• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈیڑھ سو سال ہوئے جب انگریز حکمرانوں نے اعلان کیا تھا کہ پورے برصغیر میں سارے ٹھگ اپنے انجام کو پہنچے اور ٹھگی ختم ہو گئی ہے۔ کچھ روز پہلے یہی بات ہو رہی تھی تو یہ بڑا سوال ہمارے سامنے سر اٹھا رہا تھا کہ کیا یہ سچ ہے؟ کیا ٹھگ ختم ہوگئے؟سوال مختصر ہے مگر جواب اس سے بھی چھوٹا، نہیں۔
برصغیر میں ٹھگ کبھی ختم نہیں ہوئے وہ شکلیں بدل بدل کر ہمیشہ باقی رہے اور آج تک باقی ہیں۔ جس طرح اینٹی بایوٹکس دواؤں کا کثرت سے استعمال ہوا تو دواؤں کا اثر جاتا رہا اسی طرح جرم پر قابو پانے کے سارے حربے آزما لئے گئے تو اس دوران مجرم سخت جان ہو گئے اور آج کی دنیا کو ٹھگنے کے نئے نئے حیلے سیکھ گئے۔ اب کیسی عدالتیں اور کہاں کے قانون نافذ کرنے والے ادارے، ان لوگوں کی چالبازیوں اور عیاریوں کے آگے بے بس اور بے اثر ہوگئے ہیں اور نئے زمانے کے ٹھگوں کا حال یہ ہے کہ انہوں نے نت نئی چالیں چل کر بڑے بڑے فریبیوں اور آنکھوں میں دھول جھونکنے والوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
65ء کی جنگ میں ہم نے دیکھا تھا، معاہدہٴ تاشقند ہونے کے بعد ، جس کی بلّی کو پھر کبھی تھیلے سے باہر نکلنا نصیب نہیں ہوا، جس رات بارہ بجے جنگ بندی ہونی تھی، اس سے پہلے فوجوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر زیادہ سے زیادہ علاقہ دبوچنے کی کوشش کی تھی۔ بالکل یہی منظر کچھ روز پہلے ہم نے پاکستان کے اقتدار کے ایوانوں میں دیکھا۔ اس غضب کی بندر بانٹ ہوئی، اتنی ترقیاتی رقم مخصوص علاقوں میں لٹائی گئی اور اتنی تقرریاں ، ترقیاں اور تبادلے ہوئے کہ خدا کی پناہ۔ اتنی مراعات کا اشٹام لکھوا لیا گیا کہ یہ لوگ جب تک جئیں گے، چین سے ٹانگیں پھیلا کر جئیں گے۔ بالکل یوں لگتا تھا کہ کوئی خوفزدہ چور بھاگ رہا ہے اور لوگ چاہ رہے ہیں کہ اس کا لنگوٹ بھی کھینچ کر اتار لیں اور اسے ٹرافی بنا کر اپنے ڈرائنگ روم میں وہاں لٹکائیں جہاں شکار کی ہوئی دوسری مخلوق کے سر آویزاں کر رکھے ہیں۔
یہ آنکھیں، یہ ہماری آنکھیں کب تک، کہاں تک اور کتنے ایسے منظر دیکھیں گی کہ عقل اپنا سر پیٹے گی اور شعور اپنے بال نوچے گا۔
ہمارے زمانے کے ٹھگوں نے، جو اُنہی پرانے ٹھگوں کی نئی نسل ہے، اب نیا چولا بدلا ہے، ان کے بڑے تو راہ گیروں کو ہلاک کر کے ان کا مال اسباب لوٹا کرتے تھے۔ یہ نئے ٹھگ ایک نئی دھج سے نمودار ہوئے ہیں انہیں لوٹنے سے نہیں، مارنے سے غرض ہے۔ شرافت کے دنوں میں راہ چلتے لوگوں سے ان کے بٹوے، گھڑیاں یا موبائل فون چھینے جاتے تھے اور انہیں زندہ چھوڑ دیا جاتا تھا۔ ہمارے ایک دوست سے ان کی کار چھینی گئی اور ترس کھا کر انہیں پچاس روپے عنایت کئے گئے تاکہ رکشہ سے اپنے گھر جا سکیں۔ اب یوں نہیں ہوتا۔ اب لوٹتے نہیں، اب قتل کرتے ہیں اور گھر جاکر ٹیلی وژن پر ان کے مرنے کی خبریں دیکھتے ہیں اور اپنی کامیابیوں کا جشن مناتے ہیں۔
