• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ واقعہ گزشتہ سال جنوری میں میرے آبائی علاقے ساہیوال میں پیش آیا جہاں کے ایک کسان ارشاد نے تھانے میںدرخواست دی کہ وہ کھیتوں سے دھنیا کاٹ کر منڈی فروخت کرنے جا رہا تھا کہ راستے میں افضل خرم نامی شخص نے اس پر پستول تان کر اس سے دھنیا چھین لیا۔اس چھینے گئے دھنیے کی مالیت ایک ہزار روپے سکہ رائج الوقت تھی پولیس نے مقدمہ درج کر کے ملزم کو گرفتار کیا توا س کے قبضے سے پستول کی بجائے ایک ہزار روپے کی برآمدگی ہوئی۔ ٹرائل کورٹ میں ملزم کی ضمانت کی درخواست مسترد ہوگئی جبکہ لاہور ہائی کورٹ نے بھی ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ اپنی نوعیت کا یہ دلچسپ مقدمہ گزشتہ ہفتے ملک کی سب سے بڑی عدالت میں پہنچ گیا جہاں جسٹس گلزار اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس کی سماعت کرتے ہوئے ملزم کی ضمانت منظور کرلی۔ مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے انتہائی حیرت ظاہر کی کہ ایک ہزار روپے کا دھنیا لوٹنے والا ملزم گزشتہ ایک سال سے جیل میں ہے۔ ایک ہزار روپے مالیت کے دھنیے کی ڈکیتی کے اس مقدمے میں تو عدالت عظمی نے ماتحت عدالتوں کے فیصلے کو انصاف کے منافی قرار دے کر ایک شہری کے ساتھ ایک سال سے روا رکھی جانے والی زیادتی کا ازالہ کر دیا لیکن چار اپریل کی تاریخ مجھے سینتیس برس قبل کی وہ تاریک رات یاد کرارہی ہے کہ جو انصاف کا ترازو ڈولنے پر ایسی سیاہ ہوئی کہ ا س انقلابی اور شاعر کونگل گئی جس کے بارے میں خود اسے سزا دینے والے بھی سمجھتے تھے کہ وہ ایک بے مثل، اپنے ملک کا عظیم ترین رہنما بلکہ ایشیا اور اس کے بعد لازما تیسری دنیا کا سب سے بڑا رہنما تھا۔ اس عظیم رہنما کو دنیا ذو الفقار علی بھٹو کے نام سے جانتی ہے۔ صرف سات سال کی عمر میں ممبئی کے گورنر لارڈ برابون کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے اپنے ملک کا خون چوسنے کا ذمہ دار قرار دینے والے بھٹو کو اسی گورے صاحب نے تلخ سچ بولنے پر انقلابی اور شاعر ہونے کا ایسا لقب دیا کہ موت کی کوٹھری میں تحریر کی جانے والی اپنی خودنوشت میں انہوں نے یہ الفاظ استعمال کئے کہ’’ یہی کچھ ہے جو میں ان بر سو ں میں رہا ہوں، ایک شاعر اور ایک انقلابی، اور جب تک میرے جسم میں سے آخری سانس نہیں نکل جاتی میں یہی رہوں گا‘‘۔ اپنے خلاف قتل کے مقدمے میں انصاف کے طلبگار اسی بھٹو نے ججز سے کہا تھا کہ’’یہ حقیقت فراموش کر دیجئے کہ میں پاکستان کا صدر اور وزیر اعظم رہا ہوں ،فراموش کر دیں کہ میں ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کارہنما ہوں،یہ سب کچھ بھلا دیجئے لیکن میں اس ملک کا شہری ہوں اور ایک مقدمہ قتل کا سامنا کر رہا ہوں ،حتیٰ کہ ایک عام شہری کو اور میں خود کو ایسا ہی سمجھتا ہوں ،انصاف سے انکار نہیں کیا جا سکتا‘‘۔ انکار کرنے والوں نے نہ صرف بھٹو کی کھلی سماعت کرنے کی درخواست رد کی بلکہ بند کمرے میں سماعت کے دوران بھی انہیں اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع نہ دیا۔ یہی نہیں بلکہ مقدمے کے دوران ہی ان کی کردار کشی کرنے اور ججز پراثر انداز ہونے کے لئے آمر حکومت نے ایک ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل قرطاس ابیض شائع کر کے تقسیم کیا تو اس کا جواب موت کی کوٹھری سے ’’اگر مجھے قتل کیا گیا‘‘ تحریر کر کے بھٹو نے خود دے دیا۔ ستم ظریفی یہ کہ بھٹو سے خوف زدہ حکمرانوں نے اس تاریخی دستاویز کو سپریم کورٹ میں پیش کرنے کی اجازت تک نہ دی اور اس کی اشاعت پر بھی پابندی لگا دی۔ آج اسی بھٹو کی سینتیسویں برسی ہے جس کو ایک متنازع عدالتی فیصلے کے تحت دی جانے والی سزائے موت پر عمل درآمد کرتے ہوئے تین اور چار اپریل کی درمیانی شب چپکے سے پھانسی دے کر چند لوگوں کی گواہی میں گڑھی خدا بخش کے قبرستان میں دفن کر دیا گیا کہ جس کے بارے میں ان کی پہلی اہلیہ شیریں امیر بیگم نے ایک صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارے تو کبھی کسی نوکر کوبھی سزا نہیں ہوئی۔ آج اسی بھٹو کی برسی ہے کہ جس کی وراثت میں تین ملک کی حکمرانی حاصل کرنیو الوں کے پاس ذاتی جیب میں اتنے پیسے بھی نہیں کہ وہ اس کی یاد کے لئے صرف کر سکیں،اسے بے حسی کہیں یا ہوس کی انتہا کہ اپنے محسن کی قبر پر پھول بھی صوبائی حکومت کے خرچ پر ڈالے جا رہے ہیں۔ یہ تو پچیس لاکھ روپے کی معمولی رقم ہے بھٹو کے وارثوں نے تو تاریخ کو درست کرنے اور ان کی پھانسی کے فیصلے پر رائے طلب کرنے کے لئے سپریم کورٹ میں دائر کئے جانے والے صدارتی ریفرنس کے لئے ’’جیالے سینئروکیل‘‘ کوکروڑوں روپے کی فیس بھی صوبائی حکومت کے خزانے سے ادا کی تھی۔ اس کی تفصیلات پھر کبھی سہی آج کا موضوع تو یہ ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے پانچ سال قبل بھٹو کو پھانسی دینے کے مقدمے پررائے لینے کےلئےسپریم کورٹ میں جو صدارتی ریفرنس دائر کیا تھا کیا وہ اس وقت کی عدالت عظمی پر دباو ڈالنے کا محض ایک سیاسی حربہ تھا یا آصف علی زرداری واقعی عدالت عظمی کو انصاف کے نظام پر لگے داغ کو دھونے کا موقع دے رہے تھے۔ قارئین کی یادداشت کے لئے وفاقی کابینہ کی منظوری سے 2 اپریل 2011 کو آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت دائر کئے گئے صدارتی ریفرنس میں پانچ سوالات پرعدالت عظمی کی رائے طلب کی گئی تھی کہ کیا سابق وزیر اعظم بھٹو کے قتل کے مقدمے کا عدالتی ٹرائل آئین میں دئیے گئے بنیادی انسانی حقوق سے مطابقت رکھتا ہے،کیا زیڈ اے بھٹو کی پھانسی اسلامی قوانین سے مطابقت رکھتی ہے،کیا بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ کسی عدالت میں بطور ریفرنس پیش کیا جا سکتا ہے۔ ججز کا رویہ جانب دارانہ ہو تو کیا عدالتی کارروائی کو منصفانہ قرار دیا جا سکتا ہے اور کیا اس وقت کے حالات اور ریکارڈ کے مطابق بھٹو کو دی جانے والی سزا درست تھی۔ اس صدارتی ریفرنس کی سماعت کے لئے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں گیارہ رکنی لارجر بنچ تشکیل دیا گیا۔ عدالت عظمی نے اس انتہائی اہم ریفرنس کی سماعت کے لئے اعتزاز احسن،مرحوم عبد الحفیظ پیرزادہ،ایس ایم ظفر اور فخرالدین جی ابراہیم سمیت دس عدالتی معاون بھی مقررکئے تھے۔ جون دو ہزارگیارہ تک ایوان صدر کے وکیل بابر اعوان نے اپنے دلائل مکمل کر لئے تاہم جون کے آخری ہفتے میں بعض ججزکی ریٹائرمنٹ پر بنچ پوراہونے تک سماعت ملتوی کر دی گئی۔ اسی دوران سابق صدر آصف زرداری نے ریفرنس کی جلد سماعت کرنے کےلئے چیف جسٹس کو خط بھی لکھا جس پر دسمبر دو ہزار گیارہ میں دوبارہ سماعت شروع ہوئی۔اسی دوران توہین عدالت کے مقدمے میں عدالت عظمی نے جنوری دو ہزار بارہ میں صدر کے وکیل بابر اعوان کا لائسنس معطل کر دیا اور ایوان صدر کو ان کی جگہ نیا وکیل مقرر کرنے کو کہا اورسماعت ملتوی کر دی گئی تاہم تب تک پیپلز پارٹی حکومت کی ترجیحات تبدیل ہو چکی تھیں اور عدالت عظمی کے بار بار استفسار کے باوجود چار ماہ بعد مئی میں بیرسٹر اعتزاز احسن کو نیا وکیل مقرر کیا گیا۔ پیپلزپارٹی حکومت کی طرف سے متبادل وکیل مقرر کرنے کے بعد عدالت عظمی میں صدارتی ریفرنس کی ملتوی کی جانے والی سماعت دوبارہ شروع نہ ہو سکی اورپیپلز پارٹی کی وفاق میں حکومت بھی ختم ہوگئی۔ بارہ جنوری کو عدالت عظمی نے ایوان صدر کے وکیل کے لائسنس کو معطل کرنے کے سنائے جانے والے فیصلے میں خود اعتراف کیا تھا کہ بھٹو کو سزائے موت دینے سے متعلق صدارتی ریفرنس پاکستان کی تاریخ کے اہم مقدمات میں سے ایک ہے۔ زمینی حقائق تبدیل ہونے کے ساتھ پیپلز پارٹی کی ترجیحات بھلے تبدیل ہو گئی ہوں اور گڑھی خدا بخش میں بھٹو کی سینتیسویں برسی مناتے ہوئے بھی شاید اسے اس صدارتی ریفرنس کی یاد نہ آئے لیکن اس عدالت عظمی کو ریفرنس کی دوبارہ سماعت ضرور شروع کرنی چاہئے جو ایک ہزار روپے کا دھنیا چھیننے پر ایک سال سے سزا کاٹنے والے کی داد رسی کرتی ہے۔اس عدالت عظمی سے یہ توقع ضرور کی جانی چاہئے کہ وہ سینتیس برس قبل کی جانے والی ناانصافی کا ناصرف ازالہ کرے گی بلکہ صدارتی ریفرنس میں پوچھے گئے پانچ سوالات کے جوابات دے کر نظام انصاف پر لگے داغ کو بھی دھوڈالے گی۔
تازہ ترین