• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آمریت اور جمہوریت کے درمیان جاری آنکھ مچولی کے میچ کی تماشائی پاکستان کی پینسٹھ سالہ سیاسی تاریخ شاہد ہے کہ کچھ مشترک دوستوں اور حوالوں کے باوجود ان دونوں نے نہ صرف ایک دوسرے کو تسلیم کرنے سے انکار کیا بلکہ ایک دوسرے کے خلاف محاذ آراء بھی رہیں حالانکہ دنیا میں آج بھی بے شمار ممالک ایسے موجود ہیں جہاں کئی دہائیوں سے آمریت کا راج ہے اور تحریر، تقریر اور عملی طور پر اس کے خلاف کچھ خاص ناپسندیدگی کا اظہار بھی نہیں کیا جاتا یعنی دوسرے لفظوں میں اسے قبول کر لیا گیا ہے لیکن پاکستان میں ہمیشہ آمریت کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، اگرچہ وہ ہر بار مذہب اور مملکت کی بقاء کی کسی نہ کسی ڈھال اور بیساکھی کے ہمراہ کچھ رجعت پسندوں کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی تھی لیکن معاشرے کی اکثریت نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور اس اظہار کے صلے میں لوگوں کو سرعام تشدد کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ کبھی بھی اس کی اطاعت کرنے پر راضی نہ ہوئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ بادشاہت اور فرد کی حاکمیت کو تسلیم نہیں کرتا، کیوں کہ یہ اس کی فطرت اور مزاج کے خلاف ہے۔ وہ اجتماع پسند ہے اور غیر شعوری طور پر جمہوریت کا معتقد ہے کیوں کہ جمہوریت بتدریج فرد کی آمریت ختم کر کے ریاست اور معاشرے کو کسی ایک نظام کے ماتحت کرتی چلی جاتی ہے۔ ایک ایسا نظام جہاں کوئی کمزور اور توانا نہیں ہوتا بلکہ ہر کوئی نظام کے اندر رہ کر اپنے فرائض سرانجام دے رہا ہوتا ہے۔ پچھلے پانچ سالوں کے جمہوری دور میں اختیارات کا تاج فرد کے بجائے اداروں کے سر کی زینت بننے کا عمل جاری رہا حتیٰ کہ ریاست کے سب سے بڑے عہدیداروں یعنی صدر، وزیراعظم، وزیر اعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر نے بھی جمہوری قدروں کو پروان چڑھاتے ہوئے بعض معاملات میں اپنے اختیارات کو نہ صرف کم کیا بلکہ ختم کر دیا مثلاً ججوں کی تعیناتی کے جو اختیارات ان کے پاس تھے وہ اب پارلیمینٹ کی کمیٹی کو تفویض کر دیئے گئے ہیں جہاں ہر شہری رائے دینے کا اہل ہے۔ اسی طرح وہ ایک ایسے آزاد الیکشن کمیشن کا قیام عمل میں لائے جہاں وہ کسی قسم کی مداخلت کا حق نہیں رکھتے۔ فرد اختیارات کے بل بوتے پر من پسند فیصلے کر سکتا ہے اور ماضی میں ایسے افراد تو چیف جسٹس کو بھی گھر بھیج دیتے تھے۔ اس سارے عمل میں فرد کے بجائے نظام اور ادارے مستحکم ہوئے ہیں اور من مانی کرنے کے تمام وسیلے فرد سے اداروں کو منتقل ہو چکے ہیں۔
پاکستان جیسا ملک جہاں ہمیشہ ہی ذات، برادری، نسل، قومیت اور فرقہ کے حوالے سے انتخاب جیتے جاتے رہے ہوں، وہاں حکمران منشور پر عمل کے بجائے اچھی تقریروں سے لوگوں کی وفا داریاں سمیٹنے کا گُر سیکھ کر بظاہر عیش و عشرت میں وقت گزار دیتے تھے مگر اب صورتحال قطعاً تبدیل ہو چکی ہے۔ اب انتخابات ایک کڑے احتساب کی شکل اختیار کر گئے ہیں اور اس کا اہتمام اس ملک کی نمائندہ سیاسی جماعتوں یعنی حکمران اور اپوزیشن نے کیا ہے، یہ جانتے ہوئے کہ اس کا خمیازہ انہیں ہی بھگتنا ہو گا۔ بہرحال پاکستانی عوام کو پہلی بار ایک آزادانہ فضا میں اپنے نمائندے چننے کا موقع ملا ہے اور انہیں اپنے اختیارات سے آگاہی حاصل ہوئی ہے کیونکہ پہلی دفعہ جمہوریت اپنے اصلی معنی و مفہوم میں اجاگر ہو رہی ہے۔ میڈیا کی آنکھ ہر لمحہ انہیں حقائق پر مبنی تصویر کی جھلک دکھاتی رہتی ہے اس لئے اب انہیں چکنی چپڑی باتوں سے ورغلانا ممکن نہیں۔ اب تمام سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں کو علم ہو گا کہ ان کی زندگی واقعتا عوام کے فیصلے کی مرہون منت ہے اور کارکردگی کا معیار نہ صرف عوامی خدمت بلکہ ملکی بقا کے فیصلوں پر منحصر ہو گا۔ ہر جماعت کار کردگی کی بنیاد پر اپنا مقدمہ لے کر عوام کی عدالت میں پیش ہو گی۔ عوام جج کا کردار ادا کریں گے اور الیکشن کمیشن ایک طاقتور ریفری کی طرح قواعد و ضوابط میں کسی قسم کی خلاف ورزی کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ یہ سارا میکنزم جمہوریت کا عطا کردہ ہے۔ انتخاب کے ذریعے احتساب کا پھندہ سیاسی جماعتوں نے خود تیار کیا ہے اور فرد کے بجائے ادارے کی رائے کو مقدم کر کے سیاسی قیادتوں نے اپنے اختیارات کی قربانی دی ہے۔ ایسے نظام کو کس طرح برا کہا جا سکتا ہے؟ جمہوریت کے پانچ سالوں کو لوڈشیڈنگ، بیروزگاری اور دہشت گردی کے حوالے سے جانچنے والوں کو اس بات پر بھی توجہ دینی چاہئے کہ یہ سب تو آمریت کے تحفے ہیں مگر کیا کبھی انہوں نے آمرانہ دور میں ان کی کارکردگی کو اس طرح جانچنے کی سعی کی ہے؟ کیا آمریت میں یہ ممکن تھا کہ ایک آزاد اور طاقتور الیکشن کمیشن بنایا جائے اور خود کرسی چھوڑ کر غیر جانبدار فرد کو اختیارات سونپے جائیں؟ ایک جیسے ماحول اور معاشرے میں رہنے والے لوگ بحیثیت فرد ایک جیسے عمل اور کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ فطرت میں اچھائی اور برائی دونوں موجود ہے لیکن جمہوری نظام میں فرد چاہے جمہوریت نواز نہ بھی ہو مگر جمہوریت کے دائرے اور جھنڈے تلے آ جانے کے بعد وہ اپنی فطرت کے جبر اور اختیار پر قابو پا لیتا ہے کیوں کہ جمہوریت نظام ہی ایسا ہے کہ اس میں اچھے کام ہوتے ہیں۔ بھلے نواز شریف، آصف زرداری، الطاف حسین، چوہدری شجاعت حسین کی ذات میں بطور فرد خامیاں موجود ہوں مگر اجتماعی طور پر کئے گئے ان کے فیصلے ضرور مفید ہوں گے کیوں کہ جمہوریت اجتماعی کاوش کا نام ہے۔ عمران خان کو انفرادی طور پر نواز شریف اور زرداری یعنی حکومت اور اپوزیشن سے بہت سی شکایات ہو سکتی ہیں مگر انہوں نے باہمی صلاح مشورے سے جو الیکشن کمیشن تشکیل دیا ہے وہ اسے سراہتا ہے۔ اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو کو بطور فرد کچھ لوگ آج بھی ناپسند کرتے ہیں مگر وہ اس کے بنائے ہوئے 1973ء کے آئین کو پسند کرتے ہیں جب کہ ضیاء الحق جو ذاتی طور پر بہت نمازی اور پرہیز گار تھے اور ہر وقت نیکی کا پرچار کرتا تھے کے بنائے ہوئے کسی قانون کو آج پاکستانی معاشرہ ماننے کو تیار نہیں۔ جمہوری نظام اجتماعی سوچ کی عکاسی کرتا ہے تاہم یہ حقیقت ہے کہ ان انتخابات کے نتیجے میں جو جماعت حکومت بنائے گی وہ ہر لمحہ ایک کڑے احتساب کے عمل سے گزرے گی اور ہر عمل پر اس کا پہرہ ہو گا۔ کیا ہی اچھا ہو اگر پنجاب کابینہ کے منظور کردہ انفارمیشن بل کو آئندہ چاروں صوبائی اور قومی اسمبلی بھی پاس کر کے آئین کا حصہ بنا دیں تاکہ ہر حکومتی اور سرکاری فیصلے تک عوام کی رسائی ممکن ہو اور کرپشن کی گنجائش ختم ہو جائے۔ شاید یہی عمل جمہوریت کی بقا کا ضامن بن جائے کیوں کہ اسی سے عوام جھوٹے پروپیگنڈوں سے بچیں گے اور ان کا اعتماد بحال ہو گا اور اس وقت اصل مسئلہ عوام کا اعتماد بحال کرنا ہی ہے۔ اب سوچ کے بند دریچوں کو نئی اور تازہ ہوا کو خوش آمدید کہنے کے لئے وا کرنا ہو گا اور کسی فرد کے اچھے برے فعل کو نظام سے مشروط کرنے کے عمل کو ترک کرنا ہو گا۔ سیاسی جماعتوں کو حالات کے جبر نے بہت کچھ سکھا دیا ہے مگر بحیثیت قوم ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ ہم بھی خود کو تبدیل کریں اور آنے والے انتخابات میں ذات برادری کی بجائے کارکردگی کو معیار بنائیں۔ سیاسی جماعتیں بھی اپنی تقریروں میں مخالف جماعتوں پر تنقید کے بجائے اپنے منصوبوں کی فہرست لے کر جائیں۔ امید ہے آنے والا کل خوشیاں لے کر آئے گا۔
تازہ ترین