• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پوچھا جاسکتا ہے اور یہ سوال ہر نئی صبح اور ڈھلتی شام کی تباہ کاریوں کے ساتھ پہلے سے زیادہ خطرناک جسامت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ ہندوستان کی مسلمان اقلیت کی جانی، مالی اور نظریاتی حفاظت کے لئے وجود میں لائی گئی ریاست میں اقلیتیں اس قدر غیر محفوظ کیوں ہیں کہ پولیس ان کی حفاظت سے معذوری ظاہر کرے اور حکومت ان کے جلا دیئے جانے والے گھروں کی تعمیر نو پر فخر کرے جبکہ اس ریاست کو اقلیتوں کے لئے محفوظ ترین جنت کا نمونہ ہونا چاہئے تھا۔
اس سوال کے بہت سارے جواب ہوں گے جن میں سے ایک جواب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مبینہ طور پر شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال کے خوابوں کی تعبیر کے مطابق وجود میں لائے گئے ملک میں علامہ اقبال کو محض پتھر یا لکڑی کے بت کی طرح پوجنے پر ہی توجہ دی گئی ہے اور عام لوگوں کی سمجھ میں آسانی سے آجانے والے خیالات اور حکمران طبقوں کو مفید، کارآمد اور قابل استعمال دکھائی دینے والے نظریات کو مسخ کرکے، ”اقبال دشمنی“ کا کاروبار تو خوب چلایا گیا مگر ”اقبال شناسی“ اور ”اقبال فہمی“ کی جانب بہت کم توجہ دی گئی کیونکہ یہ یقینی طور پر حکمران طبقوں کے مفادات کے خلاف جاتی تھیں۔ اس جانب توجہ دینے والے محدودے چند لوگوں میں سے اب صرف سہیل عمر، احمد جاوید، ڈاکٹر معین نظامی، پروفیسر فتح محمد ملک، ڈاکٹر اعجاز اکرم، ڈاکٹر کنیز یوسف، مہدی حسن،ڈاکٹر بارہ بلال اور قاسم جعفری جیسے دانشور ہی رہ گئے ہیں جن میں سے بیشتر نامساعد حالات کی زد میں ہونگے یا پھر ”ہٹ لسٹ“ پر بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ علامہ اقبال کے خانوادے، ان کے فرزند ڈاکٹر جاوید اقبال اور ان کی بیٹی کے گھرانے کے میاں اقبال صلاح الدین، میاں یوسف صلاح الدین کی فرض شناسی ہے کہ انہوں نے ایسے دانشوروں کو ”دبستان اقبال“ کے ذریعے ”اقبال فہمی“ اور ”اقبال شناسی“ کے فریضے اور ان کی فکر و فلسفے کو آگے بڑھانے کے لئے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ وہ کام ہے جو قیام پاکستان اور قائداعظم کی رحلت کے فوراً بعد شروع کر دیا جاتا تو شاید پاکستان تحریک پاکستان کے مخالفین اور دشمنوں کے تخلیق کردہ ”نظریہ پاکستان“ سے محفوظ رہتا۔ مشرقی پاکستان بھی پاکستان سے الگ ہونے پرمجبور نہ کیا جاتا اور ملک مذہبی شدت پسندی ، قدامت پرستی اور دہشت گردی کے حوالے نہ کیا جاتا اور دہشت گردوں کو دہشت گرد قرار دینے کی اجازت ہوتی اور انہیں مہذب الفاظ میں عزت و احترام سے ”خلاف قانون“ قرار دینے کی اجازت بھی مرحمت نہ فرمائی جاتی یہ سوچ کر بھی ڈر نہ لگ رہا ہوتا کہ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟ ”دبستانِ اقبال“ کے ایک لیکچر میں روشن خیال نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرزند اقبال ڈاکٹر جاوید اقبال فرماتے ہیں کہ ”اقبال کا تصور اسلام کیا ہے؟ اگر وہ پاکستان میں اسلامی ریاست قائم کرنا چاہتے تھے تو وہ کس نوعیت کی ریاست ہوتی؟ ان سوالوں کے جواب دینے سے بیشتر اقبال کے چند ایسے مقولوں کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے جن سے ان کے تصور اسلام کی وضاحت ہوتی ہے مثلاً علامہ فرماتے ہیں کہ ”زمانہ قدیم میں مذہب ”علاقائی“ تھا۔ یہودیت نے واضح کیا کہ مذہب ”نسلی“ ہے۔ مسیحیت نے تعلیم دی کہ مذہب ”ذاتی“ ہے مگر اسلام کا فرمان ہے کہ مذہب ”انسانی“ ہے۔ پھر فرماتے ہیں کہ ”توحید“ کا مطلب ”انسانی اتحاد“، ”انسانی مساوات“ اور ”انسانی آزادی“ ہے۔ علامہ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اسلام کی نہ کوئی زبان، نہ رسم الخط اور نہ لباس ہے۔(اسلام کی کوئی بھی زبان، رسم الخط اور لباس ہوسکتا ہے)جاوید اقبال کے مطابق علامہ اقبال نے ”روحانی جمہوریت“ کی تعریف بیان نہیں کی لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ان کا اشارہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضع کردہ تحریری دستور ”میثاق مدینہ“ کی طرف ہے۔ اس بنا پر علامہ کا قول ہے کہ اگر انسانوں کا گروہ علاقہ، نسل یا زبان کے اشتراک پر ایک قوم بن سکتا ہے تو عقیدہ کے اشتراک کی بنا پر بھی ایک قوم بن سکتا ہے۔ مولانا حسین احمد مدنی سے اقبال کے اختلاف کا سبب یہی تھا کہ ”مولانائے دیوبند“ مسلمانوں کو قوم کے اعتبار سے ”ہندوستانی“ اور ملت کے اعتبار سے مسلمان سمجھتے تھے لیکن اقبال کے نزدیک قوم اور ملت کے جو معنی ہمیں آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتائے ہیں ان دونوں میں کوئی فرق نہیں بلکہ ایک ہی معنی ہے یعنی مسلمانوں کی ”قومیت“ اسلام ہے۔ جاوید اقبال بتاتے ہیں کہ ”میثاق مدینہ“ کے پہلے حصے کی 23دفعات مسلمان شہریوں سے متعلق ہیں اور باقی 24دفعات غیر مسلمانوں یعنی یہودیوں، مسیحیوں اور کافروں کے مذہب کی آزادی اور اپنے علاقوں میں ان کے اپنے قوانین کے نفاذ سے متعلق ہیں۔ ”میثاق“ میں ریاست مدینہ (یعنی مدینہ شہر اس کے مضافات یعنی وادیٴ حجاز) کے سب شہریوں کو ”امت الواحدہ“قرار دیا گیا ہے۔ اگرچہ یہودیوں کی خلاف ورزی کے سبب یہ تحریری دستور کامیاب نہ ہوا لیکن رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوششوں کے سبب ”میثاق مدینہ“ کو مثالی آئین اور ماڈل دستور سمجھا گیا ہے“۔ جاوید اقبال کے ان قابل قدر خیالات سے امید پیدا ہوسکتی ہے کہ مستقبل قریب میں 11اگست 1947ء کو قانون ساز اسمبلی میں قائداعظم کے بیان کردہ ”امت الواحدہ“ کی طرز کے ”نظریہ پاکستان“ کو بھی ملک اور قوم کے بہترین مفاد میں مثالی، ماڈل اور لائق استعمال بلکہ دہشت گردی سے نجات کا موثر ذریعہ سمجھا جائے گا۔
تازہ ترین