• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
واہ سیاستدانو واہ۔ آپ کا بھی جواب نہیں۔ پوری قوم کو کون بنے گا نگراں وزیر اعظم کے سوال میں الجھا کرایک طرف نگراں حکومت کے قیام میں دیر کر دی تو دوسری طرف 11مئی کوالیکشن کرانے کا اعلان 20 مارچ کو کیا تا کہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے لیے الیکشن کمیشن کو کسی بھی صورت میں سات روز سے زیادہ نہ ملیں۔ یہ تو نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری والی صورت حال ہو گئی۔پی پی پی ہو یا ن لیگ، دونوں کو مبارک کہ انہوں نے خوب سیاست کی اور بڑی خوبصورتی سے ٹیکس چوروں ، جعلی ڈگری والوں اور دوسرے سیاسی نوسربازوں کے سیاسی مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے الیکشن کمیشن کی چھلنی میں ایسے سوراخ کر دیے کہ چھلنی کو ہی کافی حد تک ناکارہ بنا دیا۔ گویا آئین کے آرٹیکل 62 اور 63کے نفاذ کو ایک بار پھر سیاستدانوں نے شکت دے دی۔ ویسے دوسری جماعتوں کے علاوہ عمران خان اور اُن کی تحریک انصاف بھی مبارکباد کی مستحق ہے کہ انہوں نے بھی جانچ پڑتال کے لیے وقت کو بڑھا کے چودہ دن یا ایک ماہ کرنے کی کوئی بات نہیں کی ، کوئی احتجاج نہیں کیا۔ بلکہ خان صاحب نے تو آرٹیکل 62 اور 63کے نفاذ کو صرف مالی معاملات تک محدود رکھنے کی بات کی جس پر پی پی اور ن والے بھی بہت خوش تھے۔ پینے پلانے والے، اسلام سے شرمانے اور سیکولر سوچ کے مالک افراد، غیر عورتوں سے ناجائز تعلق رکھنے والے اور پاکستان کی نظریاتی اساس کو رد کرنے والوں کے لیے تو پہلے ہی پارلیمنٹ میں داخل ہونا کوئی مسئلہ نہیں تھا اور نہ ہی اُن کو اب کی بار روکنے کے لیے الیکشن کمیشن نے کوئی خاص کارروائی کی۔ اگر امید تھی تو وہ جعلی ڈگری رکھنے والوں، ٹیکس چوروں، بنک یا کسی دوسرے حکومتی ادارے کے نادہندگان کو انتخابات سے باہر کرنے کی جس کے لیے الیکشن کمیشن کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے لیے مناسب وقت دینا انتہائی ضروری تھا مگر سیاست دانوں کے مک مکا نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ اور یہ مک مکا ایسا تھا کہ اس میں حکومتی جماعتیں ہوں یا فرینڈلی اور حقیقی اپوزیشن کے دعویدار سب ایک ہی کشتی کے سوار تھے۔ حکومتی اتحاد کی جانب سے اس سلسلے میں پیدا کی گئی رکاوٹیں سب کے سامنے ہیں۔ہرچند کہ میاں نواز شریف نے بدھ کو پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے اپنے تئیں مختلف اہم مسائل پر بات کی تاہم اس حوالے سے لب کشائی کرنا بھی گوارا نہ کیا۔الیکشن کمیشن نے کئی ہفتہ قبل پارلیمنٹ کو اپنامسودہ قانون بھیجا تا کہ گزشتہ اسمبلی کی مدت پوری ہونے سے پہلے ہی جانچ پڑتال کے لیے کم از کم 14 دن مقرر کرنے کی بات یقینی ہو جائے۔ جب الیکشن کمیشن نے دیکھا کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں اس معاملہ میں سنجیدہ نہیں اور یہ کہ گزشتہ اسمبلی بھی اس مسودہ قانون کو پاس کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی توالیکشن کمیشن نے اپنے اس ارادہ کا اظہار کیا کہ 16مارچ کے فوری بعد نگراں حکومت کے مقرر ہوتے ہی وہ ایک آرڈیننس کے ذریعے اپنے مسودہ کو قانونی شکل دلوا کر دوسری قانونی تبدیلیوں کے علاوہ کم از کم چودہ دن جانچ پڑتال کے لیے لے لیں گے۔ مگر سیاست دانوں نے 16 مارچ کیا آج 21 مارچ تک نگراں وزیراعظم کا فیصلہ ہی نہیں کیا اور اب امید یہ کی جا رہی ہے کہ یہ فیصلہ الیکشن کمیشن ہی کم از کم تین روز بعد یعنی24 مارچ تک کرے گا۔ گویا الیکشن کمیشن کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ اب تو اس مسئلہ میں عدالت عظمیٰ بھی کچھ نہیں کر سکتی۔ بلکہ الیکشن کمیشن نے جس شیڈول کا اعلان کیا ہے اُس کے مطابق تو ایک چھٹی کا دن آنے کی وجہ سے جانچ پڑتال کے لیے ریٹرننگ افسر کے پاس صرف چھ دن ہوں گے۔ میری ذاتی رائے میں اگر الیکشن کمیشن صحیح وقت پر ”شیر“ بن جاتا تو بہت کچھ ہو چکا ہوتا مگر افسوس کہ فخرو بھائی اور اُن کے ساتھیوں کو جاگنے میں کافی دیر لگی۔موجودہ حالات میں الیکشن کمیشن کے لیے ممکن نہیں کہ وہ جعلی ڈگری والوں، ٹیکس چوروں اور بنک یا کسی دوسرے حکومتی ادارے کے نادہندگان کو الیکشن سے باہر کر سکے۔ اس ناممکن کو ممکن بنانے کے لیے عدلیہ اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ الیکشن کمیشن جعلی ڈگری والوں کو روکنے میں ویسے ہی پس و پیش کا شکار ہے اور کہا یہ جا رہا ہے کہ جعلی ڈگری کے کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ نے الیکشن کمیشن کے ہاتھ باندھ دیے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے کچھ ممبرز نے مجھے کہا کہ جب سپریم کورٹ یہ کہہ دے کہ جعلی ڈگری والوں کا حتمی فیصلہ سیشن جج کرے گا تو الیکشن کمیشن ایسے تقریباً ساٹھ افراد (سابق ممبران قومی و صوبائی اسمبلی) کو الیکشن لڑنے سے کیسے روکے جن کی ڈگریوں کوہائر ایجوکیشن کمیشن جعلی قراد دے چکا ہے مگر عرصہ گزرنے کے باوجود متعلقہ سیشن ججوں نے ان کے بارے میں فیصلے نہیں دیے۔ یہاں عدلیہ اور خصوصاً سپریم کورٹ پر ذمہ داری آتی ہے کہ وہ اس مسئلہ کو حل کرے اور ایسے افراد کو الیکشن سے باہر کرنے کو یقینی بنائے جن کی ڈگریوں کو ہائر ایجوکیشن کمیشن جعلی قراد دے چکا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جعلی ڈگری والوں کی طرح ٹیکس چور اور بنکوں یا دوسرے حکومتی اداروں کے نادہندگان بھی مختلف عدالتوں سے حکم امتناعی لے کر انتخابات میں حصہ لینے کے لیے بڑی آسانی سے میدان میں موجود ہوں گے۔ ابھی اُن تقریباً 180 سابق ممبران پارلیمنٹ کے مستقبل کا بھی فیصلہ ہونا ہے جنہوں نے سپریم کورٹ کے حکم اور الیکشن کمیشن کی ہدایت کے باوجود اپنی ڈگریوں کی جانچ پڑتال نہیں کرائی۔ قانون اور عدالتی نظام کو اگر جعلی ڈگری والے، سپریم کورٹ اور لیکشن کمیشن کا حکم نہ ماننے والے، ٹیکس چور اور بنک نادہندگان اپنے حق میں استعمال کر کے پارلیمنٹ کو آلودہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو یہ عدلیہ، الیکشن کمیشن، سیاسی جماعتوں، میڈیا اور قانون و آئین سب کی ناکامی ہو گی۔ اس ناکامی کو کامیابی میں بدلنے کے لیے اس موقع پر ماسوائے سپریم کورٹ اور محترم چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے شاید کوئی دوسر ا کچھ نہیں کر سکتا۔ اگر اس وقت کچھ نہ کیا گیا تو پھر آئندہ پانچ سال عدلیہ، میڈیا اور الیکشن کمیشن آلودہ ممبران پارلیمنٹ کو باہر نکالنے کی کوششوں میں ہی لگے رہیں گے۔
تازہ ترین