پھر ذرا دیکھئے کہ مارنے کے سو سو ڈھنگ نکالے ہیں۔ کسی کو یوں مارا کہ اس کے اختیار میں ایک بڑا قطعہ اراضی تھا اور اس زمین پر کسی بڑے صاحب کی رال ٹپک رہی تھی۔ خاتون نے زمین سیدھی طرح سے دینے سے انکار کیا تو لوگ ان پر گولیاں یوں برسا گئے جیسے اچھے دنوں میں سڑکوں پر پانی کا چھڑکاؤ ہوا کرتا تھا اور کسی کو یوں مارا کہ نہایت ذہین، شریف النفس، دیانتدار اور نیک سیرت استاد تھا اور اپنے عقیدے کا نہایت استواری سے وفادار تھا۔ کچھ لوگوں کو اس کا یہ اصل ایماں پسند نہ آیا اور اسے مار ڈالا۔ کچھ لوگ یوں مارے گئے کہ وہ اپنی مفلوک الحال بستیوں میں کچے پکے گھروندے بنا کر زندگی کے دن جوں توں پورے کر رہے تھے۔ غضب یہ ہوا کہ کوئی ان سے خفا ہو گیا اور شور مچا دیا کہ اس بستی کے لوگ ہمارے دین کی توہین کر رہے ہیں، بس پھر کیا تھا ایک مجمع اٹھا اور ساری بستی پھونک دی۔ صرف یہی نہیں، ان دکھیاروں کے گھروں کا ساز و سامان اپنے گھروں کو منتقل کر دیا۔ لٹی ہوئی عورتیں دنیا کو اپنے زیورات کے خالی ڈبّے دکھا دکھا کر نوحہ کرتی رہیں۔ دین کے نام پر ایمان کو یوں روندا گیا کہ آج وہ دو سو سال پہلے والے ٹھگ زندہ ہوتے تو ان کی گردنیں شرم سے جھک جاتیں۔
کیسا زمانہ آیا ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو اٹھا کر لے جا رہے ہیں۔ لڑکے اپنے ہم جماعتوں کو، دوست اپنے دوستوں کو، استاد اپنے شاگردوں کو اور مسٹنڈے کمزوروں کو اغوا کر رہے ہیں اور خلاصی کے لئے بھاری رقمیں طلب کر رہے ہیں۔ یہاں تک بھی بات سمجھ میں آتی ہے لیکن جہاں پہنچ کر بات سمجھ میں آنی بند ہو جاتی ہے وہ ایسا مرحلہ ہے جہاں ماں مطلوبہ رقم لے کر پہنچتی ہے اور پتہ چلتا ہے کہ اس کے بچے کو مار کر اس کی لاش کھیتوں میں پھینک دی گئی ہے۔ مارنا اور لاشیں پھینکنا تو روز کا معمول بن گیا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ نئے زمانے کے جلّاد صفت ٹھگ غریب گھرانوں کی بہو بیٹیوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں اور جن اینٹوں کے بھٹّوں میں وہ روزی کمانے آتی ہیں وہیں ان پر وحشیانہ حملے کر کے پھر یہ درندے ان کو ہلاک بھی کرتے ہیں اور لاشیں پھینک کر اپنے گرد آلود کپڑے جھاڑتے ہوئے اپنی حویلیوں کی آرام گاہوں میں جا کر پیٹ بھرے بھیڑئیے کی طرح سو رہتے ہیں۔
ایک اور ٹھگ وہ ہیں کہ تیزاب کی دکانو ں کا کاروبار شاید انہی سے چلتا ہے۔ کسی سے خفا ہوئے، اس پر تیزاب انڈیل دیا اور تیزاب انڈیلتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ مظلوم کا چہرہ اچھی طرح تباہ ہو جائے اور آنکھیں پوری طرح جھلس جائیں۔ غضب اس وقت ہوتا ہے جب پہلے تو پولیس والے مقدمہ درج کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ اس کے بعد ظلم کا نشانہ بننے والوں کو سمجھاتے ہیں کہ مقدمہ درج نہ کرائیں اور کچھ لے دے کر معاملہ رفع دفع کر دیں۔ وہ پھر بھی نہ مانیں اور لاشیں تھانے کے سامنے رکھ کر احتجاج کریں اور کسی کے زور ڈالنے پر مقدمہ درج بھی کریں تو اس کی عبارت میں ایسی ایسی چالیں چلتے ہیں اور عیاری کے ایسے ایسے کمالات دکھاتے ہیں کہ مقدمہ عدالت تک پہنچنے سے پہلے ہی غارت ہو جاتا ہے۔ آخری ستم اُس وقت ہوتا ہے جب ملزم پکڑا جاتا ہے یا اخباری زبان میں اس کی گرفتاری دکھائی جاتی ہے۔ وہ عدالت میں پیش ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ایک کالے کوٹ والا ہوتا ہے جو اپنی ہنرمندی کا مظاہرہ کرتا ہے اور بڑے سے بڑا مجرم تیسرے دن شہر کی سڑکوں پر نہ صرف آزادانہ گھوم رہا ہوتا ہے بلکہ کسی نئے شکار کی تلاش میں سرگرداں ہوتا ہے۔یہ کالے کوٹ والے عدالت سے تاریخیں بڑھوانے اور ضمانت پر چھڑانے کے ایسے ایسے کرتب جانتے ہیں کہ قانون کا ترازو ہر لمحہ ہوا میں ڈولتا ہی رہتا ہے۔
