملے پر انہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ کرزئی کے ان بیانات کا ایک مقصد یہ پیغام رسانی بھی ہے کہ ان کی مدد کے بغیر امریکہ یہ نہ سمجھے کہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی سیکورٹی معاہدہ پایہٴ تکمیل تک پہنچے گا جو کہ 2014ء کے بعد بھی امریکی فوجیوں کی افغانستان میں موجودگی کی قانونی راہ ہموار کرتا ہے۔ افغان صدراتی ترجمان کے مطابق امریکہ کی جانب سے افغان قیدیوں کی حوالگی اور دوسرے امور پر اعتماد کے فقدان کے اظہار سے باہمی سیکورٹی معاہدے پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ فریب کاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے صدر کرزئی امن عمل کے حوالے سے موقف اس جانب کی جانے والی سفارتی کاوشوں کی راہ میں ایک رکاوٹ بنتی جارہی ہے۔ گزشتہ ماہ برطانیہ میں ہونے والی سہ فریقی کانفرنس جس میں پاکستان ، افغانستان اور برطانیہ شریک تھے، میں صدر کرزئی نے سیاسی عمل کی جانب ہر کوشش کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے افغان گروہوں اور طالبان کے مابین پیرس، کیوٹو اور اوسلو میں ہونے والی ہر غیر رسمی ملاقات کو مسترد کیا۔ کرزئی کا سخت اختلاف اقوام متحدہ کے تعاون سے ہونے والی ٹریک دوم سفارت کاری کے تحت ترکمانستان کے دارالحکومت اشک آباد میں منعقد کی جانے والی ملاقات کی منسوخی کا موجب بھی بنا جو کہ رواں ماہ ہونی تھی۔ ان ملاقاتوں اور مذاکرات کا مقصد مسئلہ افغانستان کے حل کے لئے بنیاد فراہم کرنا ہے۔ افغان صدر نے طالبان کے قطر میں دفتر کھولنے کی بھی مخالفت کی اور جو شرائط انہوں نے اس ضمن میں رکھیں وہ تو یقیناً سب ہی ناقابل قبول تھیں۔ بین الاقوامی برادری سمیت پاکستان اور امریکہ بھی طالبان کے قطر میں دفتر کھولنے کے اقدام کو افغانستان میں اندرونی مذاکرات اور مصالحتی عمل میں پیشرفت کا پیش خیمہ سمجھتے ہیں حالانکہ صدر کرزئی نے اپنے جنوری کے امریکی دورے میں اس دفتر کے کھولے جانے کی حمایت کا یقین دلایا تھا تاہم بعد میں وہ اپنے وعدے سے پھر گئے۔ لندن میں ہونے والی سہ فریقی کانفرنس میں انہوں نے طالبان کے قطر میں دفتر کھولنے کے حمایت کے حوالے سے شرط عائد کی تھی کہ مذکورہ دفتر صرف افغان حکومت کی ہائی پیس کونسل اور طالبان کے مابین مذاکرات کے مصرف کے لئے استعمال ہوگا، دوسری جانب طالبان افغان حکومت سے مذاکرات کے امکان کو پہلے ہی مسترد کرچکے ہیں، ان کا موقف ہے کہ وہ براہ راست امریکہ سے مذاکرات کریں گے۔کہا جاتا ہے کہ لندن کانفرنس سے قبل اور بعد میں افغان صدر کو ان کی نیشنل سیکورٹی ٹیم کی جانب سے یہ بتایا گیا کہ امریکہ، برطانیہ، پاکستان اور طالبان انہیں اور ان کی حکومت کو فارغ کرنے کی سازش کررہے ہیں۔ انہوں نے پاکستان پر بھی الزام عائد کیا کہ ہمسایہ ملک شمالی اتحاد اور طالبان کو ایک میز پر جمع کرکے انہیں افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے ہونے والے مذاکرات کے عمل سے باہر رکھنا چاہتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق انہوں نے سعودی عرب اور ترکی میں طالبان کے دفتر کھولنے کی راہ ہموار کرنے کے لئے خصوصی ایلچی بھیجے تاکہ شفاف طریقے سے طالبان کے دوحہ میں دفتر کو ختم کیا جاسکے۔