• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انتخابات کے انعقاد کی تاریخ کے اعلان کے بعداب ملک بھر میں سیاسی سرگرمیاں زور وشور سے شروع ہو جائیں گی۔ ایسے میں جب سوال آئندہ پانچ سال کے لئے اپنی قسمت کسی کے ہاتھ میں دینے کا ہو تو عوام کو فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کرنا ہوگا۔آئندہ پچاس دن اس حوالے سے بھی اہم ہیں کہ ان دنوں میں عوام کو اپنے پرانے حکمرانوں سے ان کے پچھلے پانچ سالوں کی کاکردگی کے بارے میں پوچھنے کا موقع ملے گا۔ ان حالات میں بہت سارے ایشوز ایسے ہیں کہ جن کے بارے میں مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے بہت واضح حکمت عملی دینے کی ضرورت ہے۔ ان میں توانائی کے بحران کا حل سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے، کسی بھی ملک کی معاشی ترقی میں سب سے اہم کردار اس ملک میں موجود توانائی کے ذخائر اداکرتے ہیں۔پاکستان میں بدقسمتی سے اس بارے میں کسی نے کوئی خاطر خواہ حکمت عملی نہیں اپنائی یہی وجہ ہے کہ پچھلے چند سالوں میں پاکستان میں توانائی کا سنگین بحران رہا، اس دوران نہ صرف بجلی ناپید ہوگئی بلکہ پاکستان کے گیس ذخائر بھی تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔ یہی نہیں ملک میں آئے دن پٹرول اور ڈیزل کی قلت کا سامنا بھی کرنا پڑتا رہا، ایسے حالات میں معاشی ترقی تو ایک طرف، سست رفتار معیشت کو بھی سہارا دینا مشکل نظر آتا ہے۔
اگلی حکومت کے لئے چونکہ توانائی کے اس بحران سے نبٹنا سابقہ کابینہ کی طرح ایک بڑے امتحان سے کم نہ ہوگا۔ اسی لئے یہ بہت ضروری ہے کہ عوام اگلی حکومت کو منتخب کرتے وقت سیاسی جماعتوں سے توانائی کے بارے میں ان کی مکمل حکمت عملی کے بارے میں ضرور دریافت کریں۔ یہ عوا م کا فرض ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں سے دریافت کریں کہ آیا اقتدار میں آنے کے بعد وہ پن بجلی کے منصوبوں پر کام کریں گے یا پھر تھر کے کوئلے سے بجلی بنانے کی تیاری کریں گے۔ ان منصوبوں کی مجوزہ لاگت کیا ہوگی، ان منصوبوں کی تکمیل کے لئے کتنا عرصہ درکار ہوگا اوران منصوبوں پر آنے والے مالی اخراجات کس مد سے ادا کئے جائیں گے۔ کیا ان منصوبوں کے لئے کسی عالمی مالیاتی ادارے سے قرض لیا جائے گا یا پھر کسی برادر ملک سے آسان شرائط پر قرضے کا انتظام کیا جائے گا؟ ان منصوبوں میں سے کتنے شارٹ ٹرم اور کتنے لانگ ٹرم ہیں۔
توانائی میں بجلی ہی ہمارا واحد مسئلہ نہیں ہے، پاکستان میں چونکہ قدرتی گیس کا بھی بحران موجود ہے اس لئے عوام کو سیاسی جماعتوں سے یہ بھی دریافت کرنا ہوگاکہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ اس مسئلے کو کیسے حل کریں گے؟ کیا وہ اقتدار میں آنے کے بعد حالیہ دنوں میں ہونے والے ایران پاکستان گیس پائپ لائن پراجیکٹ کو جاری رکھیں گے؟ کیا وہ اس پراجیکٹ کی جلد تکمیل کے لئے اضافی وسائل استعمال کریں گے؟ ان اضافی وسائل کے بعد یہ پائپ لائن کب تک مکمل ہو جائے گی؟ کیا اس پائپ لائن کے لئے درکار فنڈزحاصل کرنے کے لئے نئی حکومت کوئی اضافی ٹیکس لگائے گی؟ کیا صرف اسی گیس پائپ لائن پر ہی اکتفا کیا جائے گا یا پھر پاکستان میں موجود گیس ذخائرکی ترقی اور بہتر استعمال کے لئے بھی کوئی اقدامات کئے جائیں گے جن سے مستقبل میں فائدہ اٹھایا جا سکے؟ عوام کو سیاسی جماعتوں سے ان کی گیس پالیسی کے بارے میں بھی پوچھنا ہوگاکہ ان کے اقتدار میں آنے کے بعدقدرتی گیس کا سب سے زیادہ حقدار کون ہوگا، گھریلو صارفین، انڈسٹریل سیکٹر یا پھر ٹرانسپورٹ سیکٹر؟
