• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ روز پاکستان کا ایک ایک ایسا ہیرو اُس جہاں کی طرف پرواز کرگیا ہے جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔ ایم ایم عالم ایک بہترین پائلٹ ایک سچا پاکستانی اور ہمارا عظیم ہیرو تھا۔ اللہ تعالیٰ اس ہیرو کے درجات بلند کرے اور ہمیں ہر فیلڈ میں ایسے ہی بہادر اور سچے پاکستانی عطا فرمائے۔ میں اگر اپنے بچپن کی طرف دیکھتا ہوں تو مجھے یاد آتا ہے کہ مارچ کا مہینہ آتے ہی میں اور میرے دوست اس تگ ودو میں لگ جاتے تھے کہ 23 مارچ کو ہونے والی مسلح افواج کی پریڈ کیلئے پاسز حاصل کئے جاسکیں۔ ہم سب بچے اپنے گھروالوں سے پاسز کے لیے ضد کیا کرتے تھے مجھے آج بھی یاد کہ ہم پریڈ سے پہلے اور بعد میں پریڈ میں حصہ لینے والے اُن جوانوں کی طرح مارچ پاسٹ کرنے کی کوشش کیا کرتے جو اپنے بازووٴں میں قومی پرچم تھامے خوبصورت یونیفارم پہنے کیا کرتے تھے۔ مارچ پاسٹ کرتے ہوئے آپ ان فوجی جوانوں کو کسی بھی اینگل سے دیکھیں یہ نظم وضبط کی خوبصورت تصویر نظر آتے تھے۔ برّی، بحری اور فضائی افواج کے دستے اپنے اپنے یونیفارم اور جھنڈوں کے ساتھ مارچ پاسٹ کرتے ہوئے بہت بھلے معلوم ہوتے تھے۔ ان میں کمانڈوز کا مارچ پاسٹ اور نعرہ تکبیر ہر پاکستانی کے جسم کے دورانِ خون کو تیز کردیتا تھا۔ اور جب وہ نعرہ لگاتے تو ہمارا بھی دل کرتا کہ ان سے بھی اُونچا اور فلک شگاف نعرہ لگائیں۔ مجھے اور میرے دوستوں کو مارچ میں حصہ لیتے، مشینی دستے بھی بڑی پرکشش نظر آتے تھے۔ چلتے ہوئے ٹینک جب اپنا رخ موڑتے ہوئے سلامی دیتے تو انکی ہیبت، معصومیت اور تابعداری میں تبدیلی ہوجاتی۔ حتف، شاہین اور دیگر میزائل دیکھ کر سر فخر سے بلند ہوجاتے ۔ صوبوں کے فلوٹ اس ملک کے بہادر اور خوبصورت لوگوں اور ثقافت کی عکاسی کرتے نظر آتے۔ پریڈ کے دوران کہے جانے والے یہ فقرے جناب صدر پریڈ برائے معائنہ تیار۔ ہوشیار، جلدی چل میرے ذہن میں آج بھی گونج رہے ہیں۔ لیکن اس ساری پریڈ میں سب سے زیادہ دلکش اور خون گرما دینے والا نظارہ وہ ہوتا تھا جب صدر مملکت پریڈ کا معائنہ کرنے کے بعد تیار کئے جانے والے اسٹیج پر آکر کھڑے ہی ہوتے تھے کہ ایک ایف 16 طیارہ جسے ائیرفورس کے چیف اڑایا کرتے تھے، انتہائی نیچی پرواز کرتا ہوا اسٹیج کے سامنے سے عمودی پرواز کرتا ہوا آسمان کی وسعتوں میں کھو جاتا، اس کی اڑان دیکھنے کیلئے ہر کوئی بے چین ہوتا اور جب یہ طیارہ اسٹیج کے سامنے سے گزر کر گھومتا ہوا فضا میں گم ہوتا تو ہم اپنی نشستوں پر کھڑے ہوجاتے ہم تالیاں بجانے لگتے اور مجھ سمیت میرے ہر دوست کے دل میں یہ ارمان مچلنے لگتے کہ ہم بھی پائلٹ بنیں گے۔ مجھے یاد ہے کہ اسکول میں اگر کوئی ٹیچر ، گھر میں کوئی رشتہ دار یا کوئی بھی بڑا ہم سے پوچھتا کہ تم بڑے ہوکر کیا بنو گے ،تو مجھ سمیت ہر بچہ کہتا میں پائلٹ بنوں گا۔ لیکن جس طرح ریس کورس راولپنڈی سے ہوتی ہوئی یہ پریڈ شاہراہ جمہوریت اور پاکستان اسپورٹس کمپلیکس پہنچنے کے بعد اب ختم ہوچکی ہے اسی طرح بچوں کے دلوں میں بھی پائلٹ اور فوجی بننے کی امنگ دم توڑتی جارہی ہے۔ بچے اپنے فخر کو دیکھنے سے محروم ہوچکے ہیں۔ پاکستان ائیرفورس کے کئی چیف جو پریڈ میں فلائنگ مارچ پاسٹ کی قیادت کیا کرتے تھے، وہ یہ خون گرما دینے والی سلامی دیئے بغیر ریٹائرڈ ہوچکے ہیں۔ آج سے ایک دون دن بعد 23 مارچ ہے، میں اور میرے کئی دوست اس دن کی مناسبت سے ہونے والی پریڈ کو مس کریں گے جو ہماری نوجوان نسل کے خون کو گرماتی تھی۔ ہمارے ذہنوں میں یہ سوال کروٹیں لے رہا ہے کہ کیا اب یہ پریڈ کبھی نہیں ہوگی؟۔ کیا اب ہماری نوجوان نسل میں کوئی ایم ایم عالم بننے کی خواہش نہیں جگائے گا؟۔
تازہ ترین