ان اقدامات کو ان ممالک کی جانب سے پذیرائی نہ مل سکی تاہم یہ واضح ہو گیا کہ کرزئی قطر میں مذاکراتی عمل کو روکنا چاہتے ہیں تاہم امن عمل میں تیزی کے لئے اوباما انتظامیہ کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ مزید براں پاکستان اور امریکہ میں بھی امن عمل کو جاری رکھنے کیلئے ان پیچیدگیوں کو دور کرنے کے حوالے سے اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ امریکی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ واشنگٹن نے طالبان کے کئی اہم خدشات دور کئے ہیں اب بقیہ بار ان پر ہے، آگے بڑھنے کیلئے طالبان کو دو بیانات دینے کی ضرورت ہے جس سے ان کے قطر میں دفتر کھلنے کی باضابطہ راہ ہموار ہو سکے۔ پہلے بیان میں انہیں بین الاقوامی دہشت گردی کی مذمت کرنا ہوگی اور دوسرے میں طالبان کو یہ اشارہ دینا ہوگا کہ وہ تمام افغان اکائیوں سے مذاکرات کیلئے تیار ہیں۔ مغربی حکام نے اس یقین کا اظہار کیا کہ ایسے بیانات سے طالبان کے افغان حکومت کی ہائی پیس کونسل سے بھی بالآخر مذاکرات اور ملک میں مصالحتی عمل کی راہ ہموار ہو سکے گی جس سے صدر کرزئی کو بھی اس عمل میں شامل کیا جاسکے گا۔ پاکستانی حکام کو یقین ہے کہ طالبان کے قطر میں دفتر کھلنے کے بعد مختلف افغان گروپس میں مذاکرات کی راہ ہموار ہوسکے گی۔ امریکی حکام کے مطابق قطر نے انہیں چند ماہ قبل مشورہ دیا تھا کہ طالبان قیدیوں کے تبادلے کے بغیر ہی امن مذاکرات کیلئے مثبت بیانات دینے کو تیار ہیں جو کہ غلط ثابت ہوا۔ ایک مربوط سیاسی منصوبے کی کمی کے باعث اس موقع پر یہ ایک امتحان ہے کہ کس طرح صدر کرزئی کو ساتھ لے کر چلا جائے، ایک ایسا منصوبہ درکار ہے کہ جس سے سفارتی عمل کی رفتار میں اضافہ ہو اور کرزئی کے لئے امن عمل میں تاخیر اور اسے سبوتاژ کرنا مشکل ہوجائے۔ پاکستان کو یقین ہے کہ مصالحتی عمل کے لئے پہلے ہی وقت ہاتھ سے نکل رہا ہے جسے2014ء کے صدارتی انتخابات سے قبل ہی ہو جانا چاہئے تاکہ اس کی قابل عملی اور صداقت پر کسی قسم کے سوالات نہ کھڑے ہو سکیں۔ 2013ء میں امریکی افواج کی افغانستان سے واپسی کا عمل تیزی اختیار کرلے گا اس لئے مصالحتی عمل کی فوری تکمیل ہونا ضروری ہے اس سے قبل امریکہ کی دلچسپی اس میں ختم ہوجائے۔ افغانستان کی ابتر صورتحال کے پیش نظر وقت ضائع کرنے کی گنجائش بالکل نہیں ہے جہاں ایک غیر یقینی تبدیلی پہلے ہی جاری ہے۔ نیٹو افواج کے افغانستان سے جانے کے بعد افغان سیکورٹی فورسز کی ملک کی سیکورٹی صورتحال سنبھالنے کی قابلیت پر پہلے ہی سوال کھڑے ہوئے ہیں۔ غیر یقینی صورتحال سے بچنے کا واحد راستہ مذاکراتی حل تلاش کرنے کی کوششوں کو تیز کرنا ہے۔ جس سے نیٹو افواج کا محفوظ ، پُرامن انخلاء ممکن بنے گا اور افغانستان کی آئندہ نسلوں کو بھی بدنظمی کی نذر ہونے سے بچایا جاسکے گا۔
تازہ ترین