نئے زمانے کے نئے ٹھگوں کی یہ داستان بے حد طویل ہے۔ داستانیں عموماً راتوں کو سنائی جاتی ہیں۔ یہ داستانیں دن میں سنائی جائیں تو دن تاریک ہو جائیں اور دھوپ سیاہ پڑ جائے۔ اب تک اُن لٹیروں کی بات ہوئی جو کبھی اسکوٹر پر بیٹھے ایک استاد کو یا پورے پورے محلّے کو ہلاک کرتے ہیں۔ اُن ٹھگوں کی بات رہی جا رہی ہے جو پوری پوری نسلوں کو ہلاک کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یقین نہیں آتا کہ اس اکیسویں صدی میں کچھ لوگ ہر طرح کے مردار جانوروں، ہر قسم کے چھیچھڑوں، آلائشوں، کتّوں، گدھوں اور نہ جانے کون کون سے جانوروں کو ابال ابال کر ان کی چربی سے بناسپتی گھی بنا رہے ہیں اور ایک خلقت اسی چربی میں تلے ہوئے سموسے، نمک پارے، مچھلی اور پلاسٹک کے چمکدار پیکٹوں میں خوبصورتی سے بند کئے ہوئے دال موٹھ اور خدا جانے کیا الا بلا بڑے شوق سے کھا رہی ہے۔ یہ چربی اس زہر سے بھی زیادہ جان لیوا ہے جو کبھی مجرموں کو پیالے بھر بھر کر پلاتے تھے اور آہستہ آہستہ مار کر انہیں سزائے موت دی جاتی تھی۔ وہ مجرم جانتے تو تھے کہ یہ زہر پینے سے وہ مر جائیں گے مگر یہ مردار ہڈیوں کی چربی کھانے والے بے گناہ اور بے قصور لوگ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ موت ان کے دروازے پر ایسی دستک دے رہی ہے جس کی آواز نہیں ہوتی۔
میں اس داستان کو ان نوجوانوں کی بات پر ختم کرتا ہوں جو خالص قدرتی اور فطری جذبے سے سرشار کسی کو شریک حیات بنانے کا فیصلہ کرتے ہیں اور اپنی پسند سے شادی کر لیتے ہیں۔ بس پھر موت ان کا مقدر بن جاتی ہے، کیا لڑکی والے اور کیا لڑکے والے، اپنا نیا نویلا چمکتا دمکتا اسلحہ لے کر ان کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں یا باتیں بناکر اور ٹھگوں کی طرح جھوٹ بول کر انہیں گھر بلاتے ہیں اور اگلے ہی لمحے ان کی خاک و خون میں لتھڑی ہوئی محبت اپنے انجام کو پہنچتی ہے۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ گھر کی بیٹی محلے کے کسی نوجوان کو نگاہ بھر کر دیکھ لے تو گھر والے ایسے اشتیاق سے اس کو قتل کرتے ہیں جیسے کوئی بڑا میدان مار لیا ہو یا معرکہ سر کر لیا ہو۔
جس دین کو ہم نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہے اس دین کی تاریخ میں پہلی شادی پسند کی تھی۔ دونوں نے باہمی رضا مندی کا اظہار کیا اور اس طرح کی قباحتوں کو پس پشت ڈالا کہ لڑکی کی عمر زیادہ ہے یا وہ عورت ہو کر بڑا کاروبار کرتی ہے۔ کیسا مبارک دور رہا ہوگا کہ نہ کوئی کارو ہوا نہ کوئی کاری۔ کیسے متبرک لمحات ہوں گے جب اس خوش اسلوبی سے نکاح کی سنّت کی بنیاد پڑی۔ مگر آج یہ کیسے دہشت ناک لمحات ہیں کہ ان سے بوئے خوں آتی ہے اور ان کا ذکر ہو تو دن تاریک ہو جاتے ہیں اور دُھوپ سیاہ پڑ جاتی ہے۔
تازہ ترین