• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہرمصیبت میں کوئی نہ کوئی حکمت چھپی ہوئی ہوتی ہے یہ الگ بات ہے کہ بہت کم لوگ مصیبت میں چھپی ہوئی حکمت سے استفادہ کرتے ہیں اور مصیبت کی المناکی سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ لوگ جو مصیبت میں پوشیدہ حکمت سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں ان لوگوں میں ہم سرفہرست ہیں۔ آپ کورونا وائرس کی مثال لے لیجئے۔ کورونا وائرس سے بچے رہنے کے لئے حفاظتی تدابیر میں کچھ تدابیر نے ہمارے معاشرے کے لئے کمال کر دکھایا ہے۔ بیس پچیس روپے میں ملنے والے ماسک کا مارکیٹ سے گم ہو جانا اور پھر ظاہر ہونے کے بعد دو تین سو میں ملنا معمولی بات ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کچھ عرصہ قبل جب آشوبِ چشم کی وبا نے ملک کو گھیر لیا تھا، تب اچانک کالے چشمے ملک سے غائب ہو گئے تھے۔ آشوبِ چشم سے بچنے کیلئے ڈاکٹروں نے احتیاطی طور پر کالا چشمہ لگانے کی ہدایت کی تھی۔ وہ زمانہ ٹیلی وژن چینلز کی بھرمار کا زمانہ نہیں تھا۔ ریڈیو، وہ بھی ریڈیو پاکستان، گنتی کے اخبار اور ایک ٹیلی وژن چینل، یعنی پی ٹی وی یعنی پاکستان ٹیلی وژن ذریعہ مواصلات تھا۔ جیسے ہی اخبارات میں احتیاطی تدابیر شائع ہوئیں، ریڈیو اور ٹیلی وژن سے نشر ہوئیں، چھوٹی بڑی دکانوں، اسٹالوں، جنرل اسٹوروں اور سائیکلوں پر سجا کر بکنے والے کالے چشمے غائب ہو گئے۔ کالا چشمہ آشوبِ چشم کا علاج نہیں تھا۔ کالا چشمہ آشوبِ چشم کی وبا سے بچنے کی ایک احتیاطی تدبیر تھا۔ لوگوں کو کالا چشمہ لگانے کا ایک بہانہ مل گیا۔ کالے چشموں کی جیسے ہی طلب بڑھی، نتیجتاً کالے چشموں کی رسد کم پڑ گئی۔ مصیبتوں کے درپردہ حکمت تلاش کرنے والوں کو اچانک دولت کمانے کی ترکیب ہاتھ لگ گئی۔ انہوں نے ملک سے کالے چشمے غائب کردیے۔ مناسب وقت پر وہ جب کالے چشمے مارکیٹ میں لے آئے تب پچیس روپے میں بکنے و الا کالا چشمہ ڈھائی سو روپے میں ہاتھوں ہاتھ بکنے لگا۔

کورونا وائرس کے حو الے سے ملک میں خوف و ہراس اور پھیلی ہوئی افراتفری دیکھ کر مجھے آشوبِ چشم کے و ائرس کا زمانہ یاد آرہا ہے۔ آشوبِ چشم وائرس اور کورونا وائرس کا موازنہ کرنے سے مجھے محسوس ہوتا ہے کہ لوگ نابینا ہونے سے نہیں ڈرتے۔ لوگ مرنے سے ڈرتے ہیں۔ اب اوپر والے کی بات سمجھ میں آرہی ہے کہ کچھ لوگوں کی آنکھیں تو ہوتی ہیں مگر وہ دیکھ نہیں سکتے، کچھ لوگوں کے کان تو ہوتے ہیں مگر وہ سن نہیں سکتے، کچھ لوگوں کے منہ میں زبان تو ہوتی ہے مگر وہ بول نہیں سکتے۔ اوپر والے کی بات سمجھ میں آئی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ اور بہت سی باتیں سمجھ میں آنے لگی ہیں۔ دنیا میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو ہرحال میں زندہ رہنے کو اہمیت دیتے ہیں۔ وہ اس بات کو قطعی اہمیت نہیں دیتے کہ آنکھیں ہونے کے باوجود وہ دیکھ نہیں سکتے۔ وہ پروا نہیں کرتے کہ کان ہوتے ہوئے وہ سن نہیں سکتے۔ منہ میں زبان ہونے کے باوجود وہ بول نہیں سکتے وہ ہر قیمت پر زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ ایسےاشخاص میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس یقین کے ساتھ زندہ رہتے ہیں کہ وہ کبھی نہیں مر سکتے۔ آشوبِ چشم وائرس والے دور میں ڈاکٹروں نے لوگوں کو یقین دلایا تھا کہ آشوبِ چشم سے اندھے تو ہوسکتے ہیں مگر وہ مر نہیں سکتے۔ احتیاطی تدابیر اپنانے سے آپ آشوبِ چشم کے موذی مرض سے بچ بھی سکتے ہیں۔ بس ہر پاکستانی آنکھوں پر کالا چشمہ لگالے۔ لوگوں نے عام طور پر ڈاکٹروں کی بات سنی اَن سنی کردی۔ کبھی چشمہ نہیں لگایا۔ مگر دیکھے بھالے، جانے پہچانے، نامور اور بدنام، چور اور کوتوال جیسے لوگوں نے آنکھوں پر کالا چشمہ چڑھالیا۔ کچھ عرصہ بعد ہم بونگے بھول گئے کہ کالے چشمے کے پیچھے کس کی آنکھیں بھینگی تھیں۔ کون تھے ایسے لوگ کہ وہ جب مغرب کی طرف دیکھتے تھے تب لگتا تھا کہ وہ مشرق کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ کون تھے وہ لوگ جو دنیا کو محض اس لئے ایک آنکھ سے دیکھتے تھے کہ ان کے دوسری آنکھ نہیں ہوتی تھی۔کون تھے وہ لوگ جو طوطا چشم کہلاتے تھے۔ آنکھوں پر کالی عینک نے سب کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا تھا۔

کورونا وائرس سے بچے رہنے کی احتیاطی تدابیر میں بھی سب سے زیادہ زور ہاتھ دھونے پر ہے۔ لوگ دھڑا دھڑ ہاتھ دھونے لگے ہیں۔ وہ اس قدر ہاتھ دھونے لگے ہیں کہ ملک میں پانی کی قلت کا خطرہ منڈلانے لگا ہے۔ لوگ کورونا وائرس کے ڈر سے نہیں بلکہ ڈر میں چھپی ہوئی حکمت سے استفادہ کرنے کیلئے ہاتھ دھورہے ہیں۔ کورونا وائرس نے پاکستان میں کسی کے رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کا امکان ختم کردیا ہے۔ ہاتھ کی صفائی دکھانے والوں کے ہاتھ بھی اب صاف دکھائی دیتے ہیں۔ کچھ لوگوں نے ہاتھ دھو دھو کر ہاتھ کی لکیریں مٹادی ہیں۔ اب لوگ ہاتھ دھوکرکسی کے پیچھے نہیں پڑتے۔ کورونا وائرس کے ڈر سے انہوں نے اس قدر ہاتھ دھوئے ہیں کہ وہ جب چاہیں کسی کے پیچھے پڑ سکتے ہیں۔

تازہ ترین