پاکستان میں آئے روز ہونے والی پٹرول اور ڈیزل کی قلت کے بارے میں بھی عوام کو سیاسی جماعتوں سے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے، اقتدار میں آنے کے بعد وہ کیسے یہ ممکن بنائیں گے کہ ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی مصنوعی یا غیر مصنوعی قلت نہ پیدا ہو پائے؟ پاکستان میں موجود تیل کے ذخائر کی ڈویلپمنٹ کے لئے کیاخاص اقدامات کئے جائیں گے؟ کیا دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی بائیو فیولز کو متعارف کروایا جائے گا تاکہ لوکل پروڈیوس ہونے کے باعث ہر سال اربوں ڈالرز کے تیل کے بل میں کچھ کمی کی جا سکے؟
توانائی کے بحران کے علاوہ دہشت گردی کے عفریت نے بھی پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لئے رکھا، اب جبکہ آئندہ سال امریکہ بھی افغانستان سے چلا جائے گا دہشت گردی کی جنگ کے خاتمے کے لئے سیاسی جماعتوں کی حکمت عملی کا واضح ہونا اور بھی ضروری ہو گیا ہے۔ اس سلسلے میں عوام کو یہ پتہ ہونا چاہیے کہ آخر کار اقتدار میں آنے کے بعد سیاستدان کس طرح سے اس مسئلے کو ختم کریں گے۔ کیا د ہشت گردوں سے مذاکرات کئے جائیں گے یا پھر ان سے جنگ کی جائے گی ۔اگر مذاکرات کا راستہ اپنایا جائے گا تو کن افراد سے مذاکرات کئے جائیں گے اور کن سے نہیں۔ یہ فیصلہ کرتے وقت کن شرائط کومدنظررکھا جائے گا اور کون سے گروہ یا افراد سے مذاکرات کئے جا سکتے ہیں اور کن سے نہیں؟ کیا مذاکرات کرنے کے لئے پہلے ہتھیار ڈالنے کی شرط رکھی جائے گی یا پھر یکطرفہ معافی کا اعلان کردیا جائے گا۔ دہشت گردوں کی جانب سے پیش کی گئی ماورائے آئین تجاویز کے بارے میں کیا موقف ہو گا؟ کیا مذاکرات کے لئے آئین پاکستان کے دائرہ کار سے باہر بھی کسی شرط کو مان لیا جائے گا؟کیا مذہبی دہشت گردی پھیلانے والے افراد سے بھی مذاکرات کئے جائیں گے یا پھر ان کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی جائے گی؟مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں حکومت کی حکمت عملی کیا ہوگی۔۔۔اور مذاکرات کی کامیابی کے بعد حکومت کی رٹ کو چیلنج کرنے والے افراد کے خلاف کیا کارروائی کی جائے گی؟ کیا ان افراد کے خلاف آپریشن کیا جائے گا یا پھر ان کے خلاف فوجداری مقدمات بنا کر انہیں عدالتوں کے ذریعے سزا دلوانے کی کوشش کی جائے گی۔
اگر اس بار بھی الیکشن میں عوام اپنے سیاسی لیڈران سے ان اہم ایشوز پر ان کی جامع اور واضح حکمت عملی کے بارے میں دریافت نہیں کریں گے اور ہمیشہ کی طرح ذات، دھڑے اور گلی محلے کی سیاست پر ووٹ دیں گے تو پھران بحرانوں کے قصوروارسیاستدان نہیں عوام ہوں گے۔ ملکی سطح پر ہونے والے انتخابات میں عوام کو ووٹ دیتے وقت ملک کو درپیش مسائل کا حل طلب کرنا چاہئے نہ کہ کسی علاقے میں گلی پختہ کروانے یا پھر ٹیوب ویل لگوا کر دینے پرامیدواران کی جھولی میں کئی سو ووٹ ڈال دینا۔ ان کاموں کے لئے لوکل گورنمنٹ کے نظام کے تحت منتخب افراد کی ضرورت ہے نہ کہ ملکی سطح پر قانون سازی کرنے والے افراد کی۔ اس الیکشن میں یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم کسی بھی سیاسی جماعت کو ووٹ دینے سے قبل اس کے نمائندے سے کم از کم ان مسائل کے بارے میں ضرور دریافت کریں۔
تازہ ترین