• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قومی سطح پر بہت سی مضبوط مشترک قدروں کے باوجود پاکستان کے مختلف صوبوں میں فطری تنوع کے ابدی اصولوں کے تحت تہذیب و ثقافت کے اپنے اپنے رنگ، اپنی اپنی نسلی و علاقائی روایات، اپنے اپنے رسم و رواج اور رہن سہن کے اپنے اپنے طور طریقے صدیوں سے رائج چلے آ رہے ہیں پھر ان صوبوں کے اندر بھی مختلف علاقوں کے لوگ دوستی و دشمنی، سماجی ربط و ضبط، شادی بیاہ، بود و باش، تقاریب و تہوار، نشست و برخاست، عادات و اطوار، لباس اور بول چال کے حوالوں سے چھوٹے موٹے اختلاف کے ساتھ اپنی اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں اس لحاظ سے پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا کے لوگوں کی طرح بلوچستان کے بلوچ اور پشتون باشندوں کے بھی اپنے اپنے مخصوص معاشرتی اصول اور ضابطے ہیں جو تاریخ کی تائید حاصل ہونے کی بنا پر ان کی زندگی کا جزو لاینفک بن چکے ہیں۔ حالیہ بلوچ مزاحمت دوسرے عوامل کے علاوہ بلوچوں کے نسلی و ثقافتی احساس تفاخر اور اس کے تحفظ کی طویل تاریخی اور شعوری جدوجہد کا حصہ ہے نسلی لحاظ سے بعض بلوچ مورخین کے خیال میں بلوچ ہی بابل کی پہلی عظیم تہذیب کے بانی تھے۔ بلوچ مختلف خطوں سے ہوتے ہوئے بالآخر بحیرہ کیسپین کے شمالی ساحل سے نکل کر چھٹی اور چودہویں صدی عیسوی کے درمیان موجودہ پاکستانی اور ایرانی بلوچستان کی طرف ہجرت کر گئے اور یہاں مستقل آباد ہو گئے۔ بعض مورخین کی کتابوں میں بلوچوں کا وجود سات ہزار سال قبل مسیح کے عہد میں بھی ملتا ہے ہجرت، نقل مکانی، بادیہ پیمائی، دشت نوردی اور خانہ بدوشی کے علاوہ ننگ و ناموس کی خاطر سردھڑ کی بازی لگا دینا، اپنی ضد پر ڈٹے رہنا، خون آشام مہم جوئی، غیرت و حمیت، دلیری، قول کی پاسداری اور مہمان نوازی بھی بلوچوں کی فطرت ثانیہ رہی ہے جو آج کے ترقی یافتہ دور میں بہت کچھ بدل جانے کے بعد بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے اور قدم قدم پر اس کے مظاہر دیکھنے میں آتے ہیں۔ اپنے نسلی تفاخر، شناخت، تاریخی روایات اور رسوم و رواج کو مٹنے سے بچانے اور اپنی سرزمین اور اس کے وسائل پر اقتدار و اختیار قائم رکھنے کے لئے بلوچوں نے تاریخ کے ہر دور میں سختیاں جھیلیں اور مزاحمت کا عمل جاری رکھا۔ وفاق پاکستان سے اپنے آئینی حقوق کے حصول کی جدوجہد ان کے اسی عمل کا تسلسل ہے جو بلوچ کوڈ یا رواج و مزاج سے پوری طرح باخبر نہ ہونے والے حکمرانوں کے منفی طرز عمل، ہٹ دھرمی، وعدہ خلافیوں، اشتعال انگیزیوں اور دلیل و منطق سے ماورا اقدامات کے باعث باقاعدہ بغاوت کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔
بلوچوں سے اختلافی معاملات پر مذاکرات سے پہلے ان کے نظام حیات، سیاسی ضابطہ اخلاق اور فکری نظریات کو سمجھنا ضروری ہے۔ بلوچ اسلامی نیشنلزم پر یقین نہیں رکھتے ان کے سیاسی مدبرین اور دانشوروں کی دلیل یہ ہے کہ ہم صدیوں سے بلوچ تقریباً ساڑھے چودہ سو سال سے مسلمان اور 65 سال سے پاکستانی ہیں ان کا کہنا ہے کہ مسلمان کوئی قوم نہیں اگر قوم ہوتے تو دنیا کے تمام مسلمان ممالک ایک وحدت میں منسلک ہوتے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے ان کے نزدیک بلوچ ایک قوم، بلوچستان ان کا وطن اور پاکستان ایک ملک ہے، بلوچ مفکرین اور دانشوروں کے نزدیک بلوچ زبان، لٹریچر، مذہب، روایات اور عادات و محسوسات کے اعتبار سے ہمسایہ قوموں سے مختلف ہیں ان کا لباس الگ، کھانے الگ، کھانے کی عادات الگ اور شادی بیاہ کی رسومات الگ ہیں۔ بلوچ غیر بلوچوں کو بیٹیاں نہیں دیتے البتہ سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا کے جاٹوں، راجپوتوں اور دوسرے خاندانوں سے لڑکیوں کے رشتے لے لیتے ہیں۔
غیرت، بدلہ اور انتقام پر سختی سے یقین رکھتے ہیں خون کا بدلہ لینا تو دو سو سال بعد بھی نہیں بھولتے۔ روایت ہے کہ بلوچ کے دل میں خون کا بدلہ لینے کا جذبہ دو سو سال تک اس طرح جوان رہتا ہے جیسے دو سال کا ہرن، جو شخص بلوچ کے ہاں پناہ لے لے اس کی حفاظت کیلئے مرتے دم تک لڑتے ہیں۔ ایک لوک کہانی کے مطابق ایک شخص قتل کر کے آیا بلوچ سردار کے قدموں میں سر رکھ دیا اور پناہ مانگی اس نے سردار سے کہا کہ گھڑ سوار میرا پیچھا کر رہے ہیں مجھے بچالو، سردار نے اسے پناہ دے دی، اتنے میں سردار کا چھوٹا بیٹا وہاں پہنچ گیا اس نے باپ سے کہا کہ اس شخص نے میرے بڑے بھائی یعنی آپ کے بیٹے کو قتل کیا ہے آپ اسے پناہ کیسے دے رہے ہیں سردار دکھ کے ساتھ بولا ٹھیک ہے مگر اب میں اسے پناہ دے چکا ہوں اب یہ ہمارا مہمان ہے لیکن یاد رکھ دو سو سال بھی گزر جائیں تمہارے بھائی کی موت کا بدلہ ضرور لیا جائے گا۔ بیٹا مایوس ہو کر باہر چلا گیا، قاتل مہمان کے خیمے میں پہنچا اور اسکے سینے میں خنجر گھونپ دیا اگلی صبح اس کی لاش ملی تو سردار نے اپنے کپڑے پھاڑے، پگڑی سر سے اتار پھینکی اور گرجدار آواز میں پوچھا اسے کس نے قتل کیا اور سردار کے نام کو بٹہ لگایا چھوٹے بیٹے نے باپ کے قدموں میں گر کر اقبال جرم کیا اور معافی مانگی، سردار نے فوراً چاقو لیا اور بیٹے کے دل میں گھونپ دیا اس طرح اس نے پناہ کی روایت پر آنچ نہ آنے دی۔ایک اور روایت کے مطابق چند بلوچ لڑکے گرگٹ کو مارنے کیلئے اس کا پیچھا کر رہے تھے گرگٹ ایک گھر میں گھس گیا وہاں کوئی مرد نہیں تھا۔ گھر کی عورتوں نے بچوں کو متنبہ کیا کہ اس جانور نے ہماری پناہ (باہوٹ) لے لی ہے۔ اب تم اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے بچوں نے پروا نہ کی اور گھر میں گھس کر گرگٹ کو مار دیا۔ شام کو مرد گھر میں آئے تو خواتین نے انہیں واقعے سے آگاہ کیا۔ مرد تلواریں نکال کر باہر نکل آئے اور قصوروار بچوں کے قبیلے کو للکارا، اس کے لوگ بھی ہتھیار لے کر مقابلے کیلئے آ گئے،گھمسان کا رن پڑا اور دونوں طرف سے ستّر افراد مارے گئے۔ پناہ کی روایت توڑنے پر اتنی بڑی لڑائی اور جانی نقصان دوسروں کیلئے اچنبھے کی بات ہے مگر روایت پسند بلوچوں کیلئے نہیں۔ بلوچ دانشور ملک رمضان کے مطابق بلوچ سماج میں کسی فرد کا فعل اس کا نجی فعل نہیں رہتا۔ اس کی ذمہ داری اس کے پورے قبیلے کو منتقل ہو جاتی ہے۔ ایک قبیلے کا کوئی شخص کسی دوسرے قبیلے کے آدمی کو قتل کرتا ہے تو مقتول کے ورثا قاتل کے قبیلے میں سے کسی بھی شخص کو چاہے وہ اس جرم میں کسی طرح ملوث نہ ہو قصاص میں قتل کر سکتے ہیں۔
(مزید آئندہ کالم میں)
تازہ ترین